صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


زندگی کا یادگار سفر

 حیدر قریشی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

اقتباس

اسی رات میں نے کولکاتا میں ایشیاٹک سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری کو ویزہ ملنے کی خوشخبری ای میل سے بھیجی۔۱۶ مارچ کو میں اپنی ڈیوٹی سے گھر واپس آیا تو سارے بچے مجھے خدا حافظ کہنے کے لیے گھر پر جمع تھے۔رات ساڑھے نو بجے ائر انڈیا کی فلائٹ سے جانا تھا۔سو بروقت ائر پورٹ پہنچے اور معمول کی کاروائی سے گزرتے ہوئے جہاز میں سوار ہو گیا۔طارق اور عادل مجھے ائر پورٹ تک چھوڑنے ساتھ آئے تھے۔ ۱۷ مارچ کو دہلی کے انٹرنیشنل ائر پورٹ پہنچا۔وہاں سے ضابطہ کی کاروائی سے گزرنے کے بعد اندرون ملک کی پروازوں والے ائر پورٹ جانا تھا۔دہلی سے کولکاتا کے لیے میری سیٹ انڈی گو نامی ایک ہوائی کمپنی میں بک تھی۔اگلی پرواز کے لیے ابھی کافی وقت تھا سو ایک ریستوران پر دوپہر کا کھانا کھایا۔لچھے دے پراٹھے اور دال مکھنی۔شوگر کے مریض کی بد پرہیزی کی انتہا۔بہر حال شام تک کولکاتا پہنچ گیا۔ وہاں ائر پورٹ پر روزنامہ عکاس کے چیف ایڈیٹر کریم رضا مونگیری مجھے لینے کے لیے آئے ہوئے تھے۔وہاں سے سیدھے ان کے گھر پہنچے۔رستے میں انہوں نے اپنا موبائل فون عنایت کیا کہ جرمنی میں اطلاع کر دیں کہ آپ خیریت سے کولکاتا پہنچ گئے ہںے۔سو اسی وقت مبارکہ سے بات ہو گئی،خیریت سے سفر طے ہو جانے کی خبر سن کر وہاں بھی اطمینان ہو گیا اور مجھے بھی تسلی ہو گئی ۔

کریم رضا مونگیری کے گھر پہنچے تو وہاں پہنچتے ہی کولکاتا کے اپنے خاص احباب کو فون کر کے اپنے آنے کی اطلاع دی۔ پروفیسر ڈاکٹر شہناز نبی،اور اردو دوست والے خورشید اقبال دونوں سے ملاقات کا طے کیا۔ اسی دوران کریم رضا مونگیری کی بیٹی ثنا اور داماد کاشف بھی آ گئے۔ان کا بیٹا عمیر بہت پیارا تھا اور اسے دیکھتے ہیں مجھے اپنے چھوٹے پوتے یاد آنے لگے۔ان سارے بچوں کے ساتھ کافی دیر گپ شپ رہی۔پھر یہ اپنے گھر چلے گئے۔مجھے بھی تھکاوٹ کا احساس ہونے لگا تھا۔گزشتہ دو روز میں دن بھر کی ڈیوٹی کے بعد ساری رات کا سفر اور پھر اگلا دن بھی کولکاتا پہنچنے تک مسافرت کی حالت میں گزرا تھا۔چنانچہ رات کا کھانا کھا کر اور بچوں کے جانے کے بعد جلد سو گیا۔۱۸ مارچ کو بروقت آنکھ کھل گئی۔حوائج ضروریہ سے فارغ ہو کر فرض فریضے ادا کیے۔کریم رضا مونگیری بیدار ہوئے تو ان کے ساتھ گپ شپ کے ساتھ بعض دوستوں سے رابطہ شروع کیا۔ادبی رسالہ ’’دستک‘‘ کے مدیر عنبر شمیم جوَ اب روزنامہ آبشار کا سارا کام سنبھالے ہوئے ہیں،ان سے رابطہ ہوا اور ان کے دفتر میں ملنا طے ہوا۔وہیں پہنچنے کے لیے نوشاد مومن مدیر مژگاں کو بھی کہہ دیا۔ناشتہ اطمینان سے کیا اور پھر کریم رضا مونگیری کے ساتھ دفتر آبشار میں پہنچ گئے۔ عنبر شمیم سے زندگی میں پہلی بار روبرو ملاقات ہو رہی تھی لیکن کہیں کوئی تکلف آڑے نہیں آیا،ہم برسوں کے شناسا دوستوں کی طرح بات کر رہے تھے۔نوشاد مومن پہنچے تو محفل کی رونق مزید بڑھ گئی۔میں نے انہیں علامہ اقبال کے اس شعر کی طرف توجہ دلائی جس میں انہوں نے مومن کے بارے میں دو مختلف آراء کو بیان کیا ہے۔

کہتے ہیں فرشتے کہ دلآویز ہے مومن

حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

کسی نے اس شعر کو دوسرے رنگ میں بھی بیان کر رکھا ہے۔

کہنا ہے فرشتوں کا کم آمیز ہے مومن

حوروں کو شکایت ہے بہت تیز ہے مومن

نوشاد مومن اپنی ادبی سرگرمیوں میں خاصے تیز ہیں۔ان کے ساتھ جوگندر پال جی کا افسانہ’’ سانس سمندر‘‘ اپنے افسانوی مجموعہ میں شامل کر لنےی والے سلیم خان ہمراز کے دلیرانہ سرقہ کا ذکر ہوا۔نوشاد مومن بتانے لگے کہ وہ اتنے شرمندہ ہیں کہ کسی سے رابطہ میں ہی نہیں آرہے۔اس سرقہ کی نشان دہی جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۷ میں ارشد کمال کے ایک خط میں کی جا چکی ہے۔اس دوران شہناز نبی کا فون آ گیا،وہ مجھے لےن  آ رہی تھیں۔کریم رضا مونگیری نے انہیں ملنے کا مقام بتایا اور پھر ہم آبشار کے دفتر سے نکل کر اس مقام کی طرف روانہ ہو گئے۔وہاں ڈاکٹر شہناز نبی موجود تھیں،میں کریم رضا مونگیری کی گاڑی سے شہناز نبی کی گاڑی میں منتقل ہو گیا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول