صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
زار
راحیلؔ فاروق
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
غزلیں
ایک نادیدہ اداسی سی کہیں ہے جیسے
حسن عالم میں کہیں اور نہیں ہے جیسے
تیری یادوں میں ہوا پھر وہی آفت کا گمان
کوئی اقلیمِ غزل زیرِ نگیں ہے جیسے
لوگ بھی جیسے کسی حشر کے عالم میں ہیں
منصفِ وقت بھی کچھ چیں بجبیں ہے جیسے
ایک مَکّہ ہے تصور کا، جہاں ہر تعمیر
یوں دمکتی ہے کہ فردوسِ زمیں ہے جیسے
اپنی تدبیر کی چوکھٹ پہ کھڑا ہوں خاموش
ثبت ہر اینٹ پہ افلاسِ مکیں ہے جیسے
اجنبی شہر میں اسباب گنوا کر راحیلؔ
لوٹ آیا ہے، مگر اب بھی وہیں ہے جیسے
٭٭٭
گم ہے محفل، فسانہ بھی گم ہے
میں بھی چپ ہوں، زمانہ بھی گم ہے
عشرتِ خلد سے گئے، سو گئے
اب وہ گندم کا دانہ بھی گم ہے
آج طوفان کی شنید بھی تھی
اور وہ زانو، وہ شانہ بھی گم ہے
متغزل کے ہوش ہی نہیں گم
لغتِ شاعرانہ بھی گم ہے
باد و باراں کا زور ہے راحیلؔ
ہے خبر، آشیانہ بھی گم ہے
٭٭٭