صفحہ اول

کتاب کا نمونہ پڑھیں



مشرف عالم ذوقی کی منتخب کہانیاں

مشرف عالم ذوقی

تین حصوں میں:

ڈاؤن لوڈ کریں 

حصہ اول

ورڈ فائل    

ٹیکسٹ فائل

حصہ دوم

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

حصہ سوم

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

پرامڈ


(۱)
رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ کمرے میں موت جیسا سنّاٹا پسرا تھا۔ موت جیسا نہیں۔ کمرے میں چپکے سے ایک ’موت‘ آکر گزر گئی تھی۔ جیسے تیز ہوا چلتی ہے۔ ۔ ۔  سائیں سائیں۔ ۔ ۔  جیسے لوہ یا جھکڑچلتے ہیں۔ ۔ ۔  جیسے ریگستانوں میں ریت کی آندھی بہتی ہے۔ ۔ ۔  اور اس آندھی کے پاگل کر دینے والی شور وجود میں وحشت اور دہشت کے گھنگھرو باندھ دیتے ہیں اور شروع ہو جاتا ہے تانڈو۔ ۔ ۔  
ڈم۔ ۔ ۔  ڈرم۔ ۔ ۔  ڈم۔ ۔ ۔  ڈرم۔ ۔ ۔  ڈرم۔ ۔ ۔
باہر کتّے بھی چپ ہیں۔ ۔ ۔  رات نے اپنی پر اسرار خاموشی میں، موت کے جان لیوا احساس کو زندہ کر دیا ہے۔ ۔ ۔
وہ ہے۔ ۔ ۔
نہیں۔ ۔ ۔  وہ نہیں ہے۔ ۔ ۔
نہیں وہ ہے۔ ۔ ۔  ابھی یہیں تھی۔ ۔ ۔  پلکوں سے قریب۔ ۔ ۔  آنکھوں سے، ذرا سے  فاصلے پر، اس کے پاؤں سے پاؤں ملا کر چلی۔ ۔ ۔  اور اُس کے ہونٹوں پر چپ سی آکر بیٹھ گئی ___
نہیں ۔ ۔ ۔  وہ نہیں ہے۔ ۔ ۔
رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ ۔ ۔  ’وہ نہیں ہے‘ کا احساس گرمی کی اُمس سے کہیں زیادہ بڑھ چکا تھا___ وہ ہے، اس کمرے میں ہے۔ اُس کی آنکھوں کی بے چین پتلیوں کے سامنے۔ ۔ ۔
در، دروازے، کھڑکیاں، سب خاموش۔ ۔ ۔
وہ پاؤں دابے چل رہا ہے ___ پر اسرار رات کے بدن کو روندتا ہوا___ چپ چپ اپنی لائبریری کے کمرے میں آگیا ہے___ اس کمرے میں برسوں سے نہیں آیا ___ کتابیں درکتابیں۔ ۔ ۔  دھول اور گردو غبار میں ڈوبی کتابیں___ ریک میں ، ایک قطار سے سجی ہوئی کتابیں___ المیرا کے کھلے پٹ سے جھانکتی کتابیں___ جیسے سلیپ واکر ہوتے ہیں۔ نیند میں چلنے والے۔ ۔ ۔
وہ سلیپ واکر بن گیا ہے۔ ۔ ۔  چپ چپ ان کتابوں کے درمیان گھوم رہا ہے۔ پھر ایک بڑی سی موٹی  سی کتاب کھول کر بیٹھ گیا ہے۔
گول سی انگریزوں کے زمانے کی میز ہے۔ میز پر برٹش راج کے وقت کی ایک اونچی سی سیاہ کرسی ہے___ وہ اس کرسی پر بیٹھ گیا ہے۔ کتاب کھل گئی ہے۔ ۔ ۔  آنکھیں وحشت زدہ سی کتاب کے صفحوں پر دوڑ رہی ہیں۔ ۔ ۔  پیرامڈ۔ ۔ ۔  وقت کی سوئی چلتے چلتے ٹھہر گئی ہے۔ حال ، ماضی بن گیا ہے___ ماضی حال___ وہ وقت کی گردش سے دور نکلنے کی کوشش کر رہا ہے___

پیرا مڈ___

زندگی سو رہی ہے اور اندھیرے میں پیرامڈ جاگ گئے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں پیرامڈ۔ ۔ ۔
اُس کی آنکھیں نشہ میں ڈوبی لگ رہی ہیں۔ ۔ ۔  ایک عجب سی بے اطمینانی اُس کے وجود پر حاوی ہے___ کسی بڑے مفکر کی طرح وہ کتاب پر جھک گیا ہے___ آنکھیں بند ہیں۔ ۔ ۔  ہونٹ آہستہ آہستہ بڑبڑا رہے ہیں۔ ۔ ۔  نیل ہے ۔ ۔ ۔  نیل ہے۔ ۔ ۔  نیل کہیں جا ہی نہیں سکتی۔ ۔ ۔  نیل ہے۔ ۔ ۔  یہیں آس پاس ۔ ۔ ۔  وہ اسے محسوس کر سکتا ہے۔ ۔ ۔  اُسے چھو سکتا ہے۔ ۔ ۔  چھو سکتا ہے۔ ۔ ۔
تم کہاں ہو
کہاں ہو نیل۔ ۔ ۔
کہاں چھپ گئی ہو۔ ۔ ۔ ؟
پھر جیسے معصوم ہنسی کی ’جھڑی ‘لگ گئی___
___ لو آگئی___
کہاں تھی نیل؟
یہیں تو تھی۔ ۔ ۔
یہاں۔ ۔ ۔
ہاں، تمہاری کتابوں میں۔ ۔ ۔
کتابوں سے باہر نکلو___ باہر نکلو نیل۔ ۔ ۔  میرا ہاتھ تھامو۔ ۔ ۔  چلو ۔ ۔ ۔  چلنے کی پریکٹس کرو۔ ۔ ۔  پریکٹس کرو نیل۔ ۔ ۔
پھر وہی معصوم ہنسی۔ ۔ ۔  ’میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔ چلوں گی نہیں ۔ پہچانوں گی نہیں۔ ۔ ۔  اٹھوں گی نہیں۔ بیٹھوں گی نہیں۔ بس تمہاری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دوں گی___ آنکھیں نہیں۔ ۔ ۔  پوری پوری خود کو ڈال دوں گی۔ ۔ ۔  پتلیوں کے جھولے میں جھولہ ، جھولوں گی۔ ۔ ۔  جھولہ ٹوٹ گیا تو۔ ۔ ۔ ؟‘
کمرے میں اڑتی ہوئی ایک چمگادڑ آگئی تھی۔ ۔ ۔  بلب کی مدھم روشنی۔ ۔ ۔  بے رونق دیواریں۔ ۔ ۔  دھول سے بھری المیرا۔ ۔ ۔
فادر تھا مسن سر پر کیپ برابر کرتے ہیں۔ سینے پر کراس کے نشان بناتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں___ یہ سب کیوں جاننا چاہتے ہو اسلم شیرازی___ دُنیا ایک دھند ہے۔ جو اس دھند سے باہر نکل گیا، اسے بھول جاؤ___
ایک لمبی سانس___ آپ مجھے پیرا مڈ کے بارے میں بتا رہے تھے۔ ۔ ۔
’قدیم داستانیں___ فادر تھامسن کے چہرے پر بل پڑ گئے ہیں___ ہاں، کیا بتا رہا تھا___ ہاں۔ وہاں گیا تھا میں۔ اسفنک کے جنوب میں۔ ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ ۲۰ سے ۲۵ ہزار مزدوروں پر مشتمل___ (قہقہہ) ۔ ۔ ۔  بستی نہیں، مزدوروں کا قبرستان کہو۔ قبرستان۔ ۔ ۔
’سب مردے تھے۔ ۔ ۔ ؟‘
’نہیں۔ ہاں___ مردے۔ ۔ ۔  ہم کون سے مردے نہیں ہیں اسلم  شیرازی۔ ۔ ۔  سب مردے ہیں۔ ۔ ۔  وہ مرے ہوؤں کے لیے کام کرتے تھے۔ ۔ ۔  جیسے گورکن ہوتے ہیں تمہارے ہاں۔‘
’ گورکن قبر تیار کرتے ہیں۔‘
ایک ہی بات ہے___
فادر ہنستے ہیں___ گورکن زندہ رکھنے کا راز نہیں جانتے۔ قدیم ممیاں۔ ۔ ۔  ان ممیوں کو صدیاں دینے والے مزدور جانتے تھے کہ مرنے کے بعد بھی انسان کو زندہ کیسے رکھا جاسکتا ہے۔ ۔ ۔  تمہیں یقین نہیں آئے گا اسلم شیزاری مگر میں ایسے کچھ مزدوروں سے ملا ہوں۔ وہ بتاتے ہیں۔ انہوں نے رات کے وقت ایسے کئی ممیوں کی کھلی آنکھیں دیکھی ہیں۔ ان سے گفتگو کی ہے۔ ناقابل یقین مگر سچ___
فادر ایک بار پھر کراس چومتے ہیں___

’نیل ‘ بن رہی ہے

نہیں پیارے قارئین، یہ کہانی وہاں سے شروع نہیں ہوسکتی، جہاں سے آپ چاہتے ہیں___ اس کہانی کے لیے ۵۷۔۵۸ برسوں کا ایک ملک ہے، جہاں مسلسل ایمانداری اور وفاداری کی دہائیاں دینے کے بعد بھی اسلم شیرازی گھٹتا ہی رہتا ہے___ گھٹتے گھٹتے ضدی اور چرچرا ہوگیا ہے۔ غصور اور بد دماغ بھی___ وہ اپنا تمام تر غصہ، اپنی بیوی فاطمہ پر نکالتا ہے___
’جہنم میں جائیں مسلمان۔ ۔ ۔ ‘
کیوں؟
’کیونکہ وہ جہنم میں جانے کے لیے ہی بنے ہیں۔‘
ایسا کیا کر دیا مسلمانوں نے؟
کیا کر دیا ___؟ اسلم شیزاری غصے سے چیخ مارتا ہے۔ ’کیا نہیں کر دیا۔ پاکستان سے افغان تک ۔ ۔ ۔  بابری مسجد سے لے کر۔ ۔ ۔ ‘
وہ ایک لمحے کو رکتا ہے___ ہم چپ کیوں نہیں رہ سکتے۔ اقلیت میں ہیں اس لیے۔ ۔ ۔
 فاطمہ اس جملے کو دہراتی ہے___ جو اقلیت میں ہیں، انہیں چپ رہنا چاہئے۔ کیوں؟ مرجانا چاہیے___‘
’نہیں مرجانا نہیں۔ بس چپ رہنا چاہیے۔‘
تب نیل نہیں بنی تھی۔ نیل نہیں آئی تھی۔ نیل کا جنم نہیں ہوا تھا___ اسلم شیرازی عمر کی چالیس پائدان پر کھڑا ، آزادی کے بعد ہونے والے واقعات کے دھویں میں پلا بڑھا صرف اور صرف غصہ کرنے کے لیے پیدا ہوا تھا۔ ایک بے حد حساس اور جذباتی آدمی___
فادر اسمتھ پڑوس میں ہیں۔ کبھی کیتھولک چرچ میں ہوا کرتے تھے۔ اب نہیں۔ چرچ کی آپسی سیاست سے گھبرا کر استعفیٰ دے کر چلے آئے۔ آنکھوں پر خوبصورت سا گولڈن فریم کا چشمہ ___ بڑی سی داڑھی___ گیہواں رنگ___ وہ اسلم شیرازی کے غصے پر بار بار ہنس دیتے ہیں___
’اقلیتوں نے اس ملک پر بہت ظلم ڈھائے ہیں۔ ناراض کیوں ہوتے ہو___‘
’ میں نے تو نہیں ڈھائے___‘
تم نے تم نے ہی نام بدل کر ڈھائے ہیں۔ میں نے بھی___‘ فادر تھامسن زور زور سے ہنستے ہیں___ غلطی یہ ہے کہ یہ اتہاس نہیں بھول سکتے۔ اس لیے اتہاس بدل دینا چاہتے ہیں۔ دیکھو اسلم شیرازی ۔ ہم دونوں اسی لیے دوست ہیں کہ ہم دونوں اقلیت میں ہیں___‘
’ اقلیت میں ہونا جرم ہے !‘
’ہاں۔ جرم ہے___ سچی بات تو یہ ہے کہ اس ملک میں اقلیت میں ہونا سب سے بڑا جرم ہے___ اُنہیں اکثریت میں ہونے کے فائدے نہیں ملیں گے تو وہ یہ جرم کریں گے۔ بار بار کریں گے___ کیونکہ بیچارے ایک سرکار تک اپنی نہیں بنا سکتے___ بناتے بھی ہیں تو کئی وچار دھاراؤں کا سہیوگ مانگنا پڑتا ہے___‘‘
اسلم شیرازی کو ڈر لگتا ہے ۔ وہ مکمل طور پر آگئے تو۔ ۔ ۔ ؟‘
’ اتنا کیوں سوچتے ہو۔ تب کیا ہوگا___ ہمارا جینا مشکل ہو جائے گا۔ مگر۔ ۔ ۔  ‘ فادر ہنستے ہیں۔ اس وقت ہم نہیں ہوں گے۔ ہمارے بچے ہوں گے۔ فکر کیوں کرتے ہو___ بچے سمجھیں گے___‘
’ بچے آتو جائیں پہلے۔ ۔ ۔ ‘ اسلم شیرازی نے سر جھکا لیا۔ ’فاطمہ کہتی ہے کہ۔ ۔ ۔ ‘
 ہو۔ ۔ ۔  ہو ئئء فادر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا ___ تمہیں لڑکی ہوگی___ دیکھ لینا۔ ایک اقلیت لڑکی___ تمہاری، اقلیتوں کی آبادی میں ایک لڑکی کا اضافہ___
تب نیل نہیں بنی تھی۔ ۔ ۔ 

(نا مکمل)
***


ڈاؤن لوڈ کریں 

حصہ اول

ورڈ فائل    

ٹیکسٹ فائل

حصہ دوم

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

حصہ سوم

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں پریشانی؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول