صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
زندہ زمین
محمد عادل منہاج
جاسوسی ناول
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
(۱)
وہ
جیپ آہستہ روی سے کچی سڑک پر لڑکھڑاتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی. یہ ایک غیر
آباد میدانی علاقہ تھا. تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مٹی کے ٹیلے نظر آرہے تھے .
جابجا گڑھے تھے جن میں سے بعض خاصے گہرے تھے . کچھ فاصلے پر دائیں طرف
چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کا سلسلہ تھا. یہ پہاڑیاں ذیادہ تر مٹی اور پتھروں پر
مشتمل تھیں . سبزے کا نام و نشان بھی نہ تھا. جیپ کا رخ بھی پہاڑیوں ہی کی
طرف تھا. کچھ دیر مزید لڑکھڑانے اور ڈگمگانے کے بعد جیپ ایک پہاڑی کے دامن
سے کچھ فاصلے پر رک گئی. پھر جیپ سے چند افراد نیچے اترے . یہ تعداد میں
پانچ تھے .ان میں ایک بوڑھا تھا.اس کے چہرے پر سفید داڑھی بھی تھی مگر
جسمانی طور پر چاق و چوبند نظر آتا تھا.ایک غالبا ڈرائیور تھا جو جیپ کے
دروازے سے لگا کھڑا تھا.باقی تین درمیانی عمر کے تھے .ایک کے ہاتھ میں
کیمرہ تھا اور ایک کے پاس بیگ تھا.
’یہی وہ جگہ ہے جہاں پرسوں رات شہاب ثاقب کے ٹکڑے گرے تھے .‘ ایک شخص بولا.
’ہاں .یہاں کافی تعداد میں پتھر کے ٹکڑے ادھر ادھر نظر تو آرہے ہیں .شہاب صاقب زمین کی فضا میں داخل ہونے کے بعد کئی حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا اور اس کے ٹکڑے یکے بعد دیگرے زمین سے ٹکرائے تھے . ہمیں اس کے بڑے ٹکڑے تلاش کرنے چاہییں . آؤ آگے چلتے ہیں .‘ بوڑھا اور چاروں افراد آگے بڑھے . ڈرائیور البتہ وہیں کھڑا رہا.
’یہ تو شکر ہے کہ شہاب ثاقب اس غیر آباد جگہ گرا. اگر آبادی پر گرا ہوتا تو اچھی خاصی تباہی مچادیتا.‘ لمبے قد والا شخص بولا.
’ہاں جب یہ خبر شایع ہوئی تھی تو پورے ملک میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا.‘ دوسرا بولا.
’قدرتی بات ہے . مگر شہاب ثاقب زمین سے ٹکرانے سے پہلے ہی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو بالکل راکھ ہو جاتے ہیں اس لیے اتنا نقصان نہیں پہنچاتے .‘ بوڑھا بولا.
’ارے ! وہ دیکھیے پروفیسر ... اس کھائی میں .‘کیمرے والے شخص نے اشارہ کیا. سب نے ادھر دیکھا. یہ خاصی گہری کھائی تھی اور اس کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑا کالا پتھر پڑا تھا.
’اوہ! یہ تو شہاب ثاقب کا بہت بڑا ٹکڑا ہے .‘
’تم ٹھیک کہتے ہو ندیم. ہمیں کھائی میں اتر کر اس کا جائزہ لینا چاہیے .‘بوڑھے پروفیسر نے کہا.
’اس طرف سے اترنے کا راستہ ہے .‘کیمرے والا بولا.
’اف!!‘اسی وقت ندیم کے منہ سے نکلا.اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا. اچانک ہی اس کے جسم سے پسینہ پھوٹ نکلا اور پھر اس کے منہ سے عجیب سی آواز میں نکلا.’خبر دار! تم میں سے کوئی اس پتھر کی طرف بڑھنے کی کوشش مت کرنا.‘
سب نے حیران ہوکر اس کا جملہ سنا.
’یہ .... یہ تم کیا کہ رہے ہو ندیم؟ اور یہ تمہاری آواز کو کیا ہوا؟‘پروفیسر نے حیرانگی سے کہا.
’میں ندیم نہیں بلکہ زمین بول رہی ہوں .‘ ندیم نے اسی طرح عجیب سی آواز میں کہا.
’زمین بول رہی ہوں .کیا مطلب!!‘لمبے قد والے کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا.
’ہاں اس علاقے کی زمین کو زندگی مل گئی ہے . میں نے اس شخص یعنی ندیم کے دماغ پر قبضہ کر لیا ہے اور اس کی زبان سے درحقیقت میں یعنی زمین بول رہی ہوں .‘ ندیم نے کہا.
’یہ تم کیا ڈرامہ کر رہے ہو.ختم کرو یہ مذاق.‘ کیمرے والے کو غصہ آ گیا.
’یہ مذاق نہیں ہے .‘ ندیم تیز لہجے میں بولا.’میں تم لوگوں کو وارننگ دیتی ہوں کہ اس ایک مربع میل کے علاقے سے دور نکل جاؤ اور یہاں سے شہاب ثاقب کا کوئی ٹکڑا اٹھانے کی کوشش مت کرنا.‘
’تمہیں مزہ چکھانا ہی ہو گا.‘کیمرے والا غصے میں ندیم کی طرف بڑھا.
’خبردار! رک جاؤ ورنہ پچھتاؤ گے .‘ ندیم دھاڑا مگر کیمرے والے کے قدم نہ رکے . اسی وقت ایک زوردار گڑگڑاہٹ گونجی اور جہاں کیمرے والے کے قدم تھے وہاں سے زمین پھٹ گئی. ایک گہری دراڑ نمودار ہوئی اور کیمرے والا دراڑ میں جاگرا. اس کے گرتے ہی دراڑ بند ہو گئی اور کیمرے والا سینے تک زمین میں دھنس گیا.
’مم ........ مجھے بچاؤ پروفیسر.‘کیمرے والا بھیانک آواز میں چلایا.
پروفیسر اور لمبے قد والے کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں .
’یہ .... یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں پروفیسر.... کیا یہ کوئی خواب ہے ؟‘
’خدا کے لیے مجھے یہاں سے نکالو.‘ کیمرے والا چلا رہا تھا.
’کیوں ... اب آیا یقین.یہ میری پہلی وارننگ تھی.لو میں اس بے وقوف شخص کو آزاد کر رہی ہوں .فورا یہاں سے ایک میل دور چلے جاؤ ورنہ تم سب کو زندہ دفن کر دوں گی.‘ندیم نے کہا.
ان الفاظ کے ساتھ ہی پھر گڑگڑاہٹ گونجی اور زمین پھٹ گئی .کیمرے والا زور سے اچھلا جیسے کسی نادیدہ قوت نے اسے اچھال پھینکا ہو.دراڑ فورا بند ہو گئی اور کیمرے والا نیچے آ گرا.پھر فورا ہی وہ اٹھا اور چیختا چلاتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا. پروفیسر اور لمبے قد والے نے بھی اس کے پیچھے دوڑ لگا دی. اسی وقت ندیم کو اک جھٹکا سا لگا . اس نے حیران ہوکر ان سب کو بھاگتے دیکھا . پھر وہ چلایا.’ کیا ہوا؟ آپ لوگ کہاں بھاگے جارہے ہیں ؟‘ یہ کہ کر وہ بھی ان کے پیچھے دوڑا .
جیپ کے ڈرائیور نے حیران ہوکر یہ منظر دیکھا.
’خخ ...... خیر تو ہے ؟‘اس کے منہ سے نکلا مگر اس کی بات کا جواب دیے بغیر سب جیپ میں بیٹھ گئے .
’فورا واپس چلو.‘ پروفیسر بولے .
’آخر ہوا کیا ہے ؟‘ اس نے پریشان ہوکر پوچھا.
’میں نے کہا ہے فورا واپس چلو.‘ پروفیسر غصے میں چلائے .اور ڈرائیور نے پریشان ہوکر فورا جیپ سٹارٹ کر دی. اسی وقت ندیم چلایا.’آپ لوگ مجھے چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں ؟‘
اس کے ساتھ ہی ایک دم ندیم اوپر اچھلا اور جیپ کے اندر آ گرا.جیپ بغیر چھت کے تھی.کیمرے والے نے بمشکل اسے سنبھالا. وہ بے ہوش ہو چکا تھا.
’یہی وہ جگہ ہے جہاں پرسوں رات شہاب ثاقب کے ٹکڑے گرے تھے .‘ ایک شخص بولا.
’ہاں .یہاں کافی تعداد میں پتھر کے ٹکڑے ادھر ادھر نظر تو آرہے ہیں .شہاب صاقب زمین کی فضا میں داخل ہونے کے بعد کئی حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا اور اس کے ٹکڑے یکے بعد دیگرے زمین سے ٹکرائے تھے . ہمیں اس کے بڑے ٹکڑے تلاش کرنے چاہییں . آؤ آگے چلتے ہیں .‘ بوڑھا اور چاروں افراد آگے بڑھے . ڈرائیور البتہ وہیں کھڑا رہا.
’یہ تو شکر ہے کہ شہاب ثاقب اس غیر آباد جگہ گرا. اگر آبادی پر گرا ہوتا تو اچھی خاصی تباہی مچادیتا.‘ لمبے قد والا شخص بولا.
’ہاں جب یہ خبر شایع ہوئی تھی تو پورے ملک میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا.‘ دوسرا بولا.
’قدرتی بات ہے . مگر شہاب ثاقب زمین سے ٹکرانے سے پہلے ہی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو بالکل راکھ ہو جاتے ہیں اس لیے اتنا نقصان نہیں پہنچاتے .‘ بوڑھا بولا.
’ارے ! وہ دیکھیے پروفیسر ... اس کھائی میں .‘کیمرے والے شخص نے اشارہ کیا. سب نے ادھر دیکھا. یہ خاصی گہری کھائی تھی اور اس کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑا کالا پتھر پڑا تھا.
’اوہ! یہ تو شہاب ثاقب کا بہت بڑا ٹکڑا ہے .‘
’تم ٹھیک کہتے ہو ندیم. ہمیں کھائی میں اتر کر اس کا جائزہ لینا چاہیے .‘بوڑھے پروفیسر نے کہا.
’اس طرف سے اترنے کا راستہ ہے .‘کیمرے والا بولا.
’اف!!‘اسی وقت ندیم کے منہ سے نکلا.اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا. اچانک ہی اس کے جسم سے پسینہ پھوٹ نکلا اور پھر اس کے منہ سے عجیب سی آواز میں نکلا.’خبر دار! تم میں سے کوئی اس پتھر کی طرف بڑھنے کی کوشش مت کرنا.‘
سب نے حیران ہوکر اس کا جملہ سنا.
’یہ .... یہ تم کیا کہ رہے ہو ندیم؟ اور یہ تمہاری آواز کو کیا ہوا؟‘پروفیسر نے حیرانگی سے کہا.
’میں ندیم نہیں بلکہ زمین بول رہی ہوں .‘ ندیم نے اسی طرح عجیب سی آواز میں کہا.
’زمین بول رہی ہوں .کیا مطلب!!‘لمبے قد والے کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا.
’ہاں اس علاقے کی زمین کو زندگی مل گئی ہے . میں نے اس شخص یعنی ندیم کے دماغ پر قبضہ کر لیا ہے اور اس کی زبان سے درحقیقت میں یعنی زمین بول رہی ہوں .‘ ندیم نے کہا.
’یہ تم کیا ڈرامہ کر رہے ہو.ختم کرو یہ مذاق.‘ کیمرے والے کو غصہ آ گیا.
’یہ مذاق نہیں ہے .‘ ندیم تیز لہجے میں بولا.’میں تم لوگوں کو وارننگ دیتی ہوں کہ اس ایک مربع میل کے علاقے سے دور نکل جاؤ اور یہاں سے شہاب ثاقب کا کوئی ٹکڑا اٹھانے کی کوشش مت کرنا.‘
’تمہیں مزہ چکھانا ہی ہو گا.‘کیمرے والا غصے میں ندیم کی طرف بڑھا.
’خبردار! رک جاؤ ورنہ پچھتاؤ گے .‘ ندیم دھاڑا مگر کیمرے والے کے قدم نہ رکے . اسی وقت ایک زوردار گڑگڑاہٹ گونجی اور جہاں کیمرے والے کے قدم تھے وہاں سے زمین پھٹ گئی. ایک گہری دراڑ نمودار ہوئی اور کیمرے والا دراڑ میں جاگرا. اس کے گرتے ہی دراڑ بند ہو گئی اور کیمرے والا سینے تک زمین میں دھنس گیا.
’مم ........ مجھے بچاؤ پروفیسر.‘کیمرے والا بھیانک آواز میں چلایا.
پروفیسر اور لمبے قد والے کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں .
’یہ .... یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں پروفیسر.... کیا یہ کوئی خواب ہے ؟‘
’خدا کے لیے مجھے یہاں سے نکالو.‘ کیمرے والا چلا رہا تھا.
’کیوں ... اب آیا یقین.یہ میری پہلی وارننگ تھی.لو میں اس بے وقوف شخص کو آزاد کر رہی ہوں .فورا یہاں سے ایک میل دور چلے جاؤ ورنہ تم سب کو زندہ دفن کر دوں گی.‘ندیم نے کہا.
ان الفاظ کے ساتھ ہی پھر گڑگڑاہٹ گونجی اور زمین پھٹ گئی .کیمرے والا زور سے اچھلا جیسے کسی نادیدہ قوت نے اسے اچھال پھینکا ہو.دراڑ فورا بند ہو گئی اور کیمرے والا نیچے آ گرا.پھر فورا ہی وہ اٹھا اور چیختا چلاتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا. پروفیسر اور لمبے قد والے نے بھی اس کے پیچھے دوڑ لگا دی. اسی وقت ندیم کو اک جھٹکا سا لگا . اس نے حیران ہوکر ان سب کو بھاگتے دیکھا . پھر وہ چلایا.’ کیا ہوا؟ آپ لوگ کہاں بھاگے جارہے ہیں ؟‘ یہ کہ کر وہ بھی ان کے پیچھے دوڑا .
جیپ کے ڈرائیور نے حیران ہوکر یہ منظر دیکھا.
’خخ ...... خیر تو ہے ؟‘اس کے منہ سے نکلا مگر اس کی بات کا جواب دیے بغیر سب جیپ میں بیٹھ گئے .
’فورا واپس چلو.‘ پروفیسر بولے .
’آخر ہوا کیا ہے ؟‘ اس نے پریشان ہوکر پوچھا.
’میں نے کہا ہے فورا واپس چلو.‘ پروفیسر غصے میں چلائے .اور ڈرائیور نے پریشان ہوکر فورا جیپ سٹارٹ کر دی. اسی وقت ندیم چلایا.’آپ لوگ مجھے چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں ؟‘
اس کے ساتھ ہی ایک دم ندیم اوپر اچھلا اور جیپ کے اندر آ گرا.جیپ بغیر چھت کے تھی.کیمرے والے نے بمشکل اسے سنبھالا. وہ بے ہوش ہو چکا تھا.
٭٭٭٭٭٭٭