صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
رات والا اجنبی
عوض سعید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
تثلیث
اور وہ جلدی جلدی اس واقعہ کو سنانے لگا جو ابھی ابھی اس پر بیت چکا تھا۔ اس کی باتیں کچھ بے ربط سی تھیں۔ واقعات پیش کرنے میں شاید وہ مبالغہ سے کام لے رہا تھا،لیکن اس کے سینے کے زیر وبم سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ دور سے پیدل چل کر یہاں آیا ہے۔
’’ذرا ڈرائنگ روم کی کھڑکیاں کھول دو،مجھے گھبراہٹ سی محسوس ہو رہی ہے،ممکن ہو تو ایک گلاس پانی ہی پلا دو۔ ‘‘ اتنا کہہ کر اس نے اپنے پاوں آرام کرسی پر اس طرح جما دئیے جیسے وہ چند لمحوں کے لیے سکون چاہتا ہو۔ میں نے اس کے سامنے پانی کا گلاس لا کر رکھا مگر وہ پانی پینے کے بجائے سگریٹ پینے لگا،پانی یوں ہی دھرا رہا۔
میں نے اس سے کچھ نہ کہا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ خود بات آگے بڑھائے۔ اب تک اس نے جو کچھ بھی مجھ سے کہا تھا وہ میری سمجھ سے باہر تھا۔ ’’اب میں اُس کے ساتھ نہیں جاوں گا۔ ‘‘ درمیان میں بڑے کرب کے ساتھ اس نے یہ جُملہ کہا تھا۔
وہ بڑی دیر تک چپ چاپ سگریٹ پیتا رہا۔ ’’ میں نے تم سے پانی منگوایا تھا، شراب کا جام نہیں جس کے لیے تمھیں بھولنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ‘‘
اس نے طنز آمیز لہجے میں کہا۔
میں بجائے جواب دینے کے سامنے دھرا ہوا گلاس اُس کے منہ کے قریب لے گیا۔ وہ غٹا غٹ پانی پی گیا۔
’’ہاں میں خوب سمجھتا ہوں۔ یہ بھی سمجھتا ہوں کہ تم رائٹر ہو۔ ‘‘
کیا تم بتا سکتے ہو زمین کے عذاب سے تنگ آ کر ان مُردوں نے کس انداز سے مجھے دیکھا تھا مگر قبر کے وہ دروازے اچانک کیوں مقفل ہو گئے۔ ۔ ۔
تم کہو گے دائمی تنہائیوں کا کرب وہ اپنے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اٹھا لے گئے۔ کہیں ایسا تو نہیں میں یہاں اپنی حماقت کا کفّارہ ادا کرنے چلا آگیا۔
مجھے وہ پہلی سیڑھی یاد ہے جس پرچڑھ کر میں نے سوچا تھا کہ منزل پر پہنچ جاوں گا، لیکن مجھے بعد میں پتہ چلا کہ پہلی منزل سے آگے ایک دوسری منزل بھی ہے جہاں پہنچنے سے پہلے مجھے ایک بار ٹھوکر کھانی ہے لیکن میں ابھی تک پہلی سیڑھی پر ہی کھڑا ہوں۔ دوسری منزل کے زینے پر ٹھہرے ہوئے اس آدمی کو میں اچھی طرح جانتا ہوں جو ہمیشہ چہرے پر نقاب اوڑھے رہتا ہے۔ وہ زینے سے اس طرح چمٹ گیا ہے جیسے وہ آدمی نہیں جونک ہو، مگر پھر بھی میں دیکھتا ہوں کہ لوگ سڑک پر چلتے ہیں۔ پتہ نہیں ان لوگوں کو سڑک پر اس طرح چلنے کی عادت کیوں پڑ گئی ہے۔ کیا مسلسل چلتے رہنا بھی ایک ہوس ہے۔ یہ لوگ کس کے تعاقب میں ہراساں ہیں مگر وہ دوسری منزل سے چمٹا ہوا آدمی۔
کیا تم بتا سکتے ہو کہ میں وہاں کیسے پہنچ سکا جب کہ دوسرا زینہ۔
ایک بار پھر وہ چُپ ہو کر رہ گیا۔
شام دھواں دھواں سی لگ رہی تھی۔ ہوا کے دبیز جھونکے کھڑکیوں کو پھلانگتے ہوئے دبے پاوں اندر داخل ہو رہے تھے۔
وہ مجھے اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے اس واقعہ کا سب سے اہم کردار میں ہی ہوں۔ اس کی بے ربط باتوں کو سن کر مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے ہر چیز سر تاپا جھوٹ ہے، برہنہ ہے،ہر مسکراہٹ کے پیچھے ناکام آرزوؤں کا ایک ہجوم ہے جس میں شاید وہ گھرا ہوا ہو۔
تم کیا سوچ رہے ہو یہ میں جانتا ہوں۔ تمھاری خاموشی اس پرندے کی مانند ہے جو صدیوں سے ایک ہی درخت پر بیٹھا ہو۔ رائٹر یہ کہہ کر بجائے مسکرانے کے بے ساختہ ہنس پڑا۔ اس کی یہ ہنسی مجھے بڑی بھیانک لگی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کسی ویران قبرستان میں کوئی اُلّو بول رہا ہو۔
دوسری منزل کا وہ کشادہ زینہ اور اس سے چمٹا ہوا وہ آدمی۔
رات،روشنی،اندھیرا۔ اندھیرا روشنی اور پھر رات اور رات کی کوکھ سے جنم لینے والے نقلی چہرے۔ کہر کی طرح غائب ہوتے ہوئے یہ مصنوعی لوگ۔ دیکھو چھت پر کسی کے چلنے کی آواز آ رہی ہے۔
اس نے بڑے دکھ سے کہا۔ اس کے چہرے پر اداسیاں نوحہ گر تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ایک ایسی نعش ہے جسے قبر نے بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا ہو۔
’’مگر یہ تمھارا واہمہ ہے۔ وہ تو رات کے قدموں کی چاپ ہے جو آہستہ آہستہ رینگتے ہوئے ہمارے سروں پر سے گزر رہی ہے۔ صبح کے شبنمی نظارے کا لطف شاید تم نے کبھی نہیں اٹھایا۔
’’رات کنکر بن کر آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔ میرے لیے رات اور دن ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ میں ان مبہم سر گوشیوں کی سرسراہٹ سے واقف ہوں جو میرے سینے کو روندتے ہوئے ہوا کے جھونکے کی طرح دور نکل جاتی ہے مگر میں تو ابھی تک پہلی منزل کی پہلی سیڑھی ہی پر کھڑا ہوں۔ ‘‘کیا تم مجھے ایک اور گلاس پانی پلاو گے۔ اس نے کھوئی کھوئی آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کیوں نہیں ضرور‘‘۔ کہہ کر میں نے اس کے سامنے پانی سے بھرا دوسرا گلاس رکھ دیا۔ تم بھی میری طرح بڑے تابعدار ہو اور ایک اچھے میزبان بن سکتے ہو لیکن جب مہمان ذلیل ہو تو میزبان کی شرافت اس دسترخوان کی طرح ہو جاتی ہے جسے کہیں بھی جھٹک دیا جاتا ہے۔ آج میری حالت بھی اُسی دسترخوان کی سی ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ روہانسا ہو گیا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی بھوری آنکھوں کے کونے میں آنسووں کی موہوم لکیریں علانیہ دکھائی دے رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی موجودہ زندگی سے کافی اُکتا گیا ہو۔
’’ جو آدمی پہلی سیڑھی کو اپنی منزل سمجھے اُس کے لیے دوسری منزل کا زینہ زخم بھی بن سکتا ہے اور مداوا بھی۔ ‘‘
اس نے میرے ذہن میں چھپے ہوئے۔ اس جملہ کو یوں دہرایا جیسے یہ جملہ میں نے نہیں اس نے کہا ہو۔
مجھے حیرت ہوئی کہ اُس نے کیوں طنزیہ انداز میں مجھے رائٹر کہا تھا۔
پھر قدرے توقف کے بعد اس نے کہا۔ ’’ بوجھ اٹھانے سے گردن جھک جاتی ہے اور گردن کا جھک جانا ندامت کی علامت ہے، مگر میں نے یہ زہر بھی پر لیا ہے۔ میرے رگ پے میں شاید یہی زہر سرایت کر چکا ہے۔
پہلی منزل کی سیڑھی پر قدم رکھ کر دوسرے زینے کی تلاش میری زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے، مگر تم ایک رائٹر ہو۔ وہ تحقیر آمیز انداز میں مسکرا یا۔ میں نے درمیان میں اُسے ٹوکتے ہوئے کہا۔ ’’آج کے بعد شاید تم اس سے پھر نہ ملو گے۔ ‘‘
شاید ایسا ہی ہو۔ کیو نکہ آنے والے کل کے سورج کو کس نے دیکھا ہے۔ رات میں طلوع ہونے والے اس زرد و سفید چاند کو بھی کوئی روز دیکھ سکتا ہے مگر میرا المیہ دوسری منزل کا پہلا زینہ ہے جس سے وہ آدمی جونک کی طرح چمٹا ہوا ہے۔ میں پہلی منزل پھلانگ کر بھی دوسری منزل کے اس زینے تک پہنچ بھی سکوں گا یا نہیں یہ میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ ’’بوجھ اُٹھا نے سے گردن جھک جاتی ہے نا۔ ‘‘ آخری جملہ ادا کرتے ہوئے وہ قدرے خجالت سی محسوس کر رہا تھا۔ پھر وہ یکبارگی اٹھ کھڑا ہوا اور تیز تیز قدم ڈالتا ہوا ڈرائنگ روم سے باہر سڑک کے ہجوم میں کھو گیا۔
٭٭٭