صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
زندگی کے ہجر میں
ثروت زہرا
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
دوسرا خط
لو آ گئے جاڑوں کے دن میلا لگا ہے گاؤں میں
پیپل تمھارا کٹ گیا بیٹھے تھے جس کی چھاؤں میں
پیسے تو مجھ کو مل گئے پر کیا اکیلی جاؤں میں
میلے میں اتنے لوگ ہیں ڈر ہے نہ گم ہو جاؤں میں
رحموں گیا تو ساتھ ہی کل ریشماں ہو آئی ہے
میرے لیے تو ساتھ کو اک درد ہے تنہائی ہے
جوڑے تمھارے مل گئے پر کیا انہیں پہنوں گی میں
آئینے سے پوچھوں گی کیا ؟اس چپ سے کیا بہلوں گی میں
٭٭
تیسرا خط
اماں بہت بیمار ہے جوڑوں میں پھر سے درد ہے
آنکھوں میں امیدوں کی لو اب کے بہت ہی سرد ہے
دن رات تیرے ذکر ہیں جو مجھ سے کرتی جاتی ہے
بچپن ترا صورت تری بس مالا جپتی جاتی ہے
تو تھا دوائیں لیتی تھی اب ان سے بھی پر خاش ہے
کہتی ہے جی کر کیا کروں کیا ڈاکٹر کے پاس ہے
کل ڈاکیے سے لڑ پڑی تم خط نہیں پہنچاتے ہو
بیٹا مرا چھٹی لکھے تم دھیان سے نہیں لاتے ہو
ملتا رہے کچھ حوصلہ یہ کام نہ روکا کرو
مجھ سے خفا ہو جائے گی خط تو ہمیں بھیجا کرو
٭٭٭