صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
ذوقی کے مضامین
مشرف عالم ذوقی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
یہ پیش لفظ میں نے صرف تمہارے لئے لکھا ہے آصف فرّخی
’’پرندے کو مار دو
نغمہ خاموش ہو جائے گا۔۔۔ ‘‘
***
30 اپریل، 2004ء
پاکستان سے آصف فرّخی نے خوش خبری دی ___ہم ’’پوکے مان کی دنیا ‘‘ شائع کرنے جا رہے ہیں۔ آپ چند سطور لکھے ڈالیے۔
ایک لمحے کے لئے سوچ میں گرفتار ہو گیا۔ کیا لکھوں۔ آج تک جتنے بھی ناول منظر عام پر آئے میں نے کسی میں بھی، کچھ بھی نہیں لکھا___ اور ایک ناول لکھنے کے بعد، کچھ اور لکھنے کے لئے باقی ہی کیا رہ جاتا ہے۔ مگر پاکستانی ایڈیشن___ شاید، 47ء کی اسی ترقی پسندی نے مجھے ’’پیش لفظ ‘‘ تحریر کرنے کا جواز فراہم کیا___ کیا یہی تبدیلیاں پاکستان میں بھی رونما ہوئی ہیں ___؟
یعنی___
’پرندے کو مار دو
نغمہ خاموش ہو جائے گا‘
تہذیب کا قتل کر دو، تو___؟
انسان مر جائے گا یا … ؟
ایک زمانے میں نغمہ کی کیمیاگری تلاش کرنے کیلئے پرندوں کی چیر پھاڑ کیا کرتے تھے۔
’’ہُما کے ٹکڑے کر دو
موسیقی گم ہو جائے گی ‘‘
انسان کو خود مختار چھوڑ دو۔ جمہوریت کو بے لگام رہنے دو ___سماج سے سیاست تک آج اخلاقیات کی دُہائیاں دینے والوں کی کمی نہیں ___بڑے سیاسی گدھ، دہشت گردی کے ننگے رقص میں اخلاق کی روٹیاں سیکتے نظر آتے ہیں تو مر جانے کو جی چاہتا ہے۔ کوئی ہٹلر، کوئی بُش جب اپنے خطرناک منصوبوں کو انجام دینے کے لئے کوئی دلیل، کوئی تعبیر پیش کرتا ہے تو شرم محسوس ہوتی ہے۔ ادب سے ثقافت، اوپیرا سے موسیقی، فن سے فنکار تک___ ہم ایک گہرے Pollution میں گھرتے جا رہے ہیں ___شاید اسی لئے جب ایڈورڈ سعید نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’ اور ینٹلزم‘ میں مشرقی اقوام اور تمدن کی بحث چھیڑی تو مغرب کے دانشور چونک گئے ___ اور ان کا چونکنا مہذب دنیا کے لئے ایک بڑے حادثے کی طرح تھا___
مجھے لگا، مجھے اس حادثے کا گواہ بننا چاہئے۔ ایک لکھنے والا وقت کی عینک اُتار کر، دور رس نتائج سے باخبر ہو کر اپنی تحریر کو ایک ذمہ دار تحریر نہیں بنا سکتا۔ شاید اسی لئے دوسری زبانوں کے ادیب زیادہ کامیاب رہتے ہیں کہ اُن کی آنکھیں نہ صرف جاگتی رہتی ہیں بلکہ چاروں جانب دیکھتی بھی رہتی ہیں۔ دور کیوں جائیے۔ ارندھتی رائے کی مثال کافی ہے۔
ہم مغرب کی بات نہیں کریں گے۔ لیکن ایک ’یوٹوپیائی پیرسترئیکا‘ ہے۔ ایک خیالی آزادی کا نگر___ اس نگر کی اندھی سچائیاں ہیں۔ اور تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں کی نئی نسل بغیر سوچے سمجھے اُڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس اندھی اُڑان کا نتیجہ کیا ہو گا، اس بے رحم حقیقت کو جانتے ہوئے بھی ہم خاموش ہیں۔ شاید اس ناول کی تخلیق کا خیال یہیں سے پیدا ہوا___
آج ماحولیاتی فعالیت کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ پرندے اور جانوروں کو بچائے رکھنے کی کوششوں میں عالمی انسانی برادری کی بڑی بڑی انجمنیں سامنے آ رہی ہیں۔ ’تحفظ کرو۔ مدافعت کرو اور مزاحمت بند کرو۔ ہم اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ فلاں جانور کی نسل کو ہم نے ختم ہونے سے بچا لیا___ لیکن نسل آدم کو بچانے کے لئے ہم کیا کر رہے ہیں ___ گلوبلائزیشن سے پیدا ہوئے چند بدترین خطروں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خود مختاری اور بے راہ رو آزادی نے ہمیں ایک بڑے کارٹون شو یا جوکر میں تبدیل کر دیا ہے ___ فرق صرف اتنا ہے کہ سرکس کے جوکر پر دوسرے ہنستے ہیں اور ذرائع ابلاغ کی معیت میں نہ ہمیں اپنے حال کی فکر ہے اور نہ ہم خود پر ڈھنگ سے رو سکتے ہیں ___
یہ ناول دراصل ایک جنگ ہے یا جنگ کے لئے بجایا ہوا بگل۔ ایک نسل گم ہونے والی ہے۔ تہذیب کے ڈائناسور، جوراسک پارک سے نکل کر ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں۔ انسانی ارتقاء کی یہ ریس جاری رہے گی۔ ذرائع ابلاغ کے دائرے اور وسیع ہوں گے۔ تو کیا، اس ناول کے بہانے میں ہڑپاّ اور پتھروں کے یُگ میں واپسی کا خواہشمند ہوں۔ یا پھر دقیانوسی کے جھاگوں میں ڈوبا ایک ایسا کمزور شخص ہوں، جو سوپر کمپیوٹر کے عہد میں، تکنالوجی کے بڑے بڑے کھلونوں سے بچوں کو ڈرانا چاہتا ہے ___
ایسا نہیں ہے۔ ترقی ہر بار اپنے ساتھ بربادیوں کے کچھ بھیانک قصّے لے کر آ جاتی ہے ___ اور ہر بار اِسی سرد و گرم ہوا میں ہم اپنے جینے کا اہتمام کرتے ہیں ___ وقت نے سی گل (Sea-Gull) کی طرح اُڑتے ہوئے اچانک ہی ایک لمبی اُڑان بھری ہے اور اس اچانک کی لمبی اُڑان سے بے شمار خطرات اور بیماریوں کے دروازے کھل گئے ہیں۔ پہلے ہم ایک ایک قدم گن کر چلتے تھے اور اب یکایک اُڑنے لگے ___ تیز آندھی اور کمزور انسان وجود___
ہندستانی پس منظر پر دیکھیں تو آزادی کے 55-56 برسوں میں، ایک سوپر کمپیوٹر شہر کے شیشے نما کمرے میں ننھے بچے اُڑتے ہوئے اپنی عمر سے بہت دور نکل رہے تھے اور خوفزدہ آنکھیں کفِ افسوس ملتی ہوئی اُنہیں صرف دیکھ سکتی تھیں ___
لیکن نہیں۔ کہیں نہ کہیں اخلاقیات کے اِس پری ہسٹارک ڈائناسور کی واپسی ہو رہی ہے۔ بُش، Lesbianism کے خلاف قانون بنانے کی بات کرتا ہے تو یہ بھی ایک دور رس خوف کی طرف اشارہ کرنا ہے ___ ہپ ہاپ ریپر اور پروڈیوسر دانتے بیرے جسے موسیقی کی دنیا میں Mos Defکے نام سے جانا جاتا ہے اپنے بیشتر شوز میں معاشرے کی گرفت اور اخلاقیات کو ہی اپنے نغموں میں بار بار پیش کرتا ہے تو یہ بھی اُسی خوف کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
’دنیا امیروں اور غریبوں کے درمیان بٹی ہوئی ہے
لیکن خدا کافی ہے ان معاملات کی بہتری کے لئے۔ ‘
Haus, Frauen, Sexکی مصنفہ مارگیٹ شرائنر اپنے اس مشہور زمانہ ناول میں شوہر، بیوی اور بچے کی تثلیث کو لے کر اِسی اخلاقیات کا سبق دہراتی ہوئی نظر آتی ہیں ___ ’تباہی اور بربادی میں کیا فرق ہے۔ پتہ ہے تمہیں۔ آدمی تباہ کرتا ہے لیکن عورت برباد کرتی ہے۔ جو کچھ تباہ ہو جاتا ہے اُسے پھر سے تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ گھر، آرٹ، تہذیب۔ لیکن جو برباد ہو گیا، سمجھو۔ ختم ہو گیا___‘
لیکن نہیں۔ سب کچھ ختم نہیں ہو گا۔ ہم آسانی سے سب کچھ ختم نہیں ہونے دیں گے۔ ایک چھوٹی سی کہانی کہیں پڑھی تھی۔ کچھ لوگ گفتگو کر رہے تھے۔ ایک چھوٹا سا بچہ شرارت پر شرارت کئے جا رہا تھا۔ باپ نے ایک رسالہ لیا۔ اُس پر دنیا کا ایک نقشہ بنا ہوا تھا۔ باپ نے قینچی لی۔ دنیا کے نقشے کے کئی ٹکڑے کر دیئے اور بیٹے سے بولا۔ جاؤ۔ کمرے میں جا کر اس نقشے کو جوڑ لاؤ۔ باپ کو امید تھی۔ بیٹا ابھی کافی دیر تک اسی نئے کھیل میں گرفتار اور پریشان رہے گا۔ لیکن یہ کیا۔ دو ہی منٹ بعد بیٹے کی واپسی ہوئی۔ بیٹے نے دنیا کے نقشہ کو جوڑ دیا تھا۔ باپ نے تعجب سے پوچھا۔ یہ کافی مشکل کام تھا۔ تم نے کیسے کر دکھایا۔
بیٹے کا جواب تھا۔ ویری سمپل ڈیڈ۔ دراصل اس کے پیچھے ایک آدمی کی تصویر بنی تھی۔ میں آدمی کو جوڑتا چلا گیا___
یہاں بھی وہی نقشہ ہے وہی تصویر ہے ___ اور اس کے پیچھے اُسی آدمی کی تصویر ہے جسے ہمیں انتہائی ہوشیاری اور فنکاری سے جوڑنے کی کوشش کرنی ہے۔ کیونکہ نئی الفی کے دھماکے تیز ہیں ___ اور ان دھماکوں کی ضرب میں چھوٹے چھوٹے ممالک یقینی طور پر زخمی ہوئے ہیں ___ یہاں دنیا کا نقشہ ٹھیک کرنے کی ذمہ داری بچے پر نہیں بلکہ ہم پر ہے ___
بہت بڑے بڑے فلسفوں اور بہت بڑی بڑی آوازوں کے درمیان ہمیں اس حقیقت پر بھی نگاہ رکھنی ہے کہ کچھ ’گُم‘ ہو رہا ہے۔
اور جو گُم ہو رہا ہے۔ اُسے بچانے کی ذمہ داری بھی ہماری ہے۔
اور یہ ناول بھی اسی سمت اُٹھایا گیا، ایک چھوٹا سا قدم ہے۔
٭٭٭