صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ابنِ صفی
راشد اشرف
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ابن صفی۔ ایک یاد رہ جانے والا واقعہ
دوستو! زندگی میں اگر ابن صفی صاحب کی تحریروں کو پڑھنے کا موقع نہ ملتا تو گویا زندگی روکھی پھیکی سی رہ جاتی۔ بلاشبہ ان کی شخصیت خود ساز، عہد ساز، روایت شکن، روایت ساز کہلائے جانے کی مستحق ہے۔ ان کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ ہر سال ۲۶ جولائی کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اس روز برصغیر پاک و ہند کے سری ادب کی سب سے بڑی شخصیت ہم سے جدا ہو گئی تھی۔ ۵۲ برس کی عمر کوئی جانے کی عمر ہوتی ہے ؟ ابن صفی اگر مزید جیتے تو نامعلوم کتنے اور دلچسپ ناولز کے ڈھیر لگا دیتے لیکن مشیت ایزدی کے آگے بھلا کس کی چلی ہے ؟ اور وہ آج ہی کے دن اپنے ان گنت مداحوں کو اداس چھوڑ کر چلے گئے۔ حال ہی میں راقم الحروف نے جناب ابن صفی کے انتقال کے بعد ان پر اب تک تحریر کردہ اردو و انگریزی مضامین کی فہرست مرتب کرنے کی ٹھانی تو یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ان مضامین کی تعداد کم و بیش ۱۸۰ تک جا پہنچی ہے۔ صفی صاحب کے چاہنے والوں کی عقیدت تو دیکھیے کہ اس کثیر تعداد میں قلم اٹھا کر ان سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں اس موقع پر اردو زبان و ادب کی کسی دوسری ایسی خوش قسمت ہستی کا نام یاد نہیں آتا جن پر اتنی بڑی تعداد میں مضامین تحریر کیے گئے ہوں۔ ۔ ۔ ذرا دیکھئے تو کہ بابائے اردو مولوی عبد الحق ابن صفی کے بارے میں کیا فرما رہے ہیں ’’ اس شخص کا اردو پر بہت بڑا احسان ہے‘‘۔ ۔ ۔ اور حضرت رئیس امروہوی کا یہ بیان (ان کی ایک تحریر سے اخذ کیا گیا) تو گویا اعترافی بیان سمجھا جانا چاہیے۔ رئیس لکھتے ہیں :
’’ جب تک ابن صفی زندہ تھے، ہم سمجھتے تھے کہ ہم ان سے بے نیاز ہیں لیکن اب ہمیں اپنی محرومی اور نیاز مندی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کس بے شرمی۔ ۔ ۔ ۔ اور سنگ دلی سے اپنے ایک با کمال ہم عصر کو نظر انداز کر رکھا تھا۔ یہاں ’ہم‘ سے مراد عام قاری نہیں کہ وہ تو ابن صفی کا عاشق تھا۔ ’ہم‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ناول،افسانے اور داستان سرائی کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔
آج ابن صفی کے انتقال کے تیس برس گزر جانے کے بعد بھی مجال ہے کوئی ان جیسا لکھ سکے۔ ۔ ۔ ۔ ان کے تحریر کردہ عمران سیریز اور جاسوسی دنیا کے ناولز کی تعداد ۲۴۵ ہے۔ بہتوں نے بڑا زور مارا لیکن گرد کو بھی نہ پہنچ سکے۔ صفی صاحب کا ساٹھ برس قبل لکھا کوئی ناول اٹھا کر پڑھ لیں، اسی طرح تر و تازہ معلوم ہو گا کہ جیسے حال ہی میں لکھا گیا ہو۔ احباب نے اس تازگی کی مختلف توجیہات پیش کیں لیکن ہماری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ جرائم کی جانب حضرت انسان کا جھکاؤ ازل سے تھا اور ابد تک رہے گا۔ خیر و شر کے درمیان جنگ بھی اسی طرح جاری و ساری رہے گی، اسی لیے جرم و سزا سے متعلق کہانیاں پڑھنے والوں کی توجہ ہمیشہ اپنی جانب مبذول کراتی رہی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ہاں مگر ابن صفی صاحب نے پڑھنے والے کو اپنی کتابوں کے ذریعے قانون کا جو احترام کرنا سکھایا ہے اور جس انداز میں سکھایا ہے، اس منفرد اسلوب کو اب سے ساٹھ برس بعد بھی وہی پذیرائی ملتی نظر آئے گی کہ جس کے حقدار وہ تھے اور رہیں گے۔ ابن صفی نے تمام عمر پڑھنے والوں کو اپنی تحریروں کے ذریعے قانون کا احترام سکھایا اور گرد و پیش میں وقوع پذیر ہوتے سماجی و سیاسی حالات و واقعات پر نظر رکھنے کی آگاہی سے واقف کیا۔ ۷۰ کی دہائی کے ابتدا میں لکھے گئے اپنے ایک ناول کے پیشرس میں رقم طراز ہیں : ’’ مایوسی کو پاس نہ پھٹکنے دیجئے۔ دنیا کی کئی قومیں اس وقت کڑے آزمائشی دور سے گزر رہی ہیں !ایسے حالات میں صرف ثابت قدمی اور قومی یکجہتی برقرار رکھنے کی کوشش ہی ہمیں سرخ رو کر سکتی ہے!لہذا ہوشیار رہئیے، افواہوں پر کان نہ دھریئے۔ قومی تعمیر نو میں پوری ایمانداری سے حصہ لیجئے اور اللہ سے دعا کرتے رہیے کہ وہ قوم کے معماروں کو فلاح کے راستے دکھاتا رہے۔ ایک بار پھر عرض کروں گا کہ دشمن کے ایجنٹوں کی پیشانیوں پر ان کے آقا کی مہر نہیں ہوتی۔ وہ صرف گفتار اور کردار ہی سے پہچانے جاتے ہیں۔ مایوسی پھیلانے والوں پر کڑی نظر رکھیے۔ ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح ایک اور ناول پھر وہی آواز کے پیشرس میں وہ اپنے پڑھنے والوں کو ان الفاظ میں آگاہ کرتے نظر آتے ہیں : ’’ جب دشمن درپے آزار ہو تو وہ کوئی خانہ خالی نہیں چھوڑتا، قدم قدم پر سازشوں کے جال بچھاتا ہے اور ہم اس میں پھنستے چلے جاتے ہیں کہ ہمیں آپس کے تنازعات سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ ہم ایک دوسے پر اعتماد نہیں کرتے، نیتوں پر شبہ کرنا ہماری فطرت ثانیہ بن چکا ہے۔ جب ذہنی انتشار کا یہ عالم ہو تو کوئی بھی ہماری عقلوں کا شکار کر سکتا ہے۔ ہم دشمن کے ایجنٹوں کو بھی اپنا ہمدرد سمجھ بیٹھے ہیں ‘‘۔ ۔ ۔ ۔
ابن صفی صاحب کی مندرجہ بالا چشم کشا’ نصیحتیں ‘ کیا موجودہ حالات کے تناظر سے مطابقت نہیں رکھتیں ؟۔ ۔ ۔ صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے۔ ۔ ۔ ۔
بات کہا ں سے کہاں نکل گئی۔ ۔ ۔ موضوع تھا جناب ابن صفی۔ ۔ ۔ ۔ یوں تو ہم نے ایشیا کے سری ادب کے بے تاج بادشاہ جناب ابن صفی پرسن ۱۹۹۵ سے تا دم تحریر اردو و انگریزی میں کئی مضامین تحریر کیے ہیں جن میں صفی صاحب کے فن اور ان کی شخصیت پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی ہے لیکن آج یہاں ابن صفی صاحب کے چاہنے والوں کی تواضع کے لیے صفی صاحب کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے جو ہمارے دوستوں کے درمیان ہماری لاج رکھنے کا سبب بنا۔
پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
یہ بات ہے سن ۲۰۰۱ کی جب ہم بسلسلہ ملازمت، ضلع مظفر گڑھ، جنوبی پنجاب میں مقیم تھے۔ اس روز دفتر کی چھٹی تھی اور چند دوستوں کے ہمراہ ملتان کی سڑکوں پر آوارہ گردی کے دوران جاسوسی ادب پر بحث چل نکلی تھی، ہر شخص اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔ کہنے کو تو ہر کسی نے ابن صفی کو پڑھ رکھا تھا لیکن ہماری صفی صاحب سے عقیدت اور ان پر لکھے گئے مضامین کے دعوے کو للکار کر ہمارے عزیز دوست بشیر صاحب (حال مقیم سعودی عرب) تشکیک کا شکار تھے اور دوسروں کو بھی اہنا ہم نوا بنا چکے تھے۔ اکثر بے تکلف دوستوں کے درمیان اپنے کسی ایک ساتھی کو تختہ مشق بنانے کا عمل بڑی مہارت اور مکمل ہم آہنگی کے ساتھ سرانجام پاتا ہے اور اس روز احباب کا نشانہ ہم تھے۔
یہاں اک ذرا بشیر صاحب کا تعارف کراتے چلیں۔ ان کا تعلق کوٹ ادو کے علاقے سے تھا۔ پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے۔ اصولوں پر سمجھوتا نہ کرتے ہوئے دو نوکریاں چھوڑ چکے تھے۔ ۔ دل کے کھرے، کردار کے بے داغ، انتہائی زود رنج، جلد روٹھنے اور اتنی ہی جلدی مان جانے والے۔ سانولی رنگت، سر پر سیہہ کی طرح لہرئے دار اور کھڑے بال، لامبا قد۔ رخساروں پر اوپر کی جانب جہاں عموماً داڑھی کے بالوں کا نام و نشان نہیں ہوتا، بال بے طرح سے اگ آتے تھے اور اکثر ہم بشر صاحب کے ہمراہ نائی کی دکان پر جایا کرتے تھے جہاں نائی ایک ہاتھ میں دھاگہ لیے بے دردی سے فالتو بالوں کی فصل کھرچا کرتا تھا۔ بشیر صاحب اس تمام عمل کے دوران شرمندہ شرمندہ سے نظر آتے۔ سچ پوچھیے تو اس سے پہلے یہ منظر ہم نے بھی کبھی نہ دیکھا تھا اور ہم اس عرصے میں کچھ کچھ عبرت لیے، حیرت و دلچسپی سے نائی کی بے رحمی اور بشیر صاحب کا صبر دیکھا کرتے تھے۔ ایک روز جب نائی ان پر اپنی مہارت آزما رہا تھا تو یکایک وہ منظر دیکھتے ہوئے ہم نے جھک کر آہستہ سے بشیر صاحب کے کان میں کہا : حضور! بس یہ خیال رکھیے گا کہ کہیں انسداد بے رحمی حیوانات والوں کو اس عمل کی بھنک نہ پڑ جائے اور پھر نائی کو بشیر صاحب کو کچھ وقت دینا پڑا کہ ہنسی کا دورہ تھم جائے تو وہ اپنا کام دوبارہ شروع کر سکے۔
قہقہہ لگانے میں بشیر صاحب ید طولی رکھتے تھے۔ ایسا فلک شگاف قہقہہ کہ آسمان تھرا اٹھے اور قہقہے کے بعد پھیلا ہوا ہاتھ کہ آپ جواباً ہاتھ پر ہاتھ نہ ماریں تو اسے سخت بد اخلاقی تصور کرتے تھے۔ اپنی حد درجہ صاف گوئی کی بنا پر لوگوں میں غیر مقبول تھے اور اسی بنا پر صرف ہمارے ہی کمرے میں روزانہ رات کے کھانے کے بعد پھیرا لگانا اس کا معمول بن گیا تھا۔ گرمی ہو یا سردی، ان کے اس معمول میں کبھی فرق نہ آتا۔ ہفتے اور اتوار کو دفتر کی چھٹی ہوتی تھی اور وہ ان دو دنوں کے لیے کوٹ اد و اپنے گھر چلے جایا کرتے تھے۔ سچ پوچھیے تو اُن دنوں ان کا چلے جانا ہم پر گراں گزرتا تھا کہ ہم حیدر آباد سے آٹھ سو کلومیٹر دور وہاں بشیر صاحب کی ہم نشینی کے عادی ہو چلے تھے۔ بشیر صاحب ہمارے جملوں پر اکثر پھڑک پھڑک اٹھتے تھے۔ ۔ ۔ آپ سے کیا پردہ۔ ۔ ۔ ۔ ہم بھی تو اکثر مشتاق یوسفی صاحب ہی کا سہارا لیا کرتے تھے۔
’ بشیر صاحب! یاد رکھیں زبان سے نکلا تیر اور بڑھا ہوا پیٹ کبھی واپس نہیں آتے ‘۔ یہ ہم نے شام کی سیر کے دوران اس موقع پر کہا جب بشیر صاحب حسب عادت کسی بات پر ایک بے لاگ تبصرہ کر بیٹھے تھے اور مبتلا بحث تھے۔ ۔ ۔، بس پھر کیا تھا، وہ چلتے چلتے رک گئے اور قہقہے لگانے لگے۔ ایک روز ہم نے کسی بات پر کہا کہ ’ بیوی سے عشقیہ گفتگو کرنا ایسا ہی ہے جیسے آدمی وہاں خارش کرے جہاں نہ ہو رہی ہو‘۔ ۔ ۔ ۔ وہ بے انتہا محظوظ ہوئے اور پھر ہم نے یہ جملہ ان کو اکثر موقع بے موقع دوہراتے دیکھا۔
ایک روز ہم نے ابن صفی صاحب کا جملہ چلا دیا۔ بات ہو رہی تھی ہمارے کسی عزیز کی اور بشیر صاحب کو وہ پیچیدہ رشتہ سمجھانا مشکل ہو رہا تھا کہ اچانک ہم نے تنگ آ کر کہا ’ یار یوں سمجھ لیں کہ وہ ہمارے دادا زاد بھائی ہیں ‘۔ بشیر صاحب کے حلق سے توپ کے گولے کی مانند قہقہہ نکلا۔
تو یہ تھے ہمارے بشیر صاحب
٭٭٭