صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


ضمیر واحد متبسم

مشتاق احمد یوسفی

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

اقتباس

غالب کا ایک بہت مشہور مصرع ہے:


ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے


اس مصرع کو گزشتہ ۵۰ برسوں سے ہر اچھا آدمی اور ہر بری حکومت اپنے دفاع میں پیش کرتے آئے ہیں۔


شعر کا اگر پہلا مصرع نہ پڑھا جائے تو پہلی نظر میں یہ مصرع سوالیہ معلوم ہوتا ہے مگر درحقیقت  ہے استفہام انکاری۔ اس کا مطلب ہم یہ سمجھے کہ اگر آپ سے پوچھا جائے، کیا آپ نے کوئی ایسا شخص دیکھا ہے جسے سبھی اچھا کہیں تو آپ کے ذہن میں اپنے سوا کسی اور کا نام نہ آئے! اس کا سبب اپنی ذات سے عقیدت کی زیادتی ہوتا ہے۔ اب ذرا دیر کو اس نقیض یعنی الٹ پر بھی غور کیجیے۔ فرض کیجیے میں ورڈلی وزڈم (فراست ارضی) سے لبریز اور بحر سے خارج مصرع اس طرح کہتا:


ایسا بھی کوئی ہے کہ برا جس کو سب کہیں


تو ذہن میں ایسے ایسے اور اتنے سارے نام آئیں گے کہ انھیں لب پہ لاتے ہوئے اپنے معصوم بال بچوں کا خیال آ جائے گا۔ مطلب یہ کہ دوسروں کے بارے میں اچھی بری رائے معلوم کرنے کی خاطر دنیا جہاں سے ’پنگا‘ تھوڑا ہی لینا ہے۔


یہ تو ہوا غالب کے مصرعے کا الٹا سیدھا لیکن مجھے تو اس مصرعے میں استفہام اقرار و استثنائی بھی نظر آتا ہے۔ میں اپنے بائی پاس شدہ دل اور اپنی چاروں کتابوں پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں … جسے کسی اعتبار سے مختصر نہیں کہا جاسکتا … ایک ایسابھی خدا کا بندہ دیکھا ہے جسے اس کی زندگی میں اور اس کے رخصت ہونے کے بعد بھی کسی نے برا نہیں کہا۔ یہ فوزِ عظیم اور رتبہ بلند جسے ملا اسے سب کچھ مل گیا۔ سید ضمیر جعفری مرحوم و مغفور کو سب نے اچھا اس لیے کہا کہ وہ واقعی اچھے تھے۔ انھوں نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا،کسی کو برا نہیں کہا۔ کسی کے برے میں نہیں تھے اور ایسا کسی مصلحت عافیت بینی یا صلح جوئی کی پالیسی کے تحت نہیں کیا بلکہ انھوں نے سب سے محبت کی جو بے لاگ، بے غرض اور غیر مشروط تھی۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ لوگ ڈنر یا محفل ختم ہو جانے کے بعد بھی اٹھنے کا نام نہیں لیتے۔ انھیں یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ اگر ہم چلے گئے تو عزیز ترین دوست ہماری غیبت شروع کر دیں گے مگر اللہ کے ایسے بھی منتخب بندے ہیں جن کے نام اور کام کا غلغلہ ان کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اور زیادہ بلند ہوتا ہے۔ ضمیر جعفری انہی نیک نام اور نایاب و عجوبۂ  روزگار بندوں میں سے ایک تھے۔


مجھے ان سے قربت، گاڑھی ، دوستی یا گستاخانہ بے تکلفی کا دعویٰ نہیں۔ میری نیاز مندی کی مدت کم و بیش 50 برس بنتی ہے۔


یہ نصف صدی کا قصہ ہے

دو چار برس کی بات نہیں

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول