صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
زرپرست سرپرست
ڈاکٹر سلیم خان
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
وقت کے ساتھ امروز نے حالات سے مصالحت کر لی تھی۔ اسے سندھیا کو چوکھٹ پر اپنا انتظار کرتا ہوا دیکھ کر خوشی تو ہوتی ہی تھی مگر جب کبھی اسے دروازہ بند ملتا اور وہ از خود دروازہ کھول کر اندر آتا، نیز ماں بیٹی کو سوتا ہوا پاتا، تب بھی وہ رات کی کالی چادر اوڑھ کر راضی خوشی سو جاتا۔ لیکن ایک دن جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ سارا کمرہ ٹی۔وی کے اجالے سے روشن ہے۔ سندھیا گہری نیند میں سوئی ہوئی ہے اور سحر موگلی کے کارٹون میں کھوئی ہوئی ہے۔ ویسے تو امروز کو ان دونوں پر غصہ آیا لیکن نیند کی آغوش میں دبکی ہوئی سندھیا کی لاش پر غصہ اُتارنا بے سود تھا، اس لئے وہ سحر پر برس پڑا۔ ’’بیٹی۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اتنی رات گئے تم کارٹون دیکھنے میں مشغول ہو؟ سونا نہیں ہے کیا؟‘‘
سحر بولی۔ ’’ابو جی۔۔۔ آج تو غضب ہو گیا۔‘‘
’’کیا؟ کیسا غضب؟ یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘
’’جی ہاں ابو جی! آج تو موگلی کا شیر سے جھگڑا ہو گیا؟‘‘
’’ہو گیا تو ہو گیا، کسی نہ کسی کی کسی نہ کسی سے لڑائی بھڑائی تو ہونی ہی ہے۔ ورنہ تم جیسے لوگ اس کے پیچھے اپنا وقت کیوں ضائع کرو گے؟‘‘ امروز نے بیزاری سے کہا۔
’’نہیں ابو، ایسی بات نہیں ہے۔ جنگل کے جانور تو آپس میں لڑتے بھڑتے رہتے تھے، لیکن موگلی اور شیر کے درمیان لڑائی اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے۔‘‘
’’ارے بھائی تو اس میں کیا خاص بات ہے۔ صلح اور جنگ کے معاملات تو چلتے ہی رہتے ہیں۔ آج جنگ ہوئی ہے تو کل صلح ہو جائے گی۔ دیکھو، ویسے بھی کافی دیر ہو چکی ہے۔ تم ایسا کرو کہ اپنی امی کی طرح فوراً سوجاؤ۔‘‘
سحر بولی۔ ’’ابو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ بہت ہی خاص بات ہے۔ اس سے پہلے جنگل کے دوسرے جانوروں کی آپس میں لڑائی ہوتی تھی تو شیر یا موگلی کو اپنا ثالث بناتے اور ان سے آپسی تنازعات کا تصفیہ کرواتے تھے۔ اکثر تو یہ ہوتا کہ ایک فریق کا حکم موگلی اور دوسرے کا شیر ہوتا تھا۔ گویا یہ دونوں مل کر لوگوں کے جھگڑے کو چکا دیتے۔
’’ہاں ہاں ۔۔۔ تو گویا دونوں مخالف فریق کے ساتھ ہوتے اور اب بھی ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ اس میں کون سی نئی بات ہے؟ میں ان تماشوں کو خوب جانتا ہوں۔‘‘
’’جی نہیں ابو! آپ نہیں جانتے۔ یہ مخالفین کے ساتھ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے دشمن نہیں، بلکہ دوست ہوا کرتے تھے۔ جب ان میں سے کسی ایک کی جنگل کے کسی دوسرے جانور سے لڑائی ہو جاتی تو یہ دونوں اس کا متحد ہو کر مقابلہ کیا کرتے تھے۔ لیکن آج تو ان دونوں کے درمیان ہی ٹھن گئی۔ میں ۔۔۔ میں اس جنگ کا انجام دیکھے بغیر نہیں سو سکتی۔ مجھے ہرگز نیند نہیں آئے گی۔‘‘
امروز کا پارہ چڑھ گیا۔ اس نے لپک کر ریموٹ سحر کے ہاتھ سے چھین لیا اور ٹیلی ویژن کو بند کر دیا۔
٭٭٭