صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


جب زندگی شروع ہو گی

ابو یحیی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

اقتباس

زمین کے سینے پر ایک سلوٹ بھی باقی نہیں رہی تھی۔ دریا اور پہاڑ، کھائی اور ٹیلے، سمندر اور جنگل، غرض دھرتی کا ہر نشیب مٹ چکا اور ہر فراز ختم ہو چکا تھا۔ دور تک بس ایک چٹیل میدان تھا اور اوپر آگ اگلتا آسمان۔ ۔ ۔ مگر آج اس آسمان کا رنگ نیلا نہ تھا، لال انگارہ تھا۔ یہ لالی سورج کی دہکتی آگ کے بجائے جہنم کے اُن بھڑکتے شعلوں کا ایک اثر تھی جو کسی اژدہے کی مانند منہ کھولے وقفے وقفے سے آسمان کی طرف لپکتے اور سورج کو اپنی گرفت میں  لینے کی کوشش کرتے۔ جہنمی شعلوں کی لپک کا یہ خوفناک منظر اور بھڑکتی آگ کے دہکنے کی آواز دلوں کو لرزا رہی تھی۔

لرزتے ہوئے یہ دل مجرموں کے دل تھے۔ یہ غافلوں ، متکبروں ، ظالموں ، قاتلوں اور سرکشوں کے دل تھے۔ یہ زمین کے فرعونوں اور جباروں کے دل تھے۔ یہ اپنے دور کے خداؤں اور زمانے کے ناخداؤں کے دل تھے۔ یہ دل اُن لوگوں کے تھے جو گزری ہوئی دنیا میں  ایسے جیے جیسے انہیں مرنا نہ تھا۔ مگر جب مرے تو ایسے ہو گئے کہ گویا کبھی دھرتی پر بسے ہی نہ تھے۔ یہ خدا کی بادشاہی میں  خدا کو نظرانداز کر کے جینے والوں کے دل تھے۔ یہ مخلوقِ خدا پر اپنی خدائی قائم کرنے والوں کے دل تھے۔      یہ انسانوں کے درد اور خدا کی یاد سے خالی دل تھے۔

سو آج وہ دن شروع ہو گیا جب ان غافل دلوں کو جہنم کے بھڑکتے شعلوں اور ختم نہ ہونے والے عذابوں کی غذا بن جانا تھا۔ ۔ ۔ وہ عذاب جو اپنی بھوک مٹانے کے لیے پتھروں اور اِن پتھر دلوں کے منتظر تھے۔ آج اِن عذابوں کا ’یوم العید‘ تھا کہ ان کی ازلی بھوک مٹنے والی تھی۔ ان عذابوں کے خوف سے خدا کے یہ مجرم کسی پناہ کی تلاش میں  بھاگتے پھر رہے تھے۔ ۔ ۔ مگر اس میدانِ حشر میں  کیسی پناہ اور کون سی عافیت۔ ہر جگہ آفت، مصیبت اور سختی تھی۔ ۔ ۔ اور ان پتھر دل مجرموں کی ختم نہ ہونے والی بدبختی تھی۔

٭٭٭

خبر نہیں اس حال میں  کتنے برس۔ ۔ ۔ کتنی صدیاں گزر چکی ہیں ۔ یہ حشر کا میدان اور قیامت کا دن ہے۔ نئی زندگی شروع ہو چکی ہے۔ ۔ ۔ کبھی ختم نہ ہونے کے لیے۔ میں  بھی حشر کے اِس میدان میں  گُم سم کھڑا خالی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا ہوں ۔ میرے سامنے ان گنت لوگ بھاگتے، دوڑتے، گرتے پڑتے چلے جا رہے ہیں ۔ فضا میں  شعلوں کے بھڑکنے کی آواز کے ساتھ لوگوں کے چیخنے چلانے، رونے پیٹنے اور آہ و زاری کی آوازیں گونج رہی ہیں ۔ لوگ ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں ، گالیاں دے رہے ہیں ، لڑ جھگڑ رہے ہیں ، الزام تراشی کر رہے ہیں ، آپس میں  گتھم گتھا ہیں ۔

کوئی سر پکڑے بیٹھا ہے۔ کوئی منہ پر خاک ڈال رہا ہے۔ کوئی چہرہ چھپا رہا ہے۔ کوئی شرمندگی اٹھا رہا ہے۔ کوئی پتھروں سے سر ٹکرا رہا ہے۔ کوئی سینہ کوبی کر رہا ہے۔ کوئی خود کو کوس رہا ہے۔ کوئی اپنے ماں باپ، بیوی بچوں ، دوستوں اور لیڈروں کو اپنی اس تباہی کا ذمہ دار ٹھہرا کر ان پر برس رہا ہے۔ ان سب کا مسئلہ ایک ہی ہے۔ قیامت کا دن آ گیا ہے اور ان کے پاس اس دن کی کوئی تیاری نہیں ۔ اب یہ کسی دوسرے کو الزام دیں یا خود کو برا بھلا کہیں ، ماتم کریں یا صبر کا دامن تھامیں ، اب کچھ نہیں بدل سکتا۔ اب تو صرف انتظار ہے۔ کائنات کے مالک کے ظہور کا، جس کے بعد حساب کتاب شروع ہو گا اور عدل کے ساتھ ہر شخص کی قسمت کا فیصلہ ہو جائے گا۔

یکایک ایک آدمی میرے بالکل قریب چلایا:

’’ہائے۔ ۔ ۔ اِس سے تو موت اچھی تھی۔ اِس سے تو قبر کا گڑھا اچھا تھا۔‘‘

میں  اردگرد کی دنیا سے بالکل کٹ چکا تھا کہ یہ چیخ نما آواز مجھے سوچ کی وادیوں سے حقیقت کے اس میدان میں  لے آئی جہاں میں  بہت دیر سے گم سم کھڑا تھا۔ لمحہ بھر میں  میرے ذہن میں  ابتدا سے انتہا تک سب کچھ تازہ ہو گیا۔ اپنی کہانی، دنیا کی کہانی، زندگی کی کہانی۔ ۔ ۔ سب فلم کی ریل کی طرح میرے دماغ میں  گھومنے لگی۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول