صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


یمبرزل

ترنّم ریاض


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                 ٹیکسٹ فائل

بُلبُل

ڈینم کی بھاری سوتی جین کوکھنگال کر نچوڑنے کے بعد جب میں اسے ہینگر پر پھیلانے کے لیے سیدھی کھڑی ہونے لگی تو سارے بدن سے ٹیس سی اٹھی۔ پوری طرح ایستادہ ہونے میں مجھے دس بارہ سیکنڈ تو ضرور لگے۔ اور جب میں نے جین کو زور سے جھٹک کر جھاڑا تو میرے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی کاوہ لمبا سا ناخن جو جین کی موری کو رگڑتے ہوئے آدھا ٹوٹ گیاتھا، انگلی کے پورکی تھوڑی سی جِلد چھیلتاہوا پورا الگ ہوگیا۔ خون کے قطرے گرنے لگے اور میں درد سے بلبلا اٹھی۔ مگر اس خیال سے کہ کہیں جین پر خون کا دھبّہ نہ لگ جائے میں نے ایک ہاتھ سے بمشکل تمام اسے ہینگر پرڈال دیا۔ انگلی پر ٹِشو پیپرلپیٹ کر، میں کھڑکی کی طرف لپکی اورکھڑکی کے دونوں پٹ کھول دیے۔ اندھیروں سے نکل کر آتاہوا، ہواکاایک اداس جھونکا۔ ۔ ۔ میرے چہرے سے ٹکرایا۔ جانے اتنی جلدی اندھیرا کیسے ہوگیا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو میں نے کچھ دیر بعد ڈوبنے والے سورج کی ہلکی سی جھلک دیکھی تھی۔ بس اتنی سی دیر میں؟۔ ۔ ۔ ایک ہی تو پینٹ دھوئی تھی میں نے۔ ۔ ۔ میری انگلی کا درد میرے دل میں اتر آیا۔ ایک تھکی ہوئی نظر میں نے آسمان کی طرف اٹھائی۔ اتنے وسیع آسمان پر زہرا اکیلا چمک رہاتھا۔ زہرا کا عکس میری آنکھوں میں دھندلا ساگیا۔ ۔ ۔ اس ذرا سی بات پر۔ ۔ ۔ یہ آنسو بھی۔ ۔ ۔

کچھ دن پہلے جب انھوں نے بتایاکہ ان کے دفتری کام کے سلسلے میں ہم لوگ تین دن کے لیے شملہ جارہے ہیں تو مسرّت کی ایک لہر میر ے پورے وجود میں دوڑ گئی تھی۔ دراصل میری اپنی چھٹی کے بھی یہ ہی تین دن تھے۔ ان دنو ں منّو کی بھی چھٹیاں چل رہی تھیں۔ معلوم نہیں میرا وقت کہاں چلا جاتاہے۔ لوگ بور کیسے ہوتے ہوں گے۔ مجھے تو بور ہونے کا وقت کبھی میسر نہیں آیا۔ ویسے کچھ کرنا تو ہوتا نہیں مجھے ایسا۔مگر پھر بھی کبھی کبھی میں ایک ایک لمحے کو اپنے پاس بلاکر رہ جاتی ہوں۔ اسے دل کی گہرائیوں سے یاد کرتی ہوں۔ پچکارتی ہوں۔ تصورات کی باہیں پسارے اس سے وعدہ کرتی ہوں کہ اسے اتنے خوبصورت انداز سے گزاروں گی کہ شاید ہی اسے کسی نے اتنا حسن بخشاہو۔اس کی منّت اور خوشامد کرتی ہوں۔ بڑی مشکل سے اتنی ساری عاجزی کے بعد جب وہ ایک لمحہ میرے پاس آنے کو تیار ہوتاہے تو۔ ۔ ۔ اسی وقت کُکر کی سیٹی، ٹیلیفون کی آواز، دروازے کی گھنٹی،بچّوں کی پکار، گوالے کی ڈولچی کی کھڑکھڑاہٹ یا پھر کسی کام کا احساسِ ذمہ داری مجھے آلیتاہے۔ میرا اتنے جتن سے بلایاہوا لمحہ مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی کہیں دور ساکت ہو جاتا ہے۔ میں خالی دامن اور خالی باہیں لیے کوئی فرض پورا کرنے کے لیے آگے بڑھ جاتی ہوں۔ اور پھر مجھے دن بھر کرنا ہی کیا ہوتاہے۔ وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ جزوقتی ملازمہ کپڑے دھوتی ہے، صفائی کرتی ہے۔ اب ایسا کون سا کام رہ جاتاہے۔ ذرا سا بچّوں کو ہی تو دیکھنا ہوتاہے۔ ان کی بکھری ہوئی چیزیں اپنی جگہ پر رکھنا۔ وہ اودھم بھی تو بہت مچاتے ہیں۔ یا پھر کھانا بنانا، سودا سُلف لے آنا یا دیگر خریداری وغیرہ کرنا۔ چھوٹے موٹے گھریلو کاموں کے لیے بجلی والا یا نل ول ٹھیک کرنے والا بلانا۔ مجھے کہیں جانا تو ہوتا نہیں۔ آرام سے گھر میں کام کرتی، اپنے سامنے سب ٹھیک ٹھاک کرواتی رہوں گی تو میرا وقت گزرتا جائے گا۔ مستعد رہوں گی تو تندرست رہوں گی۔ وہ نوکر کے سخت خلاف ہیں۔ کہتے ہیں بڑے شہروں میں چھوٹا نوکر رکھنابھی خطرہ مول لینے کے برابر ہے۔ وہ بہت عقلمند ہیں انھیں ہربات کا تجربہ ہے۔ اب بھلا میں گھریلو عورت یہ سب کیا جانوں۔ مجھے کرناہی کیا ہوتا ہے ایسا۔ جھاڑ پونچھ لیا۔ کپڑے سنبھال لیے۔ مُنی کادودھ، Napiesوغیرہ۔ مُنے کی کتابیں کھلونے وغیرہ دیکھ لیے۔ اس کا ہوم ورک کرالیا۔ بس اور کیا۔ پتہ نہیں چیزیں باربارکیوں بکھر جاتی ہیں اور انھیں ٹھیک کرنے میں اتنا وقت کیوں لگتاہے۔اور پھر یہ وقت کیسے اتنی جلدی گزر جاتا۔

وہ بہت مصروف رہتے ہیں۔

اور میں سارا دن گھر میں ہی گزارتی ہوں۔ پھر بھی یہ تین دن جو اس گرمی سے دور ایک خوبصورت مقام پر گزریں گے، میرے اپنے ہوں گے۔ اور بچّے نئی جگہ میں محو رہیں گے۔ نہ باورچی خانہ، نہ خریداری۔ صرف خوبصورت پہاڑ، رنگ برنگے پرندے او رمیٹھی میٹھی ان کی بولیاں، بڑے بڑے دانتوں والے بندر اور کالے منھ اور لمبی دم والے لنگور۔ ہری ہر ی گھاس اور خوش رنگ پھولوں پر منڈلاتی نیلی پیلی تتلیاں۔ چاندنی رات اور ناآلودہ آسمان کے بے شمار تارے۔ طلوع اور غروبِ آفتاب کا شفق گوں فلک۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اور بھیگی بھیگی رُتیں۔ پل پل آنکھ مچولی کرتی ہوئی دھوپ کی کرنیں۔ اورنہ جانیں کیاکیا۔ یہ سب میں اپنی مرضی سے دیکھوں گی،محسوس کروں گی۔ یہ بہتّرگھنٹے میرے اپنے ہوں گے۔اوہ۔ ۔ ۔ کتنا سکون ملتاہے اس تصوّر سے ہی مجھے۔ اسے محسوس کروں گی تو کیسا لگے گا۔میرے من میں گدگدی سی ہونے لگتی ہے۔ زندگی سہل سہل سی معلوم ہونے لگتی ہے۔

میں ہفتہ بھر پہلے ہی سفر کی تیاریوں میں لگ گئی۔ اس جھلستی گرمی سے تین دن دور۔ بہت ہوتے ہیں تین دن۔ یہ تین دن مجھے پوری طرح سے Recreate کریں گے۔

سفر پرجانے کی شام میں نے سب کی پیکنگ کی۔ را ت کے دو بج گئے یہ سب کرنے میں۔ صبح ہمیں ہمالین کوئین پکڑنی تھی چھ بجے سے پہلے۔ اس کے لیے ہمیں گھر سے ۵بجے چلنا ہوگا۔ اور پھر مجھے چار بجے اٹھنا ہوگا۔ یہ بستر میں چائے پینے کے عادی ہیں۔ ان سب کے تیار ہونے سے جو چیزیں بکھریں گی انھیں سمیٹنا ہوگا۔مسہریاں بھی ٹھیک کرنا ہوں گی۔ ملازمہ تو اس وقت ہوگی نہیں۔ سب صفائی وغیرہ کرکے ہی نکلنا ہوگا۔

باہر سے لوٹ کر انھیں گنداگھر اچھا نہیں لگتا۔

پھر دروازوں کھڑکیوں کی کنڈیاں چٹخنیاں اچھے سے دیکھنا بھالنا،تالے چابیاں نل بجلیاں وغیرہ دیکھنا۔ سب کچھ مقّفل کرنا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سب کام میں ہی بہترطریقے سے کرسکتی ہوں اور مجھے ہی کرنا ہے کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔


دوسری صبح کچھ سوتے کچھ جاگتے ہم روانہ ہوئے اور دوپہر کو کالکا پہنچ گئے۔ وہاں سے شملہ کے لیے ٹیکسی لی۔منّو کو ان گھومتے بل کھاتے راستوں میں ابکائی ہوجاتی ہے۔ وہ سارا راستہ الٹیاں کرتا رہا۔میں اس کا سر تھامے رکھتی، منھ پونچھتی، گریبان صاف کرتی رہی۔

وہ اگلی سیٹ پر شاید سورہے تھے۔ ۔ ۔ پہاڑی راستے اتنے دل موہنے والے تھے کہ سب تکان بھول کر میں ان اونچے اونچے پیڑوں کو ڈھلوانوں، گھاٹیوں کو دیکھنے لگی۔ کوئی ساڑھے تین گھنٹے کاسفر تھا۔ بوندیں پڑنے لگی تھیں۔ جہاں جہاں گاڑی بڑھتی ذرا سا راستہ چھوڑ کر وہیں پر بارش پڑنے لگتی۔ بادل ہمارے ہی رُخ پر تیر رہے تھے۔ ہمارے ساتھ ساتھ چل کر مینہٖ برساتے جاتے۔ دونوں بچےّ میرے دوکاندھوں پر سرٹکائے سورہے تھے۔ شاید اس ترنم کو لوری سمجھ کر جو بارش کے قطروں کے کھڑکیوں کے شیشوں سے ٹکرانے سے پیداہورہاتھا۔ انھیں میٹھی نیند آگئی تھی۔ یہ منظر اس قدر دل کش تھاکہ میری بوجھل پلکیں بھی بند نہ ہوپارہی تھیں۔ زوروں سے برستاہواپانی سامنے کے شیشے پر چھاجاتا اور گاڑی میں لگاوائپر اسے پلک جھپکتے میں پونچھ لیتااور اتنے ہی عرصے میں اس کی جگہ اور پانی لے لیتااور پھر اسی طرح پونچھا جاتا۔ دونوں طرف کے شیشوں پربھی بوندیں ٹکراٹکرا کر پھسل رہی تھیں۔ بارش سیدھی، آڑھی، ترچھی جانے کیسے کیسے بہہ رہی تھی۔ ایک طرف پہاڑیاں ایک طرف جنگل اور اگر جنگل کی طرف دیکھیں تو بارش آسمان سے لے کر زمین تک برستی ہوئی پانی کی ہزاروں نہایت طویل دھاروں کی شکل میں رواں نظر آرہی تھی۔ ایسا معلوم ہورہاتھا جیسے ہم خود اوپر سے نیچے پانی کے بے شمار دھاریں برسارہے ہوں۔

گاڑی کے اندر ہلکی ہلکی گرمی تھی۔ باہر ہوائیں، سردی اور بارش اور تنہا بل کھاتی سرمئی طویل سڑک۔ ۔ ۔ مجھے نیند آرہی تھی۔ ۔ ۔ منظر کو نہارنا اچھا لگتاتھا مگر تکان کے باوجود میں نے خود کو سونے سے روکے رکھاتاکہ موڑوں پر مڑتے وقت بچّوں کو کہیں چوٹ ہی نہ لگ جائے۔


یہ جگہ شملہ سے آگے تھی۔ بیچوں بیچ جنگل کے۔ویسے یہاں سب کچھ جنگل کے درمیان ہی تھا۔ مگر یہاں قدرتی حسن اپنے شباب پرتھا۔ چھوٹی سی پہاڑی کے اوپر یہ خوبصورت ساہوٹیل۔ پہاڑی کے شروع میں مختصر سابازار۔ ۔ ۔ سب خوبصورت تھا۔

ٹیکسی سے اترتے ہی تازہ ہوا کے معطر جھونکوں نے ہمارا استقبال کیا۔اس خوشبو میں جنگلی درختوں کی سوندھی سوندھی مہک بھی شامل تھی اور مختلف قسم کے پھولوں کی خوشبوئیں بھی، جو باغیچے میں چاروں طرف اور درمیان میں نہایت سلیقے سے اگائے گئے تھے۔ اس میں ایستادہ بڑے سے اخروٹ کے پیڑ پر ایک پہاڑی مینااپنی پیلی چونچ واکیے چہک رہی تھی۔نکھرے نیلے آسمان پر بادل کے دودھ ایسے سفید ٹکڑے اِدھراُدھر ٹنگے ہوئے تھے۔ سرمئی پنکھوں اور پیلے پیٹ والی ایک منّی سی چڑیا یہاں سے وہاں اڑ رہی تھی۔آسمان پر قوس و قزح ابھر آیاتھا۔ بچوّں نے پہلی بار دھنک کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔ آس پاس حدِ نظرتک دھلا دھلایا سا منظر۔نکھرے نہائے سے پیڑ، سجے سجائے شرمائے شرمائے سے پھول۔ ہری ہری گھاس پر اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی رنگ برنگی تِتلیاں۔ نیلانیلا آسمان دیکھ کر گنگناتی ہوئی پہاڑی مینا۔ ۔ ۔ یہ منظر جانے کہاں لے گیا۔

کمرے میں پہنچ کر میں نے سب کے کپڑے Unpackکرکے الماری میں لٹکا دیے۔ بچّوں کو ہاتھ منھ دھلانے غسل خانے میں لے جانے لگی تو دیکھا کہ بادل اندر گھسے آرہے تھے، کھڑکی کے راستے۔ اس سے پہلے کہ میں اس ہوش ربا منظرمیں محو ہوجاتی، میں نے بادلوں سے درخواست کی کہ کچھ اور دیر ایسے ہی ٹھہر جائیں۔ میں بچّوں سے فارغ ہولوں کہ میں یہ سحرِ آگیں منظر پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔

وہ بالکنی میں کھڑے سگریٹ پھونک رہے تھے۔


کھانا کھاتے شام ہوگئی۔ شام سے مجھے عشق رہاہے۔ چوبیس گھنٹوں میں شام ہی ہے جو مجھے اپنی سی لگتی ہے۔ پھر پہاڑوں کی شام کی بات تو کچھ اور ہی ہے۔ میں بالکنی میں بیٹھ کر بادلوں کو اپنے چہرے پر اپنے ہاتھوں پر محسوس کرنا چاہ رہی تھی کہ میں تین دن کے لیے بادلوں کے پاس اتنی اونچائی پر چلی آئی تھی۔ وہاں بیٹھ کر ذرا سا وہ میگزین دیکھنا چاہ رہی تھی جو میں نے اسٹیشن پر خریدا تھا۔ ۔ ۔ مگر

مگر ان کی سگریٹ ختم ہوگئی تھی اور ہوٹل میں وہ برانڈ نہیں تھا۔ انھوں نے مجھے ہی بھیجنا مناسب سمجھا۔ کہنے لگے کہ بچوّں کو بھی ساتھ لے جاؤں بازار۔ راستہ بھی دیکھ لوں گی اور سیر بھی ہوجائے گی۔ وہ جب تک بالکونی میں بیٹھ کر میگزین دیکھیں گے۔ انھوں نے آہستہ سے میرے ہاتھ سے رسالہ لیتے ہوئے سمجھایاتھا۔

بازاردور سے نظر آرہاتھا۔ ہمارے چلتے وقت آسمان پھر ابر آلود تھا۔مگر بوندیں اتنی باریک باریک برس رہی تھیں جیسے چھلنی میں سے چھن کر گر رہی ہوں۔ ہم ڈھلان طے کرکے چوڑی سڑک پر پہنچے ہی تھے کہ بارش اچانک تیز ہوگئی۔ اور ہم سب ایک دکان کے چھجے تک پہنچتے پہنچتے بری طرح بھیگ گئے۔ کچھ دیر بعد جب بارش ذرا کم ہوئی تو جلدی سے سگریٹ اور کچھ بسکٹ وغیرہ لے کر میں گڑیا کو گود میں لیے منّو کی انگلی تھامے اوپر چڑھائی چڑھنے لگی۔سرد ہوا بدن کو چھوتی ہوئی لبا س کے آرپار ہوکر گزر رہی تھی۔ مگر میں پسینہ پسینہ ہورہی تھی۔ سانس بے ترتیب چل رہاتھا۔ منّو بھی بار بار رک رہا تھا۔ اگر وہ ذرا سا ڈھلان تک آجاتے تو گڑیا کو سنبھال لیتے یامنّو کو ہی سہارا دے کر اوپر لے جاتے۔

ہانپتے کانپتے جب ہم اوپر پہنچے تو وہ مسہری پر نیم دراز گرم گرم چائے پی رہے تھے۔ ٹی ویآن تھا۔ کوئی پرانی فلم آرہی تھی۔ فلم کی ہیروئن ایک ننھے سے بچےّ کو پیٹھ پر باندھے، کدال سے پتھر ایسی سخت زمین کھود رہی تھی۔وہ نہایت پرسکون تھے۔ انھوں نے ہم لوگوں کی طرف دیکھے بغیر سگریٹ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔

میں نے جلدی سے بچّوں کے بال پونچھ کر ان کے کپڑے تبدیل کیے اور پھر اپنے۔ گڑیا کی کپکپاہٹ بڑھتی جارہی تھی۔ میں نے اسے کمبل اوڑھاکر ان کے برابر لٹادیا۔ کچھ دیر بعد وہ بولے کہ گڑیا کو بخار آرہاہے۔ چھوا تو وہ تپ رہی تھی۔ میں نے اسے اور منوّ دونوں کو کروسین سِرپ کاایک ایک چمچ پلادیا۔ اس کے نازک سے ننھے وجود کو سردی ہوگئی تھی۔ اس دن پوری رات وہ بے چین رہی۔ میں بیچ بیچ میں دوائی بھی پلاتی رہی۔ ٹھنڈے پانی کی پٹیاں بھی کرتی رہی۔ صبح کے وقت جب اس کابخا رکم ہوا تو وہ سوگئی۔

یہاں تو یوں بھی مجھے کوئی کام نہیں۔نیند آئے گی تو دن میں بھی سوسکتی ہوں۔ مگر میں سوکر اس حسین منظر کی توہین نہیں کرناچاہتی اورنہ ہی آنے والے دن کو نیند کے حوالے کرکے ضائع کروں گی۔ میں اسے محسوس کرناچاہتی ہوں۔ میں ہرگز نہ سوؤں گی۔

سحر ہونے کو تھی مگر ابھی باہر گھُپ اندھیرا تھا۔ قریب ہی کسی پیڑ پر کوئی پرندہ گارہاتھا۔ اتنی صبح۔یعنی صبح سے بھی پہلے۔ یہ کون سا پرندہ گاسکتاہے۔ اتنا میٹھا نغمہ۔ ایک مسلسل گیت۔ سُر اور َلے سے بھرپور۔ میں اٹھ کر کھڑکی تک آگئی۔ میں نے اندھیرے میں غور سے دیکھا۔ سیاہی مائل نیلے پروں اور پیلی چونچ والی پہاڑی مینا گھاس پر ادھر ادھر کبھی چل کر کبھی پھدک کر چہل قدمی کررہی تھی اور کبھی رک کر سر اوپر اٹھائے اس سُریلے نغمے کا الاپ کر رہی تھی جو اس گہرے سکوت کو توڑ کر روح کی گہرائیوں میں گھلا جا رہا تھا۔ یہ منظر اتنا ہوش ربا تھاکہ میرے پاؤں کھڑکی کے پاس جیسے کہ منجمد ہوگئے۔ صبحِ کاذب کے نئے نئے متوقع اسرار سے محظوظ ہونے کے لیے میں وہیں کھڑی رہی۔ ذرا سی دیرمیں پوپھٹا چاہتی تھی۔ مینا اصل میں اتنی صبح باغیچے میں ایک ضروری کام کے سلسلے میں اتری تھی ورنہ وہ ڈال پر بھی تو گاسکتی تھی۔ وہ ان ننھی منی بیربہوٹیوں کے لیے پیغام اجل لیکر نمودار ہوئی تھی جو گھاس کے ایک مُنے سے تنکے کی اوٹ میں کچھ گھنٹوں کی زندگی گزاراکرتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے وہ شوق سے کھایا کرتی ہے۔ پہروں گھاس پر ادھر اُدھر گھوم کر انھیں تلاش کرتی تھک جاتی تو اڑان بھر کر پاس کے پیڑ پر بیٹھ کر نغمہ چھیڑدیتی۔ جیسے کوئی مختلف سروں میں سیٹیاں بجارہا ہو اور ساتھ ہی چہک بھی رہا ہو۔ کچھ سیٹیاں ایک چہک، پھر سیٹیاں پھر چہک۔ ۔ ۔

روشنی پھیلنے لگی تھی۔ پرندے جاگ گئے تھے۔ کسی شاخ پر بھورے سرمئی پروں اور پھرتیلے جسم والی کستوری لہک لہک کر گارہی تھی۔ پی ۔پی۔پی پیوپیو۔ کئی طرح کی مختلف بولیاں بول رہے تھے پرندے۔ کئی طرح کی بلبلیں گارہی تھیں۔

کچھ ہی دیر میں دھندنے سارے منظرکو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔دراصل یہ دھندنہیں تھی، یہ بادل تھے جو ہمیں میدانی علاقوں میں بہت اوپر پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں ورنہ اگر یہ صرف دھند ہوتی تو صرف دھند ہی ہوتی۔ساتھ میں بارش بھی ہونے لگی تھی۔ پرندے خاموش سے ہوگئے تھے۔مگر وہ پہاڑی مینا اب بھی گھاس پر بھیگ بھیگ کر گھوم گھوم کر نغمے گارہی تھی۔ نہ وہ بھیگنے سے گھبراتی نہ سردی سے۔ جی چاہ رہا تھا کہ نیچے باغیچے میں اترکرمیں بھی ذرا ساٹہل کر تھوڑا سابھیگوں اور اس دھلی دھلائی نکھری نہائی صبح کو اپنی روح میں اتارلوں مگر مسلسل کئی گھنٹوں کی تکان اور شب بیداری نے میرے پاؤں مَن مَن بھرکے کردیے۔آنکھیں خود بخود بند ہونے لگیں، میں واپس مسہری پر آگئی۔

چھت کے اوپر زوروں کی کھڑکھڑاہٹ سے میری آنکھ کھل گئی۔ کھڑکی سے جھانکا تو دھوپ چمک رہی تھی اور ٹین کی چھت پر اچھلتے کودتے بندروں کا سایہ باغیچے کی گھاس پر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ کمرے میں نہیں تھے۔ شاید منو بھی ان کے ساتھ گیاتھا۔

گڑیا چپ چاپ سورہی تھی۔ ننھی سی جان کو بخارنے کمھلاکر رکھ دیاتھا۔ اس کاپھول سا چہرہ مرجھا گیاتھا۔وہ پیلی پڑگئی تھی، ہونٹ سوکھے ہوئے تھے۔ اگر ٹھیک ہوتی تو اپنے قد کے برابر ہر چیز کا وہ بھرپور جائزہ لے چکی ہوتی کہ ابھی ابھی کھڑا ہونا سیکھا تھااس نے۔ ایش ٹرے جو اس کے قد کے برابر اونچی میز پر سلیقے سے ایک طرف کو سج رہی تھی، فرش پر اوندھی پڑی ہوتی اور سگریٹ کے بچے ہوئے ٹکڑے کچھ زمین پر ہوتے کچھ اس کے منھ میں۔ جگ الٹا ہوا ہوتا اور گلاس گِراہوا۔ دو منٹ میں اس کے سارے کپڑے بھیگے ہوئے ہوتے اور مجھے دیکھ کر ہنس ہنس کر کبھی مسہری کے نیچے گھُسنے کی کوشش کرتی کبھی میز کے نیچے۔ اور میں وہاں سے اس کے گول مٹول مکھن ایسے پیروں کو کھینچ کر اسے باہر نکالتی۔ ا س کا دہانہ صاف کرتی، منھ سے سگریٹ کے بچے ہوئے ٹکڑے نکال کر اسے خوب خوب پیار کرتی۔ ۔ ۔

مگر اس بخار نے اسے نڈھال کردیاتھا۔

میں نے پانی پلانے کے خیال سے اس کے چہرے کو چھوا۔وہ اب بھی ہلکا سا گرم تھا۔ میں نے ماتھے پر ہاتھ پھیرا۔ پسینے کی وجہ سے نرم نرم بال ماتھے سے چپک گئے تھے۔ اس نے نحیف سی آواز میں مجھے پکارا۔ میں نے دوتین چمچ پانی پلایا۔ اس نے مشکل سے پیا۔ ا س وقت بھی اسے بھوک نہیں تھی۔ کل رات بھی اس نے کچھ نہ کھایاتھا۔ اور اب وہ بہت نحیف لگ رہی تھی۔ اس وقت وہ کچھ دیر کے لیے آجاتے تو میں بازار جاکر کچھ دلیا وغیرہ لے آتی۔ دوا سے کچھ دیر کے لیے جب اس کابخار اترتا تو میں اسے دلیا کھلادیتی۔دوپہر ہوگئی، وہ نہیں لوٹے۔ نیچے وہ کہہ گئے تھے کہ میرا کھانا کمرے میں بھجوادیاجائے۔

سارا دن بخار میں تپتی ہوئی گڑیا کو سینے سے لپٹائے میں خود بھی تڑپتی رہی۔ وہ بھوکی تھی تو مجھ سے کہاں کھایاجاتا کچھ۔ میں نے ویٹر سے دودھ اوپر کمرے میں منگوایا تھا، اس نے نظر اٹھاکر دیکھا تک نہیں۔

صبح موسم خوشگوار تھاپھر معلوم نہیں کب بادل چھائے مطلع ابرآلود ہوگیا۔ ہواکے جھونکے نے کھڑکی کاپٹ کھٹ سے کھول دیاتو میں نے گردن موڑ کر دیکھنا چاہا مگر اس وقت گڑیا نیند یاغنودگی یا بخار میں مجھے پکار کر چیخی۔ میں نے ہلاکر جگادیا۔ پانی کے دو چمچ پلائے، کچھ بات کرنا چاہی۔ وہ نیم واسی آنکھوں سے میری طرف دیکھتی رہی۔ میں مسکرائی تو وہ بھی دھیرے سے مسکرائی۔ میں اس کا مکھڑا دیکھ رہی تھی۔ حرارت کچھ کم تھی۔ میرا دل پر سکون ہونے لگا۔ اب شاید وہ دودھ پی لے گی۔ کچھ تازہ سی خوشبوئیں محسوس ہوئیں تو میں نے نظر اٹھاکر دیکھاکہ ہوائیں کمرے کے اندر چلی آرہی تھیں۔ میں نے پہلی بار ہواؤں کو دیکھاتھا۔ پہلی بار ہوا کی خوشبو سونگھی تھی۔ مجھے اپنی قوتِ شامہ اور باصرہ پر یقین نہیں ہورہاتھا۔ کیا ہواکو دیکھا جاسکتاہے؟ ہاں ہواکو دیکھا جاسکتاہے۔ جب وہ بادلوں کے بے شمار خوردبینی ذرّات پر سوار ہوکر آئے۔ اور ہواکو سونگھا بھی جاسکتاہے۔ ۔ ۔ جب وہ جنگل کے عظیم درختوں کے نوکیلے پتوں کی سوندھی سوندھی مہک اور رنگ برنگے پھولوں اور ہری ہری گھاس کی نمی اور خوشبو اپنے ساتھ لے کر چپکے سے کھڑکی سے داخل ہو۔

کچھ دیر میں اس ّجنت میں گم ہوگئی جو بغیر بتائے کمرے میں آکر مجھے سرشار کرگئی۔

میں نے دوتکیوں کی مدد سے گڑیاکو بٹھاکر چاروں طرف سے کمبل اوڑھادیا۔ باہر زوروں کی بارش ہورہی تھی۔ ایک پہاڑی مینا اڑتی آئی اور کھڑکی پر بیٹھ کر گانے لگی۔ اسے توبہانہ چاہیے گانے کا۔بادل چھائیں تو گائے گی۔ بادل نہ چھائیں تو گائے گی۔ بارش برسے تو گائے گی بارش تھم جائے تو گائے گی۔ سورج چڑھے تو گائے گی اور ڈوبے تو بھی۔بلکہ سورج چڑھنے سے گھنٹوں پہلے منھ اندھیرے گانے لگے گی اور اسی طرح سورج غروب ہونے کے گھنٹوں بعد تک جب تک گھپ اندھیرا نہ ہوجائے اور کچھ بھی نظر نہ آسکے، اُس وقت تک گاتی جائے گی۔ ایسابھی دیکھا ہے کہ بجلی کڑکتی ہے اور یہ چہکتی ہے اور بادلوں کی زوردار کھردری دہاڑ میں بھی اس کا نہایت سریلا نغمہ کانوں میں رس گھولتا، گرج کو چیرتا ہوا سنائی دیتاہے۔ میں نے ایسا خوش مزاج پرندہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔گاتی ہوئی پہاڑی مینا کا نغمہ یا ا س کی پیلی چونچ یا پھر سیاہی مائل نیلے پروں کی کشش تھی کہ گڑیااس کا محویت سے مشاہدہ کرنے لگی۔ میں نے اس کی اسی محویت کا فائدہ اٹھاکر اسے چار چھ چمچ دودھ پلادیا۔ اور خود چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتے ہوئے مینا کو دیکھنے لگی۔ میرا جی چاہ رہاتھا کہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے چائے پیوں۔ مگر مینا کے اڑجانے کے ڈر سے میں وہیں گڑیاکے پاس مسہری پر بیٹھ گئی۔ میہنہ زوروں کاتھا۔ ساتھ ہی موٹے موٹے اولے بھی پڑ رہے تھے۔ مینا کہیں اڑگئی تھی۔ میں نے کھڑکی کے قریب جاکر بارش کے قطروں کو ہاتھ میں لینے کے لیے ہاتھ پھیلادیا بڑی مشکل سے ایک اولا میری ہتھیلی پر رُکا۔ عجیب سی خوشی کااحساس ہورہاتھا۔ جیسے کہ میں ہوا کے دوش پر تیر رہی ہوں یا اپنے لڑکپن میں کہیں لوٹ آئی ہوں۔ ۔ ۔ نہیں لوٹ آیا چاہتی ہوں کہ دروازے کی دستک نے مجھے احساس دلایا کہ مجھے تیرنا نہیں آتا۔ وہ دونوں باپ بیٹے اندر داخل ہوئے۔

"بہت مزاآیاماما۔آپ کیوں نہیں آئیں ہمارے ساتھ گھومنے۔"منو مجھ سے لپٹتے ہوئے بولا۔

"گڑیاٹھیک ہوگئی؟"وہ بولے۔

"کچھ بہتر تو ہے۔"میں نے جواب دیا۔

"بہت تھک گئے ہم۔ ذرا روم سروس میں چائے کے لیے فون کردیجئے۔"وہ بستر پر دراز ہوتے ہوئے بولے۔وہ واقعی تھک گئے تھے کہ اس طرح جوتوں سمیت بستر پر لیٹنے کامطلب تھاکہ میں ہی ان کے جوتوں کے تسمے کھولوں، موزے اتاروں۔

جوتوں موزوں سے فارغ ہوکر میں نے منّے کونہلادیا۔


رات کاکھاناہم سب نے نیچے ڈائیننگ ہال میں کھایا۔باہر آئے تو میں نے پہلی بار آسمان کی طرف دیکھاتھا۔آسمان پربے شمار تارے تھے کہ شہر کے آلودہ آسمان پر تو بہت تھوڑے تارے ہوا کرتے ہیں جو بہت چھوٹے دکھائی دینے والے تارے ہوتے ہیں، وہ مَٹ مَیلے دھوئیں کے غلاف کے اس پار دِکھائی ہی نہیں دیتے۔ جو نظر آتے ہیں وہ بھی میلے میلے سے اور یہاں کتنا چمکدار آسمان۔ ۔ ۔ اور ایک دوسرا آسمان وہ جو زمین پر بھی نظر آرہا تھا۔ رات کو پہاڑیوں کے اونچے نیچے مقامات پر بنے مکانات کی بجلیاں دور ہواسے ہلکورے کھانے والے ان گنت پتوں کے پیچھے سے یوں آنکھ مچولی کر رہی تھیں جیسے رنگ برنگے ستارے ٹمٹمارہے ہوں۔ بہت ہی لبھاؤنا منظر تھا۔ یہ نظارہ اگر شام کی سرمئی روشنی میں دیکھا جائے تو کتنا زیادہ حسن سمیٹ لے گا اپنے اندر۔ اس وقت تو نیلاآسمان بھی گہرا نیلا دکھائی دیتا ہوگا۔اور پرشکوہ درختوں کے اسرار بھی واضح ہوں گے۔ تب یہ روشنیاں دور سے ایسی لگتی ہوں گی جیسے درختوں کی شاخوں پر اَن گنت جگنوؤں کے جھرمٹوں نے ڈیرے ڈالے ہوں۔

یااس اندھیرے میں اونچے لمبے ٹیلوں والی پہاڑیوں پر یہاں وہاں جیسے بے شمار دیے جھلملارہے ہوں۔ دو دن تو جانے کیسے گزرگئے۔ کل شام میں یہ منظر ہرگز زائل نہ ہونے دوں گی۔ سورج کو غروب ہوتا ہوا دیکھوں گی۔ ان تمام پرندوں کو پاس کے سبھی درختوں پر غور کرکے تلاش کروں گی جو یہ دل چرانے والی چہکار جگاکر ہمیں سکون کی وادیوں کی سیرکراتے ہیں۔ اپنے روح پرور نغمے سناکر مدہوش کردیتے ہیں کہ ہمیں اپناآپ ہلکا پھلکا محسوس ہوتاہے۔ سارے غم، سارے کام، ساری ذمہ داریوں کے احساس پرسکون کا احساس حاوی رہتا ہے کہ سکون کی اب میرے نزدیک وہ اہمیت ہے کہ معصوم زندگیوں کی بے شمار ضرورتوں کی فکر نہ ہوتی۔ ۔ ۔ تو جان کے بدلے خرید لیتی۔ او ریہ خوش رنگ و خوش گلو پرندے،بے دام میری جھولی میں یہ دولت ڈال دیتے ہیں کہ زندگی کوئی اچھی چیز معلوم ہونے لگتی ہے۔

یوں بھی نہیں کہ زندگی مجھے ہمیشہ جھیلنی پڑتی تھی، بلکہ میں نے تو زندگی سے خوب خوب محبت کی تھی۔ زندگی میرے لیے ہنسی کے نہ رکنے والے فوارے، ماں باپ کی ناز برداریاں،ننھے منّے بھتیجوں کے ساتھ عشق، بھائیوں کالاڈ اور بھابیوں کے ساتھ سیر سپاٹے، شاپنگ اور فلموں کے علاوہ پینسل اسکیچنگ کرنااور۔ ۔ ۔ پڑھائی کرناتو خیرتھاہی۔

اب تو اخبار تک کی شکل دیکھے ہفتوں گزر جاتے ہیں۔

وہ بھی ٹھیک ہی کہتے ہیں۔

مجھے کرناہی کیاہے۔کوئی سوشل لائف تومیری ہے نہیں۔نہ دوست نہ سہیلی۔ جو احباب وغیرہ ہیں تو ان ہی کی طرف سے ہیں۔ ان سے اگر کبھی ہمارے ہاں ملاقات ہوتی ہے تو مجھے فرصت ہی نہیں ہوتی پاس ٹھہرنے کی۔ اور ان میں سے کسی کے ہاں وہ صرف خود ہی جاپاتے ہیں۔ انھیں اس بات سے بڑی کوفت ہوتی ہے کہ وہ دوستوں سے بات کر رہے ہوں اور بیچ میں بچےّ کے رونے کی آواز آجائے یا ّبچہ زور سے ہنس پڑے۔ اس لیے میں بچوّں کو اپنے پاس ہی رکھتی ہوں۔باہری دروازے کی چابی ساتھ نہیں لے جاتے وہ، انھیں اچھا نہیں لگتاکہ وہ خود سے دروازہ کھول کے اندر داخل ہوں اور میں سوئی ہوں ملوں۔ میں بیٹھے بیٹھے اونگھ بھی جاؤں تو لیٹتی نہیں تاکہ وہ گھر لوٹیں تو دروازہ کھولوں۔ اب دوست کے گھر جائیں گے یا ان کے ساتھ کہیں جائیں گے تو یہ آدھی وادھی رات تو ہو ہی جاتی ہے۔تھک بھی جاتے ہیں۔ ان کو کپڑوں کی الماری کے دروازے پر لگے ہینڈل پر ہینگر میں ٹنگا شب خوابی کا لباس پکڑانا ہوتاہے۔ موزے اور قمیض وغیرہ کپڑے دھونے کی مشین میں ڈالنا۔ اور کچھ کپڑے اسی ہینگر پر ڈال کر الماری میں رکھ دینا۔ جوتے جو یہ ریک کے ٹھیک پاس اتارتے ہیں انھیں اٹھاکر قرینے سے ریک کے اندر رکھنا۔ گھر میں چار لوگ ہیں۔ اور پھر مجھے ایساکرنا ہی کیا ہوتاہے۔

بہرحال کل کا دن میرے پاس ہے۔ کل رات کی گاڑی سے جاناہے۔ معلوم نہیں وہ اور منو کل کہاں گھومنے گئے تھے۔ آس پاس دیکھنے لائق مقام تو ہوں گے۔ دن میں کچھ نہ کچھ تو دیکھ ہی سکتی ہوں۔ ناشتے سے فارغ ہوتے ہی میں فوراً پیکنگ کرلوں گی۔ مگر کیامعلوم وہ کتنے مصروف ہوں۔ انھیں کہیں جاناہو۔ میں کبھی کوئی پروگرام بنا نہیں پاتی۔

ناشتے کے بعد جب میں پیکنگ کرنے لگی تو انھوں نے مشورہ دیاکہ یہ جو پلاسٹک کی تھیلی میں میں نے بچّوں کے میلے کپڑے ساتھ اٹھالیے ہیں،انھیں یہاں ہی دھولوں۔ کہاں میلے کپڑوں کو اٹھاتی پھروں گی۔ٹھیک ہی کہتے تھے۔ اب میں ان کو یہ کہہ کر پریشان تو نہ کرتی کہ یہ سوکھیں گے نہیں شام تک، اور جب بھی تھیلی میں الگ سے ڈالنے پڑیں گے۔

خیر میں نے پیکنگ کاکام ادھورا چھوڑدیا اور کپڑے دھونے لگ پڑی۔ دھوتے دھوتے جانے کب دوپہر ہوگئی۔ کھانا کھانے کے بعد وہ کسی طرف نکل گئے اور میں پیکنگ میں لگ گئی۔ اٹیچی بڑی مشکل سے بند ہوئی۔ اصل میں اس میں ان کے ملنے والوں کے لیے کچھ چھوٹے موٹے تحائف وغیرہ تھے۔ یہ ایک اضافہ تھا۔ اور بیگ میں بھی بھیگے کپڑوں نے ایک بڑی جگہ گھیر رکھی تھی۔بچّوں کومیں نے سفر کے لیے چاق و چوبند بنادیا۔ خود بھی تیار ہوگئی۔ وہ توتیار ہی تھے۔ سب سامان پیک ہوچکاتھا بلکہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھنس چکا تھا۔ پانچ بجنے والے تھے۔ شکر ہے سب کاموں سے نبٹ تو لی۔ اِدھر ادھر نہ سہی، آرام سے بالکنی پر وہ رسالہ دیکھوں گی جو تین دن پہلے میں نے خریدا تھا۔ اس کے بعد غروبِ آفتاب کا نظارہ پھر پرندے۔ ۔ ۔

اس خیال سے میں نے گڑیاکو انگلی پکڑائی اوراُسے دھیرے دھیرے چلاتی ہوئی بالکنی میں پہنچی ہی تھی کہ نیچے سڑک پر وہ آتے ہوئے دکھائی دئیے۔ میں واپس کمرے میں لوٹ آئی۔ وہ آتے ہی کہنے لگے کہ ان کی جینز کافی میلی لگ رہی ہے۔اور یہ کہ انھیں جینز میں ہی سفر کرنااچھا لگتاہے۔ ا س لیے میں ذرا سااسے دھولوں۔جینز دیکھنے میں میلی تو نہیں لگ رہی تھی، بس موریوں پر ذرا سی دھول مٹی تھی جو برش سے بہ آسانی صاف ہوسکتی تھی مگر وہ بہت صفائی پسند ہیں! کہہ رہے تھے کہ مجھے بھی گاڑی کا وقت ہونے تک کچھ کرناتو ہے نہیں ذرا سا اسے دھولوں گی اور پھر ذرا سا استری سے سکھابھی دوں گی۔ اتنا وقت ہے میرے پاس۔ میں نے پریس ساتھ رکھی تھی۔ وہ ایک آدھ شکن والا لباس بھی نہیں پہن سکتے۔

میں نے نہایت مشکل سے پیک کی ہوئی اٹیچی کھول کرانھیں دوسری پتلون نکال دی اورجینز دھونے غسل خانے میں گھس گئی۔ڈینِم کے موٹے سوتی کپڑے کی جینز پانی میں اور بھی بھاری ہوگئی اور میں حتی الامکان اس وزنی پینٹ کو الٹ پلٹ کر دھوتی گئی۔ ہاتھوں میں لے کر رگڑتی گئی۔ کپڑے دھونے کا برش تو میرے پاس تھا نہیں، اس طرح اور زیادہ صاف کرنے کی کوشش میں میری انگلی کاایک لمبا ناخن آدھا ٹوٹ گیا۔ جانے کتنا وقت لگاہوگا مگر میں نے اسے آخرکار دھولیا۔ اور اب اسے پھیلانے سے پہلے جھٹکتے ہوئے میرا پورا ناخن ہی اکھڑ گیا۔

خون کی دھار بہہ نکلی۔درد کی لہرسی اٹھی۔ میں نے انگلی پر ٹیشو پیپر لپیٹ دیا۔ اور وقت ضائع کیے بغیر غسل خانے کی کھڑکی کھول دی۔

اندھیروں کو چیر کر آتاہوا سرد ہواکاایک افسردہ جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا۔ نہ معلوم کب اندھیرا ہوچکاتھا۔ سارے طیور آشیانوں میں جاچھپے تھے۔ نیلے پنکھوں اور پیلی چونچ والی مینا بھی غائب تھی۔ انگلی کی ٹیس دل میں سے ہوتی ہوئی روح میں سماسی گئی۔ تھکی ہوئی نظرمیں نے آسمان کی طرف اٹھائی۔

ستارۂ زہرا وسیع العرض آسمان پر اکیلا لٹک رہاتھا۔دور پہاڑیوں پر ٹنگی روشنیاں بھی برائے نام دکھائی دے رہی تھیں۔ ہر طرف دھند ہی دھند تھی۔

تھکی ہاری سی میں کمرے کی طرف پلٹی،تو کمرے کا منظربھی مجھے دھندلایا سا لگا۔ یہ میری آنکھوں کو کیاہوگیاہے۔

جینز کااضافی پانی نچڑچکاہوگا۔مجھے اسے استری سے سکھانابھی ہے وہ بہت نازک مزاج ہیں۔ذرا سی بھی Uncomfortable چیز انھیں پریشان کردیتی ہے۔

******

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                  ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول