صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
یہودی کی لڑکی
آغا حشرؔ کاشمیری
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
تیسراسین
ر ا ستہ
(راحیل کا گانا)
دل تیرِ اداکا نشانہ ہوا،یہ نشانہ ہوا،تھا اپنا مگر اب بیگانہ ہوا،آنکھ مِلتے ہی ظالم روانہ ہو ا ۔ دل...
شیدا ہوا یہ دل نازک بدن پر ،غنچہ دہن پر ۔ تیرے ہونٹ ہیں لعلِ یمن، یہ زلف ہے مُشکِ ختن
کیفِ شرابِ ہستی ہے اک عذاب ہم کو
زنجیرِ آتشیں ہے موجِ شراب ہم کو
آرام ہجر کی شب آئے تو کیوں کر آئے
ہے موت ہی میسرہم کو ، نہ خواب ہم کو
(مارکس کا یہودی لباس میں آنا)
مارکس:۔
کرتی ہے آتشِ غم تیری کباب ہم کو
پھونکے ہی جا رہا ہے یہ اجتناب ہم کو
الفت میں تم پریشاں، فرقت میں ہم ہیں نالاں
وہاں اضطراب تم کو ، یہاں اضطراب ہم کو
پیاری راحیل !میری یہ خواہش ہے کہ تم چہرے پر نقاب ڈالے بغیر گھر سے باہر نہ نکلا کرو۔
راحیل:۔ کیوں پیارے ! اس کی وجہ؟
مارکس:۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح بارش سے دُھلے ہوئے صاف آسمان پر چاند کی شعاعیں دور دور پھیل جاتی ہیں تو تمام دنیا مستی میں ڈوبی ہوئی پرُ شوق نگاہوں سے دلفریبی پر قربان ہونے لگتی ہے ، اس طرح جب تمھارے گلابی رخساروں کے عکس سے کائنات کا ذرہ ذرہ جگمگانے اور ہنسنے لگتا ہے تو قدر ت کی مخلوق ہی نہیں خود قدرت بھی تمھیں پیار سے دیکھنے لگتی ہے
ہے نظر کاتب کی اپنے ہاتھ کی تحریر پر
خود مصوّر ہی لٹا جاتا ہے اس تصویر پر
راحیل:۔ تو کیا پیارے تم رشک کرتے ہو؟
مارکس:۔ رشک ! میں اس لباس پر رشک کرتا ہوں جو تمھارے خوبصورت جسم کو ہر وقت آغوش میں لیے رہتا ہے ، میں اس گلے کے ہار پر رشک کرتا ہوں جو اس دلفریب سینے کے ابھار کو ہر وقت بوسے دیا کرتا ہے ، میں ہوا کے جھونکے پر ر شک کرتا ہوں جو ان ناگنوں کے پاس سے نڈر ہو کر نکلتا ہے ۔ یہاں تک کہ میں تمھارے سایے سے رشک کرتا ہوں جو تمھارے قدموں کے ساتھ ساتھ لپٹا ہوا چلتا ہے ۔
بندھی ہے ٹکٹکی سب آزما تے ہیں نصیب اپنا
جسے میں دیکھتا ہوں اس کو پاتا ہوں رقیب اپنا
جو حسرت ہے تو یہ حسرت نہ کوئی ہو مقابل میں
تمھیں آنکھوں میں رکھ لوں اور ان آنکھوں کو اس دل میں
(دونوں کا گانا)
سمندِناز پر کھولے ہوئے وہ بال پھرتے ہیں
بچے کب طا ئرِ دل جب ہوا میں جال پھرتے ہیں
پھول سے گالوں پر ، ناگن سے بالوں پر ، میں ہوا فدا ، دل رُبا۔
راحیل:۔ مت واری چالوں کی ، گھونگر سے بالوں کی زنجیر میں ہوں اسیر
اسیر پنجۂ عہدِ شباب کر کے مجھے
کہا ں گیا میرا بچپن خراب کر کے مجھے
کسی کے دردِ محبت نے عمر بھر کے لیے
خدا سے مانگ لیا، انتخاب کر کے مجھے
مارکس:۔ ا بروکٹاری ، سینے یہ ماری تیغِ دودھاری ۔ اے جان! پھول سے گالوں ...
(دونوں کا گاتے ہوئے جانا)
(منادی والے کا آنا)
منادی والا:۔اے باشندگانِ روم!تم کوتاج دار دینی کونسل کاحکم ڈھنڈورے کی بلند آواز کے ساتھ سنایا جاتا ہے کہ آج چونکہ رومی دیوتاؤں کا مقدس دن ہے اس لیے روم کے قانون کے مطابق ہر جگہ جشنِ عام ہو ۔ ہر صحبت میں ہنگامۂ بادہ وجام ہو ۔ تین شبانہ روز تک تعطیل ہی تعطیل ہو ۔ ہر کام میں التوا ، ہر دھندے میں ڈھیل ہو۔ جوشاہی کونسل کے خلاف عمل میں لائے گا وہ روم کے قانون کے مطابق زندہ آگ میں جلایا جائے گا۔
ایک شخص :۔ اجی میاں منادی والے !یہ تو کہوکہ تین دن تک تمام کارو باربند کر کے جشن منانے کا حکم صرف دیوتا کی پیاری قوم ، یعنی رومن لوگوں کے لیے ہے یا پارسی ، عیسائی ، یہودی ، سب کو تین دن کی مدت قابلِ احترام ہے ۔
منادی والا:۔ سب کے لیے ، جو لوگ رومی دیوتاؤں کو نہیں مانتے ان کے لیے بھی۔
وہی شخص:۔مگر جو لوگ تمھارے دیوتاؤں کو مانتے ہی نہیں وہ کیوں کر جشن منائیں گے ۔
منادی والا:۔ نہ منائیں گے تو رومن قوم کے دشمن قرار دے کر زندہ آگ میں جلائے جائیں گے ۔
(سب کا جانا ، رومن افسروں کا داخل ہونا، شور وغل کی آوازیں)
کینشش:۔ آج کے دن یہ شور وشرکیسا ؟ عین عبادت میں یہ ضر ر کیسا؟
ایک سردار :۔ عالی جاہ ! یہ اسی لا یعنی عبرانی کا کارنامہ ہے ۔
کینشش:۔کیا ڈھنڈورے کی آواز اس کے مکان کے دروازوں اور کھڑکیوں سے ہو کر اس کے کان تک نہیں پہنچی؟کیا اس نے ہمارے شہنشاہ اور ہماری مذہبی کونسل کا حکم نہیں سنا؟
دوسرا سردار:۔ نہیں !حضور سنا ہو گا ، مگر یہ کمترین یہودی ہمارے رومن دیوتاؤں سے قلبی خصومت رکھتے ہیں ۔ اس لیے ہمارے کسی حکم کی پروا نہیں کرتے ۔
کینشش:۔اَن دیکھے خدا پر بھروسہ رکھنے والے کا فر کی یہ حرکت !ہم سے اور ہمارے مذہبی حکم سے یہ نفرت ! جاؤ اور اسے ڈاڑھی سے پکڑ کر منہ پر تھوکتے ہوئے یہاں لے آؤ۔
(یہودی کو پکڑ کر لانا)
سردار (۱):۔ کرو سجدہ۔
یہودی:۔ کسے سجدہ ؟
سردار:۔ اس عا لی شان کو ۔
یہودی:۔ (عزرا) اس فانی انسان کو ؟ ہم سجدہ کرتے ہیں اپنے سبحان کو
ٹکڑے مرے اڑجائیں گے یہ ڈر کر نہ جھکے گا
آگے کسی انسان کے یہ سر نہ جھکے گا
دوسرا سردار:۔ آگے بڑھ اور جھک ان قدموں کے آگے
عزرا:۔ جھکوں؟ کس کے آگے ؟ ان قدموں کے آگے جن قدموں نے اس سر سے بھی زیادہ سفید اور بوڑھے سروں کو ٹھوکریں ماری ہیں ، جنھوں نے اپنی جوانی کی ضربوں سے مظلوم قوم کے سینوں کی ہڈیاں توڑ ڈالی ہیں ۔ نہیں ،میں کبھی نہیں جھکوں گا۔
قیامتیں ہوں کہ آفتیں ہوں ، جہان جائے کہ جان جائے
مگر یہ ممکن نہیں ہے ہرگز کہ اس بندے کی آن جائے
اس کی چوکھٹ پہ ہو گا سجدہ، جدھر وہ ہو گا اُدھر جھکے گا
بجز خدا کے کسی کے آگے نہ دل جھکا ہے نہ سر جھکے گا
کینشش:۔ مفسد ! باغی ! ہماری رسموں اور مذہبی تیوہاروں کے ساتھ اعلانیہ نفرت کا اظہار کرنا اور پھر دنیا کے سامنے اپنی بے گناہی آشکار ا کرنا ۔ ذلیلو! اگر ہم جانتے تو تمھیں آزادی اور زندگی کبھی نہ بخشتے ۔
عزرا:۔ اس ملک میں آزادی اور زندگی! یہ دونوں کہاں ہیں ؟ ہماری قوم کے لیے یہ دونوں چیزیں کسی قیمت پر نہیں مل سکتیں ۔ تم میں رحم ،انصاف اور ایمانداری کہاں ہے ؟ ہماری زندگی کے لیے قدم قدم پر ذلت ہے ، ندامت ہے ، شرمندگی ہے ۔
شجرِ زیست کے چن چن کے ثمر توڑے ہیں
تم نے دل توڑے ہیں سب کے کہ جگر توڑے ہیں
ایسے ظالم ہو کہ تم نے کوئی دو چار نہیں
سینکڑوں لاکھوں ہی اللہ کے گھر توڑے ہیں
کینشش:۔
صاحبو ! سنیں تم نے باتیں خصومت کی
یہ سراسر توہین ہے رومن حکومت کی
عزرا:۔ اگر رحم نہ ہو تو حکومت کس کام کی؟ بے انصاف کی بہادری ہے بے نام کی، تم نے اگلے وقتوں میں ہماری قوم پر جو جو ظلم کیے ہیں وہ اس دل پر خون کے حرفوں سے لکھے ہوئے ہیں۔
ہمارے سر پہ ہزاروں ستم ہیں ڈھائے گئے
ہمارے جھونپڑے توڑے گئے جلائے گئے
تمھیں ہو جو کہ ہمیشہ ہمیں ستائے گئے
ہمیں ہیں جو کہ تمھارے ستم اٹھائے گئے
سردار:۔ یہ ہمارے دیوتاؤں کا سخت دشمن ہے ۔
عزرا:۔ نہ ہم کسی کے دشمن نہ بد خواہ۔ تم اپنی راہ لو اور ہم اپنی راہ ۔
ہر ایک اپنے مذہب کا دور بین خود ہے
عیسیٰ بدین خود ہے موسیٰ بدین خود ہے
سردار:۔ ہمارا خدا عیاں ہے ، مگر تمھارا خدا کہاں ہے ؟
عزرا:۔ ہمارا خد ا یہاں ہے ، وہاں ہے ، محیطِ زمیں ہے ، مدارِ آسماں ہے ۔
سردار :۔ خدا اگر ظاہر نہیں ، بر ملا نہیں تو کچھ نہیں ۔
عزرا:۔ خدا ہی سے ہے خدائی ساری، خدا نہیں تو کچھ نہیں ۔
***