صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


بیانات


ڈاکٹر  عتیق اللہ

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

منٹو فہمی کا مسئلہ اور مظفر علی سید

’’۔ ۔ ۔ تجزیہ نفس کرنے والے اس خوف کو بے نقاب کرتے ہیں جو سب سے بڑا خوف ہے ، انسان کے ازلی ترین نفسِ باطن کا خوف، جس میں خدا ہے ،اگر خدا نہیں ہے۔حقیقی آدم یعنی پر اسرار فطری آدمی کا خوف جو زمانۂ قدیم سے بنی اسرائیل میں پایا جاتا ہے ۔ تجزیۂ نفس میں چیخنے کی حد تک بلند ہو گیا ہے ۔اس مادر زاد دیوانے کی طرح جس کے منہ سے جھاگ نکلتا ہے ، اور جو اپنی کلائیوں کو کاٹ کا ٹ کر لہو لہان کر دیتا ہے ۔قدیم ترین حقیقی آدم جس سے خدا کی ذات اب تک جدا نہیں ہوئی ۔ فرائڈ اس آدم سے اس قدر نفرت کر تا ہے اسے محض انحراف کے ہیبت ناک ہیولے کی شکل میں دیکھتا ہے خود تولید سانپوں کا ایک گچھا ، خوفناک حد تک گرہ درہ گرہ ۔یہ تصویر رام شدہ فاسد آدمی کی منحرف تصویر ہے جو ہزاروں شرمناک برسوں سے رام ہو چکاہے۔قدیم آدم کسی وقت بھی رام نہیں ہوسکا اور رام شدہ مخلوق ہمیشہ اس سے نفرت کرتی رہی ہے۔خوفناک نفرت کی دہشت کے ساتھ۔ مگر جو بے خوف ہیں انہوں نے اس کو تہہِ دل سے محترم سمجھاہے ۔
قدیم آدم کے قدیم ترین پیکر میں خدا تھا۔ اس کے سینے کی تاریک دیوار کے عقب میں ناف کی مہر تلے۔  پھر آدمی کو اپنے آپ سے گھن آنے لگی اور خدا اس سے جدا ہو کر خارجی ترین فضا میں مقیم ہو گیا ۔
مگر اب ہمیں واپس جانا ہے ۔ اب پھر قدیم آدم کو اپنا چہرہ اور اپنا سینہ اوپرکو اٹھانا ہے اور خود کو پھر سے اصیل بنا نا ہے ۔ شرارت اور لا ابالی پن کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی دیواروں کے درمیان خدا کے ساتھ جسم کے تاریک ترین برِّاعظم میں خدا موجودہے اور اسی سے ہمارے محسوسات کی تاریک شعا عیں پھوٹتی ہیں،لفظ کے بغیراور لفظ سے کا ملاً پیشتر ۔عمیق ترین باطن کی شعاعیں اولین پیغام کی حامل ہمارے وجود کی محترم اور ازلی حیوانی شکلیں جن کی آوازیں ہماری روح کے تاریک ترین ایوانوں میں لفظ کے بغیر ،گونجتی ہیں مگر طاقت ور کلام سے بھرپور ہوتی ہیں ہمارے اپنے باطنی مفہوم سے بھرپور۔‘‘(محسوسات اور ناول : ڈی ۔ایچ لارنس ،ترجمہ : مظفر علی سید )
استعار وں کی زبان میں کیا منٹو کی باطنی جستجو قدیم ترین حقیقی آدم کے تقریباً فنا پذیر تصورکی از سرِ نو تشکیل کی سمت راجع نہیں ہے ؟ لارنس کی طرح کیا منٹو بھی وجود کے تاریک ترین برِّاعظم میں اس خدا کی موجودگی کی توثیق نہیں کرتا جس سے محسوسات کی تاریک شعاعیں پھوٹتی ہیں ؟ منٹو کی آوازوں میں بھی اتھاہ اور مہیب سکوت جاگزیں ہے ۔لارنس کے نفس باطن کا خوف ہی منٹو کی دہشت ناک تخلیقی کائنات کا محرّک بھی ہے ۔ منٹو کے قریب الفہم اور سہل المعنی متن کی تہہ میں جو متن دیگر مخفی ہے اس کی دہشت بہ ظاہر متن سے پیدا ہونے والے دہشت کے احساس سے کہیں زیادہ بھیانک تاثر فراہم کرتی ہے۔ اسی کے پہلو بہ پہلو درد مندی کی وہ کیفیت بھی شدت سے محسوس کی جاسکتی ہے جو خوف اور دہشت ہی کی کوکھ سے نموپاتی ہے ۔ تضاد کے انہیں پہلوؤں میں وہ ایسے بہت سے سوال ،حل طلب اور مقدر چھوڑجا تا ہے جو اپنی بیشتر صورتوں میں انسانی بے حسی اور ا نسانی سفاّ کی کو منتج ہو تے ہیں ۔انہیں مقدّرات میں وہ دھند بھی تہہ نشین ہے جسے ابہام سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔
ممتاز شیریں نے کہیں لکھا ہے کہ :
’’منٹو کے افسانوں میں کوئی ابہام نہیں ، نہ کوئی پوشیدہ اشارے ہیں ۔ نہ کوئی پوشیدہ گتھیا ں ہیں کہ ان کے سلجھانے میں دقت محسوس ہو ۔ وقت کے ساتھ ساتھ نئی تشریحیں اور تفسیر یں ہوں ، تہہ در تہہِ معانی نکالے جائیں ۔ یہ صاف کھلی سیدھی اور براہِ راست نوعیت کی تحریریں ہیں ، جن کا پیغام واضح ہے ۔‘‘
دراصل ادب کا معاملہ ہی کچھ ایساہے کہ ادبیت اور ادبی روایت کا جبر معانیِ مافی الضمیر کو ہمیشہ پیچھے دھکیل دیتا ہے ۔آخری تجزیے میں چیزیں کچھ کی کچھ شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ افسانوی اقلیم میں جہاں زمان اور مکان کا اکثر سارا PHENOMENON واضح ہوتا ہے اور جو افسانے کو ایک واحد ے میں ڈھالنے کے ضمن میں بالعموم ایک اہم عقبی کردار اداکرتا ہے ۔اس ابہام کو کم کرنے کے بجائے زیادہ شدید کرنے کی طرف مائل رہتا ہے جو افسانہ نگار کے داخلی تجزیوں ،جااور بے جا ، گہانی اور ناگہانی مداخلتوں اور کبھی کبھی اکتشافی نوعیت کے مابعد الطبیعاتی اور نفسیاتی بیانوں میں مضمر ہوتا ہے ۔افسانہ نگار کے لئے یہ فریب دینے کے بڑے سہارے کہلاتے ہیں ۔ پھر یہ کہ اس ابہام کی نوعیت توشعر ی ابہام کا درجہ رکھتی ہے جو کردار کے تفاعل سے نموپاتا ہے جس کے لئے قاری ذہنی طور پر تیار اور آمادہ نہیں تھا ۔ وہیں ابہام بھی ،ہرقاری کے ساتھ ایک علاحدہ ذہنی واقعے کے طور پر اپنی جگہ بنالیتا ہے ۔
ممتاز شیریں کے اس خیال کے بر خلاف مظفر علی سید کے نزدیک منٹو اتنا واضح اور اتنا دوٹوک نہیں ہے کہ آن کی آن میں اپنے آپ کو دوسروں پر عیاں کرکے طمانیت کے نشے میں سرشار ہو جائے۔منٹو تو مستقل ڈسڑب کرنے کا نام ہے ۔
منٹو نے نام نہاد مہذ ب و مقطع حضرات سے لے کر یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور عدلیہ کے اربابِ حل وعقد کو جس طور پر ڈسڑب کیا ، اس کی نوعیت اور فکشن کے قاری میں disturbanceکی نوعیت میں بڑا فرق ہے ۔فکشن کا یہ قاری وہ ہے جو محض ذہنی طما نیت اورجمالیاتی اور روحانی آسودگی کے لئے ادب نہیں پڑھتا بلکہ زندگی میں یک دم کسی واقعے کی رونمائی اور ناگہانی واتفاقی وار داتوں سے پیدا ہونے والے کشف کے تجربے یا ذہن ودل کو یک لخت صدمہ پہنچانے والے وقوعوں اور ثانیوں میں جوزندگی کے غیر معمولی پن کا درک اسے حاصل ہوتاہے ۔اس کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور جو تھپکی دے دے کر سلانے کے بجائے ہماری بے چینیوں میں اضافے کا موجب ہی بنتا ہے۔مظفر علی سید نے جس کیفیت کو دانستہ تغافل برتنے سے تعبیر کیا ہے وہ اصلاً اسی صدمے کا ردِّ عمل ہے اور جس کا اثر اتنا کاری ہے کہ منٹو کو انگیز کرنا اب بھی ہم میں سے بہتوں کیلئے مشکل نظرآتاہے ۔
یہ خیال بے حد تکلیف دہ ہے کہ کسی تخلیقی فن کار کے اچھے بُرے معمولات کی روشنی میں اس کے فکر و فن کے محاسبے کی روش تاہنوز قبولیت کا درجہ رکھتی ہے ۔ میرؔ،غالبؔ، جو شؔ، اوریگانہؔ وغیرہ کو بھی اکثر ان کی زندگی کی نامقبول پہلوؤں کو بنیاد بناکر بار ہا تختۂ مشق بنایا گیا۔ اسی بنیاد پرحالیؔ بڑی تاخیر کے بعداور معذرت کے ساتھ بلکہ بادلِ ناخواستہ ’’یاد گارِغالبؔ‘‘کی اشاعت کے لئے راضی ہوئے ۔ یہ ضرورہے کہ ہمارے اکثر فکشن کے سمینار وں میں منٹو کا نام بڑے افتخار سے لیا جاتا ہے بلکہ اردو معاشرے کے لئے وہ ایک status symbolکا حکم رکھتاہے ۔ بالخصوص ہندوستان میں تواب یہ خیال جڑ پکڑتا جا رہا ہے کہ ہماری کوئی بھی زبان نہ تو غالب جیسا شاعر پید ا کر سکی ہے اور نہ منٹو جیسا کہانی کا ر۔لیکن آئرنی (irony)یہ کہ یہ آوازیں جامعات کے اس تعلیمی ماحول میں بھی بلند ہوتی ہیں جہاں منٹو کا داخلہ ممنوع ہے ۔اگرکسی دباؤ کے تحت اسے شامل کر بھی لیا جاتاہے توبات نیا قانون اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے آگے نہیں بڑھتی ۔ مظفر علی سید کا یہ خیال قطعاً درست ہے کہ
’’ہماری یونی ورسٹیوں میں اور سرکاری سطح پر منٹو ابھی تک شجر ممنوعہ ہے ۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں بقول مظفر علی سید کہ ’’ساری زندگی اس پر مقدمے چلتے رہے یا چلائے جاتے رہے اور کسی نہ کسی شکل میں اب بھی چل رہے ہیں ۔ ان مقدموں نے اس کی زندگی اجیرن کردی اور وہ ملول ہو کرباربار خود فراموشی کی طرف لپکتارہا ‘‘۔منٹو نے ردِّ عمل کے طور پر خود فراموشی کو توکبھی ترجیح نہیں دی ۔ البتہ اس کے رویےّ میں چڑ چڑ ا ہٹ ،ضداور ہٹ دھرمی جیسی کیفیات ضرور شامل ہوگئی تھیں بلکہ میں اسے اینگری ینگ مین کی غصہ وری اور برافروختگی کا نام دوں گا ۔ایک ایساینگ مین جوبے حد کم زور واقع ہواہے اور مختلف سماجی قوتوں کے اجبار compulsions اور شدید دباؤ کے تحت جس کی ترجیح محض اپنے آپ سے نبرد آزما ہونے پر ہے ۔ اسی لئے اس نے اپنے احباب کا حلقہ بھی بہت محدود کر رکھاتھا ۔اس کے خلق کردہ کر دار ہی اس کی انجمن سازی کے لئے کا فی تھے ۔
ایک مستقل ناآہنگی جو اندر اور باہر کے درمیا ن واقع تھی اور جو مستقلاً منٹو کے ذہنی اور روحانی تناؤ اور نفاق کا بھی سبب تھی اس کے افسانوی فن میں واقع ضبط اور وحدت پر اثر انداز نہیں ہوتی ۔ اس وحدت اور ضبط کو قائم رکھنے کی ا یک صورت غالب ؔکے یہاں دکھائی دیتی ہے جو خارج کے نفاق کواس طور پر انگیز کر تا ہے کہ شعر کی مجموعی صلابت متاثر نہیں ہوتی۔میں نے ایک مضمون میں غالبؔ کے اس فنیّ عمل کو تطابق بہ نفی کے عمل سے موسوم کیاتھا جس کا اطلاق من وعن منٹو کے فن پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ گردش جس کے پیروں میں ہو ، آمدنی کی راہیں جس پر مسد ود ہوں ،تس پر مسلسل مقدمے بازی جس پر عائد کر دی جائے ۔ ا س کے ذہنی انتشار اور روحانی نفاق کو سوائے عذاب کے کچھ اور نام نہیں دیاجاسکتا ۔مظفر علی سید نے اسی لئے منٹو کو ذاتی زندگی میں ناکام قرار دیا ہے ۔لیکن یہ نہیں بتایاکہ منٹوکے افسانوی فن پراس بحرا ن کی چھوٹ کیوں نہیں پڑی۔اس قسم کے حالات میں فن کار جذبوں کے غیر معمولی دباؤ کے تحت لمحوں میں جینے پر قانع ہو جاتا ہے ۔ فنی بافت جگہ جگہ سے کھلنے لگتی ہے ۔ دراصل منٹوں تخلیقی لمحوں میں اپنے آپ کو ایک مرکز پر مجتمع کرلیتا ہے اور اپنی بو ہیمین اسپرٹ کو پرکھنے کی توفیق سے بھی کا م لیتا ہے تاکہ افسانے کی تخلیقی ہئیت اور تکنیک پر باہر کانفاق اثر انداز نہ ہو سکے ۔
جہاں تک فیض کے بیان کا تعلق ہے وہ ان کی فکشن کی جمالیات سے لاعلمی کا نتیجہ ہے ۔ فیضؔ اردو شاعری کی تاریخ کے تناظر میں عظیم شاعر ہوں یا نہ ہوں ۔البتہ ہمارے عہد کے دو تین بڑے شعر ا میں ان کا شمار کیا جانا چاہیے ۔منٹو کے فن کے بارے میں اسی شخص کی رائے کو کوئی معنی دیے جاسکتے ہیں جو فکشن کے تقاضوں اور فکشن کی تاریخ کے مختلف مراحل اور ادوار میں فن کے تفاعل کا علم رکھتا ہو۔ عبدالماجد دریآبادی یا ماہرالقادری ،نعیم صدیقی یا چودھری محمد حسین توخیر قابل معافی ہیں سردار جعفری تک فکشن کی جمالیات اور اس کے تخلیقی تقاضوں اور تکنیکی مطالبوں کی فہم کم رکھتے تھے۔عزیز احمد سے یقینا منٹو کو سمجھنے میں بڑی چوک ہوئی ۔جس عہد کا یہ قصہ ہے اس میں سوائے ممتاز شیریں کے (وہ بھی بعد میں ) کوئی اور منٹو اور فکشن کی فہم کی اہلیت نہیں رکھتا تھا ،اہلیت رکھتے تھے محمد حسن عسکری،لیکن وہ منٹو کے لئے زیادہ وقت نہیں نکال سکے ادھر ادھر کی باتیں بگھاریں اور آہستہ سے پتلی گلی سے پھوٹ نکلے ۔
ہم اپنے ادیبوں کو کیا کہیں وکٹورین عہد میں ہیون برن کی Poems and balladsپرجان ہارلی نے کم ضرر رساں قسم کی تنقید نہیں کی ۔ لٹن ہی نے نہیں رسکن جیسے سخت قسم کے اخلاقی نقاد نے اسے قطعی بے ضرر ٹھہرایا ۔لیکن یہ وہی ہیون برن تھا جس نے شیکسپئیر کے Venus and Adonisکو مذ موم قرار دیاتھا اور باڈ لر کی تلخیص کی پذیرائی کی تھی جس میں ان اجزا کو نکال دیاگیا تھا جو بچوں کے اخلاق کو بگاڑسکتے تھے۔ڈاکٹر جانسن نے اسٹرن کے ناول Tristram Shandyکو بعض اجزا کے پیش نظر ناشائستہ مبتذ ل اور عامیانہ تک قرار دیاتھا ۔ اس قسم کی صورتیں ادیبوں کے نظریاتی اختلافات کے باعث ہمیشہ پیدا ہو تی رہی ہیں ۔
مظفر علی سید کا یہ سوال یقینا توجہ طلب ہے :
’’اس پرسی کیوشن کی بہت سی جہتیں میں اور اس میں برطانوی سرکار کے اہل کاروں کے ادبی نظریات کے علاوہ دوسرے عناصر بھی شامل ہیں ۔ پنجاب کے اخبارتو چو دھری صاحب کی مٹھی میں تھے لیکن دہلی اور بمبئی کے اخبارات نے کس کے زیر اثر یہی پرسی کیوشن کیوں اختیار کی ؟‘‘
سب سے پہلے برطانوی اہل کاروں کولیاجائے ۔میرے نزدیک جن کے اپنے کوئی ادبی نظریات ہی نہیں تھے ۔ اپنی حکومت بچانے کے لئے غلط صحیح عمومی رائے کو وہ ان معنوں میں ترجیح دیتے تھے کہ ایک چھوٹی سی بات کہیں بتنگڑ نہ بن جائے اور احتجاج ، بغاوت کی شکل نہ اختیار کرلے ۔ دوسرے یہ کہ برطانیہ میں سرکاری احتساب کی تاریخ تقریباً ساڑھے چار سو پانچ سو برس پرانی ہے ۔۱۷۱۹ ء میں جان میتھیوز کو ایک سرکار مخالف جرم میں پھانسی پر لٹکا دیاگیاتھا ۔ ہمارے یہاں فرخ سیر پر پھبتی کسنے کے الزام میں جعفر ز ٹلی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑاتھا اور بدر الاسلام عباسی بدایونی کو انگریزوں کے خلاف ایک نظم لکھنے پر سولی کی سزا بھگتنی پڑی تھی۔ڈینیل ڈفو کو ۱۷۰۳ء میں اور ولیم کوبے کو ۱۸۱۰ء میں سخت سزا کا سامنا کر ناپڑا ۔ Puritansتو تھیڑہی کے سخت خلاف تھے بالکل اسی طرح جیسے ہندو اور مسلم بنیاد پرستوں کی ہمارے دور میں بن آئی ہے۔ سرکاری خردہ گیری اور حرف گیری کی ان مثالوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کا تعلق سابق سوویت روس ، ہنگری ، چیکوسلو یکیہ ،رومانیہ اور البانیہ سے ہے ۲۰ویں صدی میں اینگلو امریکی عدلیوں میں یولیسس ،روتھ،لیڈی چٹر لیز لوور اور دی لیڈیز ڈائریکٹری پر جو مقدمات چلے ان سے یوروپی ادب میں آزادی اظہارکو زبردست تقویت ملی جب کہ لیڈی چٹر لیز لوور کی فروخت پر اسی Hicklinقانون کے تحت ہماری سپریم کورٹ نے پابندی لگادی جسے یونائیڈ اسٹیٹس نے بہت پہلے منسوخ کر دیا تھا۔ منٹو کو ان برطانوی دفعات کا سامنا تھا جنہیں حکومت برطانیہ نے اپنی نوآباد یات پر نافذ کر رکھاتھا ۔ ہندوستانی پینل کو ڈ ۲۹۲ کے تحت ہر وہ تحریر و تصنیف احتساب کی مستحق قرار دی جا سکتی ہے جو فحش ،ناشائستہ ،تہذیب و اخلاق کے مقررہ معیار وں کے خلاف ہو یا جو شہوت انگیز ہو یا جس سے سوسائٹی کے کسی طبقہ یا گروہ کے مذہبی عقائد وجذبات کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہو ۔لیکن ہمارے عدلیہ نے اس نکتے کی طرف توجہ نہیں کی کہ منٹو کے تقسیم وطن سے قبل جن تین افسانوں (کالی شلوار ،دھواں اور بو) اور ٹھنڈا گوشت پر پا کستان میں مقدمات چلے وہ اپنے پورے متون کے تناظر میں بحیثیت عام اور مروج مفہوم کے فحش نہیں تھے ۔محض بعض جزیاتی تفصیلات کی روشنی میں انہیں احتساب کے لائق ٹھہرایا گیا تھا۔ اس امرپر غور نہیں کیا گیاکہ مجموعاً ان کی ادبی قدو قیمت کیاہے ؟ مجموعاً قاریانہ تاثر کی نوعیت کیاہے ؟ جب ہندوستان میں لیڈی چٹرلیز لو ور پر مقدمہ چل رہاتھا تب ملک راج آنند نے اپنی expert رائے میں یہ دلیل دی تھی کہ ناول ہذا ایک اہم ادبی کارنامہ بلکہ کلاسیک ہے ۔ انہوں نے اسے فحش ماننے سے توانکار کیالیکن تھیم کے لحاظ سے ناشائستہ بھی ٹھہرایا ۔جیسا کہ عرض کیا جا چکاہے کہ ہر ادیب اپنی ایک میزانِقدر بھی رکھتا ہے ۔اسی نسبت سے فیصلوں اور ترجیحات میں بھی کہیں کم کہیں زیادہ بے حد زیادہ بُعد بھی پیدا ہوجاتا ہے ۔
منٹو نے چچا سام کے نام ایک خط بابت مو رخہ ۱۶! دسمبر ۱۹۵۱ء میں ارسکاٹن گولڈول کے ناول کا بھی ذکر کیاہے ۔ جس کے ناول ’’گوڈز لٹل ایکڑ‘‘ پرفحاشی کے الزام میں مقدمہ بھی چلا تھا ۔ پاکستان جیسی اسلامی مملکت میں منٹو اپنے فحاشی کے الزام کو عین ممکنات میں سے بتاتا ہے لیکن اسے اس بات پر سخت حیرت تھی کہ چچا سام کی امریکی جمہوریت کو کیا ہوگیا ہے ۔بعد ازاں گولڈ ول بری بھی کر دیا جا تا ہے۔ منٹو اس جج کو غائبانہ طورپر عقیدت مندانہ سلام بھی پہنچاتا ہے اورفیصلے کے آخری سطور کی تعریف کرتے ہوئے انہیں دہراتا بھی ہے ۔ اگر پس نو آبادیاتی عدلیہ ان سطورہی کو اپنی میز ان بنالے توبہت سی کتابیں مرگھٹ کی راکھ بننے سے بچائی جاسکتی ہیں۔
’’میں ذاتی طور پر محسوس کر تاہوں کہ ایسی کتابوں کو سختی سے دبادینے پر پڑھنے والوں میں خواہ مخواہ تجسس اور استعجاب پیدا ہوتا ہے جوانہیں شہوت پسندی کی ٹوہ لگانے کی طرف مائل کردیتا ہے ۔حالاں کہ اصل کتاب کا یہ منشا نہیں ہے مجھے پورا یقین ہے کہ اس کتاب میں مصنف نے صرف وہی چیز منتخب کی ہے جسے وہ امریکی زندگی کے کسی مخصوص طبقے کے متعلق سچا خیال کرتا ہے ۔ میری رائے میں سچائی کو ادب کے لئے ہمیشہ جائز قرار دینا چاہیے ۔‘‘
( جب کہ منٹوکوتین ماہ قید بامشقت اورتین سو روپے کی سزا دینے والے جج کی رائے تھی کہ ’’سچائی کو ادب سے ہمیشہ دور رکھنا چاہیے )
مظفر علی سید کے اس خیال سے میں پوری طرف متفق ہوں کہ منٹوفن کار کی آزادی کا نقیب تھا ۔حلقہ ارباب ذوق کے ساتھ منٹو یاراشد کی ذہنی ہم آہنگی ضرور تھی لیکن محض حلقے کے رکن بننے پر منٹو زیادہ سے زیادہ اعجاز بٹا لوی بن سکتا تھا اور راشد کی شخصیت یوسف ظفر اور قیوم نظر سے زیادہ گہری اور گمبھیر نہیں بن سکتی تھی۔اس عہد میں جو فن کا ر ان دونوں تحریکات کے بین بین چلے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی آزادانہ سطح پر نشود نما ہو ئی اور انہوں نے زیادہ بہتر طور پراپنے تجربات کے سلسلے کو بر قرار و قائم رکھا۔ منٹو ،راشد اور مجید امجد ہی نہیں اختر الایمان کو بھی اسی زمرے میں شامل سمجھنا چاہیے ۔ ترقی پسند تحریک اور حلقۂ اربابِ ذوق دونوں سے قبل ایک ایسی نسل وجود میں آچکی تھی جسے ذہن وضمیر کی آزادیاں عزیز تھیں اور جو روایت کی رسمی پیروی کے برخلاف نئے امکانات کی جستجومیں تھی۔ البتہ ترقی پسند تحریک نے بین الاقوامی سطح پر ادیبوں کے مابین باہمی روابط اور ان کے مسائل کی فہم کے لئے ایک راہ ضرور دکھائی۔ روایت شکنی کے دعادی کے باوجود لسانیات شعری کے لحاظ سے اہم ترقی پسند شعرا کلا سیکی آداب کا گہرا شعور رکھتے تھے ۔انہوں نے قومی اور بین الاقوامی سیاسی مسائل اور انسانیت کشی جیسے موضوعات کو بنیاد بناکر شعر کے مو۔ض۔وعاتی کینوس کو نہایت وسیع بھی کیا۔ حلقے نے خارجی مسائل سے پہلو تہی تواختیار نہیں کی لیکن ان کا اپنی بیش ترصورتوں میں اصرار داخلی غواصی پر ہی تھا۔اسی باعث ان کے تجربات میں دھند ،افسر دگی ،اورکہیں کہیں سریت ایک حاوی کیفیت کے طور پر محیط ہو جاتی ہے ۔حلقے نے ہی ناراست زبان کو ادبی زبان کے طور پر قایم کیا اور نئے اسالیب کے لئے راہیں بھی ہم وار کیں۔ہیئت کی طرف خاص توجہ کے باوجود میرا جی نے لوک روایت ،کلاسیکی ادبیت کے شعار فرانسیسی علامتی شاعری کے میلان اور ذہنی گرہوں اور اعمال کے تعلق سے نئی نفسیاتی تحقیقات کے ایک وسیع تناظر سے اپنی تخلیقی سرگرمی کو نئے معنی فراہم کرنے کی سعی کی ۔ ایک لحاظ سے ممتاز شیریں ،حسن عسکری اور انتظار حسین کے حوصلوں کو تازہ دم رکھنے کا سراغ میراجی اور ان کے حلقے ہی سے ملتا ہے ۔ تھوڑے بہت انسانی نفس اور کردار کی جوعلاحدہ محسوس ہو تی ہوئی شناخت منٹو کے یہاں دستیاب ہے اسے میرا جی سے ذہنی قربت کا نتیجہ بھی کہا جاسکتاہے ۔ محض داخلی غواصی کا عمل یا نفسیاتی اور مابعد الطبیعاتی نیز سیاسی و سماجی مسائل پر انحصار کے معنی ان لا محدود امکانات پر قد غن لگادینے کے تھے جو بالعموم ذہنی آزادیوں کی فضامیں نمو پاتے ہیں ۔ موضوعات کی جو تحدید و تکرار ترقی پسند اور حلقہ اربابِ ذوق ہر دو تحریک سے وابستہ فن کاروں کے یہاں نمایاں طورپر محسوس کی جاسکتی ہے منٹو ،راشد اور اخترالایمان نے اس سے دہ چند دوری برقرار رکھی ۔ ادبی تجربات کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ تجربہ کرنے والے اکثر نقصان میں رہتے ہیں۔ا ن کے بعد کی نسلیں اپنے پیش رووں کے ناکام یاکچے پکے تجربات سے کامیابیوں کا فن سیکھتی ہیں یاوقت کا فاصلہ بصیرتوں اور وجدان کو جس طو رپر حساس تر بناتا ہے۔ اس حساسیت سے تجربہ کرنے والی نسل اکثر محروم رہتی ہے ۔حالیؔاور آزاد ؔکے تجربات نے اقبالؔ اور میراؔجی اور ترقی پسند شاعری کے ناکام تجربات نے راشد اور اخترالایمان کو زیادہ بہتر تناظر فراہم کیا ۔مسائل کی نوعیت مختلف ہونے کے باوصف منٹو حقیقت اور زندگی سے بہ باطن ہی نہیں بہ ظاہر بھی اتنا ہی قریب تھا جتنا کہ ترقی پسند فکشن نگارتھے ۔میرے نزدیک دونوں تحریکات سے اس کا ایک ایسا معنوی رشتہ ضرور تھا جو بعد اور یگانگت کے خطرات اور امکانات کی فہم کا زائدہ تھا ۔ مظفر علی سید بھی یہی کہتے ہیں کہ:
’’منٹو کسی بھی ادبی تنظیم کی پیدا وار نہیں تھا نہ کوئی سماجی یا ادبی اشاعتی یاسرکاری ادارہ کسی سچے ادیب کو جنم دے سکتا ہے۔ ادبی اور فکری تنظیم ایک تربیتی کردار یقینا اداکرسکتی ہے اور یہ فریضہ حقلہ ارباب ذوق نے اپنی آز اد بحث کے ذریعے ضرور انجام دیا ‘‘۔
میں یہاں حلقہ اربابِ ذوق کے ساتھ ترقی پسند تحریک کے نام کا اضافہ ضرور کرنا چاہوں گا ۔ جس کے ناراست اثر نے منٹو کو محض لفظوں کے جنگل میں گم ہو نے سے بچا لیا ۔ مظفر علی سید کا یہ خیال بھی درست ہے کہ باری علیگ کی صحبتوں اور روسی ادب کے تراجم نے اس کے ذہن کو حقیقت فہمی کے ایک نئے اسلوب کی طرف پہلے ہی یعنی ترقی پسند تحریک سے قبل ہی مائل کردیا تھا ۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تحریک سے قبل انگارے کی اشاعت (۱۹۳۲)بھی عمل میں آچکی تھی ۔کفن ، پد ما ، دوبیل اور پوس کی رات جیسے افسانے پریم چند کے قلم سے ادا ہوچکے تھے ۔ پریم چند اپنے بعض اداریوں اور مضامین میں گور کی ، ٹالسٹائے او رپشکن وغیرہ کے بدلتے ہوئے محاورے کی طرف توجہ لاچکے تھے ۔ خود اختر حسین رائے پوری کا مقالہ ادب اور زندگی ، تحریک سے پہلے بنگالی اور پھر اردو میں منظر عام پرآچکاتھا ۔ گویا منٹو کے لئے حقیقت کو نئے طرز احساس کے ساتھ انگیز کرنے اور افسانوی تکنیک کو مختلف طور پر برتنے کا ہنر اسی phenomenonکی دین تھا۔
کرشن چندر نے جن الفاظ میں اور جس دورمیں ’ہتک‘ کی تعریف کی ہے وہ ان کی فکشن کی تنقیدی فہم کی بہترین دلیل ہے ۔ انہوں نے سوگندھی کی معصومیت اور عورت پنے کی طرف جو اشارہ کیاہے ۔ اسی میں ’ہتک‘ کی گنجانیت کا راز بھی مضمر ہے ۔’ ہتک‘ کی افسانوی تکنیک انفرادیت ہے جس نے اس افسانے کو ایک مختصر رزمیے میں بدل دیا ہے ۔بو، دھواں اور ہتک کی جزئیاتی تفصیلات میں اجمال اور تلازموں کے بہترین موقعیتی عمل نے اکثر و بیش تر جملوں میں جیسے electronsبھردیے ہوں۔ اورجیسے چقماق کے چھوٹے چھوٹے ذرات آپس میں خود بخود ٹکرار ہے ہوں اور روشنیوں کے فوارے چھوڑتے جارہے ہوں۔مظفر علی سید نے یہ کہہ کر کہ ۔ ۔ ۔ افسانہ نگار محض اپنی سر گذشت نہیں سناتا ناقابل تصدیق سچی کہانیاں نہیں کہتا، لیکن اس طرح سناتا ہے کہ کسی تصدیق کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور نہ کسی خارجی شہادت کی ، سید عابد علی ،اوپندر ناتھ اشک وزیر آغا،رشید جہاں اور انتظار حسین کا کافی وشافی جواب فراہم کردیا ہے ۔
مظفر علی سید کی طرح میرا بھی یہی خیا ل ہے کہ منٹو کی دنیا کو محدود کہنے والوں نے یا تو منٹو کو پوری طرح پڑھا نہیں ہے اگر پڑھا ہے تو وہ فکشن کی فہم رکھنے والے قاری نہیں ہیں ۔ جن افسانوں کا حوالہ سیدصاحب نے دیا ہے ان کے علاوہ بھی ایک اور بھری پری کائنات موجود ہے جس میں تنوع ہی تنوع ہے ۔میں تنوع محض موضوعات کے حوالے سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ اس کی تکنیکو ں میں بھی بڑا تنوع ہے ۔آپ جنہیں خاکے کہتے ہیں جنہیں خطوط کے نام سے موسوم کرتے ہیں وہ منٹو کے افسانوی فن ہی کی کرشمہ سازی ہے ۔رام کھلاون ، موتری، سڑک کے کنارے ، خوشیا، دوداپہلوان ، یزید، گورکھ سنگھ کی وصیت ،جانکی ،باسط، شاردا، بلونت سنگھ مجیٹھاآنکھیں، تقی کاتب ، کتے کی دعا ، ہار تا چلاگیا ، شریفین اورشیر آیا شیر آیا ، دوڑنا وغیرہ ایسے افسانے ہیں جو تکنیک اور کردار سازی میں ہتک ہی کی طرح توجہ طلب ہیں ۔
جہا ں تک سمر سٹ مام کا تعلق ہے وہ دوسری سے چھٹی دہائی تک انگریزی کا مقبول عام فکشن نگار رہا ہے اس نے تھوڑا بہت موپاساں کا بھی اثر قبول کیا تھا لیکن وہ cynicبھی تھا موپاساں کے یہا ں ایک بے دردانہ فہم ضرور قایم رہتی ہے جو اس کی غیر جذباتیت کی دلیل ہے ۔مام کے یہاں غیر جذباتیت سگ خوئی تک پہنچ جاتی ہے ۔منٹو کے تھیم کتنے ہی دماغ پاش ہوں، وہ اظہار واسلوب میں ہر جگہ ضبط وار تکاز کو بر قرار رکھتاہے ۔مظفرصاحب نے منٹو کی نثر کی جس کٹیلی خوبی کا ذکر کیاہے وہ البتہ فلابیر اور موپاساں کی یاد دلاتی ہے ۔یہی وہ نثر ہے جسے فکشن کی مثالی نثرسے تعبیر کیا جاسکتاہے اور خلاّقی جس کے ایک ایک مسام میں رچی بسی ہوئی ہے ۔
اوہنری کی سی انسان دوستی ،حسِّ مزاح،درد مندی ا ور سبک طنز منٹو کے اسلوب کا بھی خاصّہ ہیں لیکن تھوڑی سی زہر خند اور واسوخت کی اس صورت نے تحت المتن میں جگہ ض۔رور بنالی ہے جو اکثر مام کے یہاں اونچی آواز میں لعن طعن کی شکل اختیار کرلیتی ہے ۔بالخصوص چچا سام کے خطوط میں سیاسی آئرنی کو جس طور پر منٹو نے نمایاں کیاہے اور باربار پاکستان اور امریکہ کے اقتصادی ،اخلاقی ،سیاسی اور تہذیبی افتراق کو نمایاں کیاہے ،اس کا اطلاق پوری نام نہاد تیسری دنیا کی اقتصادی بدحالی وپس ماندگی پر کیا جاسکتا ہے ۔منٹو ،بقول مظفر علی سید ،اپدیش نہیں دیتا،اسباب نہیں بتاتا صرف صورتِ حال پیش کردیتا ہے ۔
یہ خیال اور بحث کوئی معنی نہیں رکھتی کہ منٹو نے کوئی بڑا ناول کیوں نہیں لکھا۔پویا اوہنری یا موپاساں یا چیخف سے کسی مغربی نقاد نے اس قسم کا سوال نہیں کیا ۔ کیا یہ سوال قایم کیے جاسکتے ہیں کہ ن.م.راشد یا اخترالایمان نے غزل کیوں نہیں لکھی ؟ یا یہ سوال کہ مجروح ؔیا فانیؔ نے کوئی نظم کیو ں نہیں لکھی؟ غالبؔ کوکوئی ایک مکمل مرثیہ تولکھنا ہی تھا ؟ وغیرہ وغیرہ یہ تمام سوالات بے محل بلکہ لا یعنی ہیں۔
لارنس نے یہ ضرور کہا تھاکہ اپنے قریبی معاصر ین سے منافرت برتنا چاہیے۔ لیکن یہ کوئی کلیہ نہیں ہے ۔ہیر لڈ بلوم نے اپنی تصنیف کا نام ہی The anxiety of influence(1973)رکھا ہے ۔ اس کا تجزیہ تحلیل نفسی کی بنیاد پر وان چڑھنا بڑا مشکل ہو تا ہے ۔بیٹے کو اپنی جگہ بنانے کے لئے باپ کو ’ مخالف ‘کے طورپر دیکھنا لازمی ہوجا تا ہے جب ہی وہ اپنے انفراد کو قایم کرسکتا ہے بالعموم شاعر اپنے ماضی کے بڑے شاعر سے پو ری قوت کے ساتھ متاثر ہوتے ہیں ۔ وہ نہ صرف اسے عقید ت مندانہ محبت کادم بھرتے ہیں بلکہ ا س سے منافرت بھی کرتے ہیں ،اس سے خوف بھی کھا تے ہیں ۔بلوم کہتا ہے کہ منافرت اور خوف کا یہ رویہ ہی پس روشاعر کو ردو انکار کے عقب کے لئے اکساتا ہے تاکہ اس کی اپنی انفرادیت کی راہیں روشن ہوسکیں۔ دراصل انکارکے عقب ہی میں اقرار بھی چھپا ہو تا ہے ۔ کوئی ایک متن ہی نہیں بلکہ تاریخ ادب کے تقریباً تمام اہم متون تہ بہ تہ روایت کے تسلسل کے ساتھ ایک دوسرے متون پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں ۔کہیں اثر کاری کی نوعیت انتہائی غیر محسوس اور غیر شعوری کی بلکہ لاشعوری ہو تی ہے ۔ اور کہیں شعور ی ہر متن جو قرأت کے تجربے سے گذرتا ہے تخلیق کا رکے وجدان کا حصہ بن جاتاہے ۔ اس کے ذرات جا بجا ہانٹ کرتے ہیں اور دیگر متون کے رگ وپے میں سرایت کرجاتے ہیں۔ اس بنیاد پر نہ تومنافرت کو کلیہ بنایا جا سکتاہے او رنہ عقیدت کو ۔
منٹو کوئی پیغام نہیں دیتا۔ اگر کوئی یہ سوال کرتاہے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ادب کی تخلیقی نفسیات ہی سے ناواقف ہے ۔منٹو کی خلق کردہ عورت بھی کوئی پیغام نہیں ہے ۔ وہ تواسی طرح مخلوق ہے جس طرح کہ باسط ہے ،بابو گوپی ناتھ ہے ،شنکر اور ودوا پہلوان ہے ۔ اس کے ہر کردار میں کوئی خامی ضرور ہے ۔وہ کبھی انکشاف بن جاتا ہے اور کبھی سوال ۔داخلی ہی نہیں اکثر خارجی جبر بھی اس کے کردار کو مخدوش کرنے کا موجب بن جاتا ہے ۔تضاد ہی آئرنی کے تاثر کو گہرے معنی بھی عطا کر تاہے اور یہ چیز منٹو کے تقریبا ًہر افسانے کے اسلوب میں جو ہر کی طرح بر سرکارہے ۔

٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول