صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


مشرف عالم ذوقی اور بھوکا ایتھوپیا

شیفتہ پروین

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

                     تعارف سے آگے کا سفر

مشرف عالم ذوقی ۱۹۸۰ کے بعد ابھر نے والے افسانہ نگاروں میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ ذوقی نے ناول بھی لکھے اور افسانے بھی۔ ذوقی کے ناول ہوں یا افسانے۔ اپنی انفرادی خصوصیات کے باعث قاری کو اپنی طرف منعطف کرتے ہیں۔ ذوقی کے افسانے بالکل جدید بلکہ آج کے معلوم ہوتے ہیں۔ موضوع بھی ان کے معاصر ہوتے ہیں۔ ذوقی نے آج کے سماج اور سیاست کا بڑی گہرائی کے ساتھ مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں بھر پور عصری حسیت موجود ہے۔ ذوقی کے یہاں تکنیک کے متنوع و بوقلمونی رنگ ملتے ہیں لیکن بیانیہ کا اسلوب ان کے تمام اسلوب پر غالب نظر آتا ہے۔ ان کی زبان شستہ ہے۔ جملے صاف اور سیدھے سادے ہیں جو معنی سے لبریز ہوتے ہیں۔ مشرف عالم ذوقی نے اس عہد میں لکھنا شروع کیا جب ادب کے حوالے سے نئے نئے مباحث سامنے آ رہے تھے۔ کبھی جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے مباحث  تھے تو کبھی ترقی پسندی کے بدلتے رجحانات تھے۔ اس عہد کے زیادہ تر لکھنے والے کسی نہ کسی ازم یا نظریے سے جڑے رہے۔ مشرف عالم ذوقی نے کبھی بھی اپنے کو کسی خاص ازم یا نظریے سے باندھ کر نہیں رکھا۔ انھوں نے اپنے معاشرے اور سماج کو گہرائی سے دیکھا، وہ ایک حساس ادیب واقع ہوئے ہیں انھوں نے جو بھی دیکھا  اسے فوراً اپنے فکشن میں ڈھال دیا۔ انھوں نے جب سے لکھنا شروع کیا ہے تب سے آج تک مسلسل لکھ رہے ہیں اور خوب لکھ رہے ہیں۔ ان کا قلم نہیں رکتا، بعض اوقات تعجب ہوتا ہے کہ وہ اتنا کیسے لکھتے ہیں کیونکہ وہ بیک وقت الیکٹرونک میڈیا سے بھی جڑے ہوئے ہیں اور عملی طور پر اس میں مصروف بھی رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ہندی میں بھی لکھتے رہے ہیں اور ادبی موضوعات پر بھی قلم اٹھاتے ہیں، وہ کہاں سے وقت لاتے ہیں اور کیسے ممکن ہو پاتا ہے کہ ناول پہ ناول اور افسانے پہ افسانے لکھے چلے جا رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بڑی بات ہے— لیکن دوسری جانب یہ بھی ہوتا ہے کہ اس زود نویسی سے ان کے فن پر بھی اثر پڑتا ہے۔ لیکن خود مشرف عالم ذوقی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے مطابق ہم جس عہد میں جی رہے ہیں وہ عہد مسائل کا عہد ہے— ساری دنیا میں کہیں بھی انسان کو سکون نصیب نہیں — ہر جگہ انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے—انسانیت ایک ایسے دو راہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف مادیت ہے تو دوسری جانب عالم کاری کی تباہ کاریاں — ایسے میں ایک ادیب اگر کچھ نہیں کر سکتا تو کم از کم اس پر اپنا رد عمل تو ظاہر کر سکتا ہے—ذوقی کی اس بات کو تسلیم کر لیں تب بھی تعجب ہوتا ہے کہ اس زود نویسی کے باوجود ان کے یہاں موضوعات کا تنوع ہے۔ وہ طرح طرح کے موضوعات پر افسانے لکھتے ہیں عام طور پر جنھیں ہم اپنی خاطر میں نہیں لاتے، مشرف عالم ذوقی ان موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں اور قاری کو چونکانے کا کام کرتے ہیں۔ ذوقی کی انھیں خصوصیات نے مجھے ان کے فن کے مطالعے پر مجبور کیا۔

بھوکا ایتھوپیا، مشرف عالم کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔ یہ مجموعہ 1993میں شائع ہوا۔ اس کے بعد منڈی، غلام بخش، صدی کو الوداع کہتے ہوئے، لینڈ اسکیپ کے گھوڑے، ایک انجانے خوف کی ریہرسل کے نام سے ان کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ بھوکا ایتھوپیا— مجھے سب سے پہلے اس نام نے حیران کیا تھا۔ ایتھوپیا کے تعلق سے قحط اور بھوکے مرتے لوگوں کی کہانیاں میں پہلے ہی سن اور پڑھ چکی تھی۔ لیکن کوئی اردو کا ادیب اس قدر درد مندی کے ساتھ ہندستانی معاشرے اور سماج کا تجزیہ کرتے ہوئے ایتھوپیا کا رشتہ ہندستان سے جوڑ سکتا ہے، یہ پہلی بار میں یقین نہ کرنے والی بات تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک میں مشرف عالم ذوقی کے ادب سے کم نام کی حیثیت سے زیادہ واقف تھی۔ پھر جب میں نے ذوقی صاحب کی کہانیوں اور ناولوں کا مطالعہ شروع کیا تو ایک نئی حقیقت سامنے تھی۔ سیاسی وسماجی بصیرت اور آگہی کی جو مثال ذوقی کے فن پاروں میں نظر آتی ہے وہ دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ ان کی تحریروں میں موجودہ سیاست کو سمجھنے کے بلیغ اشارے ملتے ہیں۔ تقسیم کا معاملہ ہو، آزادی کے بعد ہونے والے فسادات ہوں۔ اڈوانی جی کی رتھ یاترائیں ہوں یا 1992 کا سانحہ— بابری مسجد پر ان کا ناول بیان سامنے آیا۔ مسلمانوں کی پسماندگی اور آزادی کے بعد کے بدلتے حالات کو لے کر ذبح اور بیان جیسا ناول لکھ ڈالنا آسان نہیں تھا۔ اس لیے سماجی اور سیاسی شعور کے آئینہ میں بھوکا ایتھوپیا کی بات وہی کرسکتا تھا جس کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ تیز ہو۔ اور بلاشبہ یہ باتیں مشرف عالم ذوقی کے لیے کہی جا سکتی ہیں۔ بھوکا ایتھوپیا کی کہانیوں میں ترقی پسند ذوقی نظر آتا ہے جس کا دل مغموم ہے اور جو ہندستان میں ہونے والی سیاست پر رنجیدہ ہے— جس کا دل فسادات سے زخمی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مجموعہ کی الگ الگ کہانیاں فسادات کے آئینہ میں آگ اگلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مثال کے لیے۔

’’دیکھو جین میں خود ایسا نہیں سوچتا۔ مگر… اپنے لہجے کو کمزور محسوس کرتے ہوئے میں بولا… مگر یہ تو سوچو کہ دہشت کی شروعات کہاں سے ہوتی ہے۔ اندر اندر یہ اپنی جڑیں کیسے مضبوط کر جاتا ہے۔ ہمیں کھوکھلا کرتے ہوئے یہیں پر ایک سوال اٹھتا ہے۔ ارمیلا نے سچ مچ کارتوس دیکھا ہے یا اس کا شک ہے—؟ دراصل یہ بھی ہمارے تھکے ہونے کا احساس ہے، نتیجہ ہے۔ ارمیلا نے یہ کیسے سوچ لیا، میں نہیں کہہ سکتا۔ مگر کچھ تو احساس رہا ہو گا۔ جو برسوں سے تھوڑا تھوڑا کر کے اس کے اندر جمع ہوتا رہا ہو گا… بات اگر غلط بھی ہے تو لگتا ہے انجانے میں ہی بے بنیاد شک و شبہات کے دائرے میں کچھ خوفناک ہتھیار جمع کر لئے ہیں ہم نے دوسروں کے لیے۔ اور اپنی دفاع کے لیے الفاظ تو ہیں ہی ہمارے پاس۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں ڈیفنس کے نام پر کیا کچھ کارروائی چلتی رہتی ہے دنیا میں۔ امن کے نام پر، اسپیس میں ہونے والے نیوکلیائی اور ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کیا پوری انسانی برادری کو ایک خوفناک تباہی کی طرف نہیں ڈھکیل رہا ہے۔ ‘‘ میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ ‘‘

        —دہشت کیوں ہے

۔۔۔۔۔۔اقتباس