صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


یادگار زمانہ لوگ

پروفیسر غلام شبیر رانا

ؔ

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

           شہر یار:دیار دل نہ رہا بزم دوستاں نہ رہی 

ٍ

       عالمی شہرت کے حامل نامور ادیب، ماہر تعلیم، دانش ور، نقاد، شاعر اور ماہر فنون لطیفہ و لسانیات کنور اخلاق محمد خان شہر یار 13۔ فروری  2012کی شب علی گڑھ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انھیں پھیپھڑوں کے سرطان کا عارضہ لاحق تھا۔ 16۔ جون1936کو بریلی (اتر پردیش )سے طلوع ہونے والے علم و ادب کے اس نیر تاباں نے پوری دنیا کو اپنے افکار کی تابانیوں سے منور کر دیا۔ وہ حریت فکر و عمل کے ایسے مجاہد تھے جنھوں نے تمام عمر ہوائے جور و ستم میں بھی امید اور حوصلے کی شمع فروزاں رکھی۔ ان کی شاعری دلوں کو موم کر کے  سنگلاخ چٹانوں اور پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔  احباب ان کی باغ و بہار شخصیت  کے گرویدہ تھے۔ وہ سراپا شفقت و خلوص تھے۔ سب کے ساتھ بلا امتیاز بے لوث محبت، اخلاص اور اخلاق سے پیش آنا ان کا معمول تھا۔ ان کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ پوری دنیا میں ان کی وفات کی خبر سے لوگوں کو دلی صدمہ ہوا۔  اللہ تعالی نے انھیں ایک مستحکم شخصیت سے نوازا تھا۔ دنیا کے تیزی سے بد لتے ہوئے حالات، متنوع خیالات، رنگینی و رعنائی اور تغیر  پذیر اقدار و روایات میں وہ جنریشن گیپ کا شکار نہیں ہوئے بلکہ ایک حیران کن مطابقت کی صورت تلاش کر کے اپنے انداز فکر کو نئے میلانات اور بدلتے ہوئے رجحانات سے ہم آہنگ کر کے ایک مستحسن کام کیا ہے۔ علم و ادب اور فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے شہر یار کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انھوں نے بھارت کی اردو فلموں کے لیے جو گیت لکھے وہ آج بھی دلوں کی دھڑکن سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں اور قلب و نظر کو مسخر کر لیتے ہیں۔ عوامی زندگی میں انھیں ان گیتوں کی وجہ سے بے پناہ محبتیں ، چاہتیں ، پذیرائیاں اور مقبولیت نصیب ہوئی۔ ان مقبول عام گیتوں کو ان کے عہد کے ممتاز گلوکاروں نے گا کر ان کو یادگار بنا دیا۔

         فلم گمن (روانگی) کے لیے شہریار نے جو نغمے لکھے وہ اس قدر مقبول ہوئے کہ اس فلم کے نغمات میں سے ایک کو بہترین  قرار دیتے ہوئے اسے پلے بیک گلوکاری کا اعلیٰ ترین ایوارڈ 1978میں دیا گیا۔ اس نغمے میں شہریار نے  جانگسل تنہائی اور فرقت کے جا ن لیوا لمحات کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ اس قدر پر تاثیر ہے کہ آنسو ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے۔

       آ پ کی یاد آتی رہی رات بھر                  چشم نم مسکراتی رہی رات بھر

        رات بھر درد کی شمع جلتی رہی                  غم کی لو تھر تھر اتی رہی رات بھر

       مظفر علی کی بنائی ہوئی یہ فلم شہر یار کی غزلوں کی بدولت کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔ شہر یار کو زبان و بیان اور ابلاغ  پر جو  فنی مہارت حاصل تھی اس کا ایک عالم  معترف تھا۔ اردو نثر میں انھوں نے اپنی پر تاثیر، جذباتی اور بر محل  مکالمہ نگاری سے بھی فلمی دنیا میں خوب رنگ جمایا۔ فنون لطیفہ کے فروغ کے لیے انھوں نے جو بے مثال جدو جہد کی وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔  اردو زبان کی مشہور  اور مقبول فلم گمن (Gaman) کا یہ امتیاز ہے کہ اس میں شہریار کی سدا بہار شاعری پورے عروج پر ہے۔ ایک زیرک، مستعد، فعال، حساس، مخلص اور جذبہ انسانیت نوازی سے سرشار تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے جس دردمندی اور صداقت سے جذبات نگاری کی ہے وہ اپنی مثال آپ  ہے۔ آج بھی ان کی یہ شاعری سن کر قاری پر عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ متعدد سوالا ت اس کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں جو فکرو نظر کو مہمیز کر کے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔ یہ شاعری اس قدر پر  تاثیر ہے کہ ہر عہد کی تخلیقی فعالیت میں اس کی مہک محسوس ہوتی رہے گی۔


سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے

اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے

دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے

پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے

تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو

تا حد نظر ایک بیابان سا کیوں ہے

کیا کوئی نئی بات نظر آئی ہے ہم میں

آئینہ ہمیں دیکھ کے حیران سا کیوں ہے 

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول