صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


زخمِ وفا

صدف مرزا

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

غزلیں

یہ موسموں کی ادائیں غریب لگتی ہیں

مجھے بہار کی شامیں عجیب لگتی ہیں


مرے حبیب ! حبیبوں کے ہاتھ سے جو ملیں

وہ چوٹیں ، دل کے بہت قریب لگتی ہیں


یہ زخمِ دل کبھی افزوں تمہاری یادوں سے

کبھی یہی مجھے اس کا طبیب لگتی ہیں


نئی زبانوں پہ باتیں نئے زمانوں کی

طلوعِ صبح کا روشن نقیب لگتی ہیں


مرا قلم ، مری تحریر ، میری تقریریں

نجانے کیوں اسے اپنا رقیب لگتی ہیں


ہر آن درد کا پیغام بن کے رہتی ہیں

وفائیں مجھ کو اب اپنی صلیب لگتی ہیں


ہمیں یہ ہر گھڑی رُودادِ دل سناتی ہیں

تمہاری آنکھیں تو کامل خطیب لگتی ہیں


جو بھیگ ہی نہ سکیں دل پہ چوٹ کھا کے صدفؔ

وہ آنکھیں مجھ کو بہت بد نصیب لگتی ہیں

٭٭٭


صنم پتھر کے ہو جاتے ہیں آخر سب خدا اک دن

ستم گر سارے پائیں گے کبھی آخر سزا اک دن


کبھی تو رنگ لائے گی مرے دل کی دعا اک دن

کہ بھر جائے گی تاروں سے مری  خالی ردا اک دن


ہتھیلی پر لکھے جاتی ہوں نام اس کا مسلسل میں

وہ آ کر دیکھ ہی لے گا مرا رنگِ حنا اک دن


بہت دن سے مری ہستی کوئی ویراں کھنڈر ہے

کبھی آنکھوں میں آ بس جا، مرے دل میں سما اک دن


یہی تو سوچ کر اس کی سماجت کرتے جاتے ہیں

تری خوشبو چرا لائے گی یہ پگلی ہوا  اک دن


تری یہ برہمی  جاناں ، ہے پیغام اجل مجھ کو

یہی تجھ کو گوارا ہے، تو جا!  ہو جا خفا اک دن


شبِ ہجراں!مری بے خواب آنکھوں پر تُو احساں کر

مرے ماتھے پہ بوسہ دے، مجھے آ کر سلا اک دن

٭٭٭  

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول