صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ضحاک
مترجم: اختر شیرانی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
پہلا منظر
نظارہ
(پرویز ________تنہا)
پرویز۔ (اِدھر اُدھر ٹہلتے ہوئے اپنے آپ ) آہا! کیسا نصیب! کیسی نعمت!کیسی زندگی!!۔۔۔۔۔۔اگر میں اپنی ساری عمر کے دنوں کا، آج کے دن سے موازنہ کروں تو کس قدر فرق نکلے گا؟۔۔۔۔۔۔جب میں یہاں نہیں آیا تھا! کیا حالت تھی۔۔۔۔۔۔؟ گھاس پھُوس کے فرش پر سونا نصیب ہوتا تھا! آج ایسے محلوں میں زندگی بسر کر رہا ہوں! جنہیں میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا! پہننے کو ، پھٹے پُرانے ، اور میلے کچیلے چیتھڑے ملتے تھے! اور جب وہ بارش میں بھیگ جاتے تھے تو میں اُنہی کو سُکھا کر پھر پہن لیتا تھا! آج وہ دن ہے کہ ریشمی لباس میں رہتا ہوں! پہلے جب میں گاؤں میں تھا! ایک لکڑی میرے ہاتھ میں ہوتی تھی اور۔۔۔۔۔۔میں بکریاں چراتا پھرتا تھا! آج یہ جڑاؤ عصا میرے ہاتھ میں ہے! اور میں شاہی مصاحب بن کر اِتراتا ہوں! کیسی نعمت! کیسا نصیب!! مگر جب کبھی مجھے خیال آتا ہے۔ میرا دل کانپ کانپ جاتا ہے ،افسوس کیا وہ زندگی جو ،اُسے دیکھے بغیر بسر ہو، زندگی ہے۔کیا وہ عمر جو اُس کے بغیر گذرے ، عمر کہلائی جا سکتی ہے اگر وہ میرے پاس ہو تو ایک مرتبہ اُس کی صورت دیکھ لینا! ہزار سال کی زندگی سے بہتر ہے!۔۔۔۔۔۔مگر میں نہیں جانتا کیا بات ہے ؟ مجھے ہر وقت ، اُس کا نام کیوں یاد آتا ہے ؟؟ میں اُس کی آواز، آواز سُنتا ہوں! سُنتا ہوں ا! اور سُنتا رہتا ہوں!
مجھے ہر لحظہ اُس کی رس بھری آواز آتی ہے!
جو میرے دل کی گہرائی میں جا کر ڈوب جاتی ہے!
میرا دل دھڑکنے لگتا ہے! میں اپنے آپ کو بالکل بھول جاتا ہوں!۔۔۔۔۔۔ میرے جسم پر کپکپی سی چڑھ جاتی ہے!۔۔۔۔۔۔ محبت کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔! شاید! میں محبت کرتا ہوں!! مگر۔۔۔۔۔۔میں کیوں محبت کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔ ؟ کس غرض سے محبت کرتا ہوں؟۔۔۔۔۔۔میں نے جب اُسے پہلی مرتبہ دیکھا! کچھ زیادہ دن نہیں گُزرے۔۔۔۔۔۔! جب سے اب تک اُس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی ہے! مجھے بھی اُس سے کچھ کہنے کی جُرأت نہیں ہوئی!۔۔۔۔۔۔آخر! یہ محبت اور کشش کا ہے سے پیدا ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔ ؟ اب تو میرا دل اُسے اِنسان کہنے پر راضی نہیں ہوتا! میری نظروں میں وہ فرشتہ معلوم ہوتی ہے! اُسکی موہنی صورت ، آفتاب کی طرح ، آنکھوں میں چکا چوندھ پیدا کر دیتی ہے! جب کبھی میں چاہتا ہوں کہ اُس کی طرف نظر بھر کے دیکھوں! اُس کی حُسن کی کرنیں پردہ بن جاتی ہیں! اور مجھ سے کچھ نہیں دیکھا جاتا! جب وہ زمین پر پاؤں رکھتی ہے تو میں حیران ہو کر کہتا ہوں کہ کیا وہ بھی زمین پر پاؤں رکھ سکتی ہے! زمین کے اس حصہ کی شرافت کس قدر بڑھ گئی ہے۔۔۔۔۔۔؟مجھے رشک آتا ہے!!۔۔۔۔۔۔جن زمینوں پر وہ اُٹھتی بیٹھتی ، اور چلتی پھرتی ہے ، وہ سب میرے نزدیک مقدّس ہیں!۔۔۔۔۔۔یہ عمارت اُس کی بدولت۔۔۔۔۔۔ہاں ، صرف اُس کی بدولت ، میری نظروں میں بہشت سے بھی بڑھ کر ہے!! اب میرے لیے یہاں سے چلا جانا۔۔۔۔۔۔ آہ! اِس جگہ سے جُدا ہو جانا، موت سے بدتر ہے!۔۔۔۔۔۔اگر میں یہاں سے چلا گیا۔۔۔۔۔۔ تو میرے اللہ! میں کیونکر زندہ رہ سکوں گا؟؟ (پاؤں کی آہٹ سُنائی دیتی ہے ) کوئی آ رہا ہے!۔۔۔۔۔۔کون ہے۔۔۔۔۔۔ ؟!
(مہرو بائیں طرف کے دریچہ سے داخل ہوتی ہے )
چوتھا نظارہ
(پرویز_____مہرو)
مہرو۔ (کچھ دیر خاموشی سے پرویز کے چہرہ کی طرف دیکھنے کے بعد ایک طرف آ کر اپنے آپ ) آہ! اگر آج میرا لڑکا!زندہ ہوتا تو وہ بھی ایسا ہی ہوتا!اُس وقت کو، ١٦ سال ہونے آئے!جب وہ دو ٢ سال کا تھا! آج کوئی اٹھارہ سال کا ہوتا!۔۔۔۔۔۔ (پرویز سے ) کیوں بیٹا! تمہاری کیا عمر ہو گی بھلا۔۔۔۔۔۔!؟
پرویز۔ اٹھارہ سال!
مہرو۔ (اپنے آپ) آہ! بالکل میرے لڑکے کی عمر!! میں نصیبوں جلی آج کو ایک ایسے ہی لڑکے کی ماں ہوتی!۔۔۔۔۔۔ آہ میں اپنے باپ سے محروم ہو گئی! اپنے شوہر سے محروم ہو گئی! اپنے نصیبوں سے محروم ہو گئی! میں اپنے باپ اور شوہر کے قاتلوں کے ہاتھوں میں گرفتار ہو گئی! اللہ! کیسی کیسی مصیبتیں جھیلیں! کیا کیا تکلیفیں سہیں! مگر سب کو بھُلا چکی! مجھے کسی بات کا رنج نہیں! فقط اپنی اولاد کا صدمہ ہے! ہائے! میرا ہیرے موتی، سا لڑکا! کون جانے اُس پر کیا بیتی ؟ خدا نا کردہ ، کہیں دُشمنوں نے اُسے قتل تو نہیں کر دیا۔۔۔۔۔۔ نہیں! آہ نہیں!۔۔۔۔۔۔ مگر شاید وہ بیچ میں رہ گیا تھا! کہیں اُس ہنگامہ میں، گھوڑوں کے پیروں تلے نہ آ گیا ہو؟ کسی نے اُسے گرفتار نہ کر لیا ہو؟ آہ! کیا وہ وحشی عربوں اور شوریوں کے پنجہ میں تو نہیں پھنس گیا! اُف! ضحاک کے بے رحم!ظالم آدمیوں کے ہاتھوں میں!۔۔۔۔۔۔الہٰی! کسی نے پہچان لیا تو کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔؟ آہ!میری آنکھوں کے سامنے اُس کا سر قلم۔۔۔۔۔۔! میں نہیں جانتی وہ زندہ ہے یا قتل ہو چکا۔۔۔۔۔۔؟ میری ظاہری آنکھیں اُسے نہیں دیکھ سکتیں! کاش کہ میں اُس کو ایک دفعہ دیکھ لوں! پھر جو ہونا ہو، ہو جائے!۔۔۔۔۔۔ ہاں! ہو جائے!۔۔۔۔۔۔ ایک دفعہ دیکھنے کے بعد، چاہے میری آنکھوں کے آگے ہی اُس کا سر قلم کر لیں! میں راضی ہوں!۔۔۔۔۔۔ آہ میرا لڑکا! میرا پیارا لڑکا!!
(آنکھوں پر رومال رکھ کر رونے لگتی ہے )
پرویز۔ (دور سے مہرو کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے اپنے آپ ) کیسی عجیب بات ہے! یہ عورت ہمیشہ اِسی طرح رنجیدہ اور غمگین رہتی ہے! (غور سے دیکھ کر ) رو رہی ہے! آہ! وہ تو رو رہی ہے! عجیب بات ہے! میں تو اِس جگہ ہر شخص کو خوش و خُرّم خیال کرتا تھا! اَب معلوم ہوا کہ دُنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں رنج وغم نہ بستے ہوں!
(دائیں طرف سے دریچہ سے فرہاد داخل ہوتا ہے )
***