صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


اور چراغ جلتا رہا

کامی شاہ

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

غزلیں

بات بے بات ہنستی ہوئی لڑکیاں

راز رکھتی ہیں کوئی سبھی لڑکیاں


رنگ زاروں میں خوشبو اُڑاتی ہوئی

پھول چُنتی ہوئی کاسنی لڑکیاں


راستے سے گزرتا ہوا اجنبی

اور حیرت زدہ اجنبی لڑکیاں


بارشوں نے اُداسی کو گہرا کیا

اور گہری ہوئیں شام سی لڑکیاں


دن بِتاتی ہوئی شب زدہ عورتیں

اور بہانے بناتی ہوئی لڑکیاں


جام اُنڈیلے گئے اور پھر میز پر

لائی جانے لگیں روغنی لڑکیاں


بارشوں اور ہواؤں کی ہیں منتظر

بند کمروں میں جلتی ہوئی لڑکیاں

٭٭٭



سخن سنورتا رہا اور چراغ جلتا رہا

سمے گزرتا رہا اور چراغ جلتا رہا


ہوائیں آتی رہیں اور طواف کرتی رہیں

میں رقص کرتا رہا اور چراغ جلتا رہا


وہ عکس ڈھلتا رہا اک چراغ کی لَو میں

وہ نقش اُبھرتا رہا اور چراغ جلتا رہا


کئی جگہ سے تھی خالی وہ داستاں، جس میں

میں رنگ بھرتا رہا اور چراغ جلتا رہا


نشہ اُترتا رہا روشنی کے دریا میں

نشہ اُترتا رہا اور چراغ جلتا رہا


یقین بڑھتا رہا، لال روشنی پہ یقیں

گماں گزرتا رہا اور چراغ جلتا رہا

٭٭٭

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول