صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
یادیں
مجاور حسین رضوی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
آج سے چوبیس سال پہلے ڈاکٹر جعفر رضوی نے بنارس یونیورسٹی کے ایک صاحب کا تذکرہ کیا تھا کہ ان کی ’’فتوحات‘ اور ’’کارنامے ‘عجیب و غریب ہی نہیں محیرالعقول بھی ہیں ۔ یہ بات اختشام حسین صاحب کے گھر کے سامنے ہورہی تھی اتنے میں دیکھا کہ کسے ہولئے بدن اور سرخ و سفید رنگت والے ایک صاحب سیاہ شیروانی پہنے ہوئے چلے آرہے ہیں ۔ سگریٹ منھ لگی معلوم ہوتی تھی اور آواز میں غیرمعمولی بھاری پن اور کھنک تھی۔ سرسری سا تعارف ہوا، پھر وہ احتشام صاحب کے پاس تشریف لے گئے اور ڈاکٹر جعفر رض نے بتایا کہ یہی صاحب حکم چند نیر ہیں ۔حکم چند نیر : یادوں کے چراغ
بلاشبہ ان کی شخصی وجاہت متاثرکن تھی ۔ لیکن چہرے سے ایسے تاثرات ظاہر نہ ہوئے تھے جن سے علمی تبحر یا مدر سا نہ وقار کااندازہ لگایا جاسکتا بلکہ دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ بے حد جذباتی اور ہیجانی شخصیت ہے۔ مزاج کی سیماب وشی کا اندازہ سگریٹ سلگاتے ہوئے انگلیوں کی خفیف سی تھر تھراہٹ سے ہوتا تھا۔
پھر یوں ہوا کہ مسیح صاحب صدر شعبہ اردو ہوکر بنارس گئے اور کچھ دنوں بعد واپس بھی آگئے۔ ان کی گفتگو سے نیر صاحب کے بارے میں کوئی اچھا تاثر نہ قئام ہوسکا۔ ۱۹۷۴ء میں کرسچین کاسج میں لکچرر کا تقرر تھا۔ وہاں میں نے نہ صرف یہ کہ انہیں دیکھا بلکہ بھگتا بھی اور بعد میں ’’سید کے جلال‘ کا مظاہرہ بھی کیا۔ ۱۹۷۵ء میں جب مسیح صاحب کا انتقال ہوا تو چک کے امام باڑے میں جس وقت ضیاء الحسن صاحب سورہ رحمن کی تلاوت کر رہے تھے، میں نے دیکھا کہ نیر صاحب چلے آرہے ہیں ۔ دہی سیاہ شیروانی، ڈھیلی مہری کا سفید پائجامہ۔ لیکن اس وقت نہ ان کے لہجہ میں کوئی کھنک تھی نہ چہرے پر بشاشت۔ آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور ایک پیکر یاس و الم نظر آرہے تھے۔ وہ مودبانہ منبر کے پاس بیٹھ گئے۔ جب تک تلاوت ہوتی رہی، سر جھکائے رہے۔ جب مجلس شروع ہوئی تو ہتھیلی پر ٹھوڑی ٹکائے کبھی ذاکر کی طرف دیکھتے کبھی سر جھکالیتے۔ یہ تو یاد نہیں کہ مصائب سید الشہداء کے موقع پر وہ رو رہے تھے یا نہیں ۔ لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ جیسے ہی مسیح صاحب کا تذکرہ شروع ہوا، ان کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے تھے۔ مجلس کے بعد بھی وہ بڑی دیر تک مسیح صاحب کا تذکرہ اچھے الفاظ میں کرتے رہے اور کچھ ایسا محسوس ہوا کہ پہلے ان کے بارے میں جو رائے قائم کی تھی وہ درست نہ تھی۔
خیال ہوا کہ شاید وہ اتنے برے آدمی نہ تھے ۔!
کچھ ہی دنوں کے بعد یعنی ۱۹۷۶ء میں پروفیسر گیان چند جین الہ آباد یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو ہوکر آگئے۔ ان کاعلمی تجر، وسعت مطالعہ، ان کے مزاج کا انکسار اور اس دور بلاخیز میں بہرحال کسی حد تک ذہنی ایمانداری بے حد متاثرکن تھی اور ہے۔ وہ کم از کم میرے لئے میکدہ علم کے پیرمغاں تھے۔ ان سے یہ معلوم ہوا کہ نیر صاحب ان کے شاگرد ہیں اور یہ کہ وہ انہیں بہت عزیز رکھتے ہیں ۔ میں نے ان کو نیر صاحب کی طرف سے اپنی بیزاری کی وجہ بتائی تو انہوں نے اسے کوئی اہمیت نہ دی بلکہ اس رجز خوانی کو بھی سرسری طور سے نظرانداز کر دیا جس میں نیر صاحب کے لئے دھمکیاں بھی تھیں اورجب نیر صاحب آئے، انہوں نے میرا تعارف بھی کرادیا اور طرفین سے ایک دوسرے کے بارے میں کلمات خیر بھی کہے۔ نیر صاحب نے میرے الہ آباد یونیورسٹی میں تقرر پر خوشگوار تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ :
’’متن کی تدریس پرتوجہ نہیں دی جاتی۔ آپ کی وجہ سے یہ توقع ہے کہ آپ متن پر توجہ دیں گے‘۔
اس عرصے میں ان سے دو تین مرتبہ ملاقات ہوئی۔ کسی طرح کے جذباتی لگاؤ کا مظاہرہ نہ ان کی جانب سے ہوا اور نہ میری جانب سے۔ لیکن یہ بھی تھا کہ کسی طرح کی تلخی کا احساس بھی ہم دونوں کے درمیان نہیں رہ گیا تھا۔
پھر میں حیدرآباد یونیورسٹی میں چلا آیا۔
’’اچانک ایک روزحیدرآباد میں میری رہائش گاہ کے سامنے محاذ جنگ سے واپس آئے ہوئے کسی فوجی کرنل کی طرح وہ نظر آئے مجھے حیدرآباد آئے ہوئے صرف دو سال ہوئے تھے اور حُسن اتفاق کہ اہلیہ بھی موجود تھیں ۔ نیز صاحب نے مصافحہ پر معانقہ کو ترجیح دی اور یا علی یا علی کہتے ہوئے داخل ہوئے۔ پھر اچانک پلٹ کر بڑے ڈرامائی اندازمیں کہا :
’’قصور معاف ہوا ۔ !!‘
عرض کیا : ’’اب تو یاد بھی نہیں رہا کہ آپ کا جرم کیا تھا ۔!‘
کہنے لگے : ’’پیرمغاں کے ہاس اس لئے نہیں گیا کہ بس وہاں جائیں گے تو وہی ہندوانہ کھانا ملے گا‘۔
میں نے ہنس کر بات ٹال دی۔ حیدرآباد سے جانے کے بعد خط لکھا اس کے کچھ حصے ملاحظہ ہوں :
’’بھائی۔ جب سے یہاں آیا ہوں تبھی سے تمہارے بارے میں سوچتا رہا ہوں ۔ کیا سوچتا رہا۔؟ بہت معمولی سی بات تھی۔ یہ کہ ہمیں آپس میں ملنے کا کبھی موقع کیوں نہیں ملا؟ کیا وجہ تھی کہ آپ مجھ سے نہ ملے یا میرے بارے میں آپ کے ذہن میں کسی نے کوئی غلط فہمی پیدا کر دی تھی۔! میرے ذہن میں تو ایسی کوئی بات نہ تھی لیکن مجھے تو آپ سے بات کرنے کا کبھی موقع ہی نہ مل سکا۔ میں نیلکچرر، ریڈر اور پروفیسر ہوتے ہوئے بھی ان عہدوں میں کبھی کوئی فرق نہیں رکھا۔ کیونکہ عہدے کا خناس میرے ذہن میں کبھی کوئی فرق نہیں رکھا کیونکہ عہدے کا خناس میرے ذہن میں کبھی پیدا ہی نہیں ہوا۔ علم کے بارے میں خدا کا شکر ہے کہ میں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں رہا۔ ہمیشہ ایک طالب علم رہا ہوں ۔ آپ کو ملا تو جی خوش ہوا۔ ایسے لوگ اب کہاں ہیں دکھ ہوا تو ا س بات کا کہ آپ سے پہلے کیوں نہ مل سکا۔ کتنے اور کیسے گدھوں کے ساتھ بات کرکے وقت ضائع کیا۔ لیکن آپ کے ساتھ بات کرنے کاکبھی موقع نہیں ملا۔ اور اس دن بھی زبردستی مولوی محمود الٰہی کے چنگل سے نکل آیا۔ تھوڑی دیر ہی کے لئے تو رک سکا، اس میں سے بہت سا وقت تکلفات رسم و رسو م اور دیگر باتوں میں گزر گیا۔ آپ سے تو کوئی بات ہی نہ کر سکا۔ لیکن ایمان کی بات کہتا ہوں کہ آپ سے اس تھوڑی دیر کی ملاقات میں خلوص، لگن اور بھابھی و بچوں سے محبت اور مسرت اور آپ کے طلباء سے خلوص و محبت دونوں جھولیاں بھر بھر کر لایا ہوں ۔ وہ آج تک پچھلے پچیس برسوں میں کہیں سے نہ لایا تھا‘۔
ایک ایک لفظ سے محبت ٹپکتی ہے اور پھر یہ محبت بڑھتی ہی گئی مگر بعد مکانی نے بہت کم ملنے کا موقع دیا۔ کہاں بنارس اور کہاں حیدرآباد۔ لیکن خط و کتابت برابر ہوتی رہتی تھی۔ وہ خطوط کیا تھے میرے لئے ایک گراں قدر سرمایہ تھا، جنہیں پلکوں پرسنبھال کر رکھا ہے۔ ان کے خطوط مزیدار، لذیذ، دلچسپ اور کارآمد ہوتے تھے۔ ان کا مزاج بھی یہ تھا کہ بے تکلفی سے باتیں کرتے ہوئے اچانک سنجیدہ گفتگو کرنے لگتے۔ مگرکہیں بھی انانیت کا شائبہ نہیں ہوتا تھا :
’’مونگ کی دال کی کھچڑی یا کدو اور ترئی کے سہارے کب تک آدمی فریضہ زوجیت ادا کرتا رہے گا یوں بھی ایک بزرگ کے قول کے مطابق بیس سے چالیس تک! جب جی چاہے، چالیس سے پچاس تک گاہے ماہے اور پچاس کے بعد جب اللہ چاہے‘۔
اس غیرسنجیدگی کے ساتھ ذرا یہ عبارت بھی ملاحظہ فرمائیے :
’’بھائی، میں ہنگاموں اور ہنگامہ آرائیوں سے دور رہنا چاہتا ہوں ۔ میرا شعبہ بہت چھوٹا ہے۔ اس لئے میں کوئی بڑی ذمہ داری اپنے سر لینا نہیں چاہتا ٹیچرس اسوسی ایشن کے سالانہ اجلاس کے لئے شکیل الرحمن سابق وائس چانسلر بہار یونیورسٹی مظفر پور نے شاید پچاس ہزار کی رقم یو، جی، سی، سے منظور کرائی تھی۔ ۔ ۔ اینڈ کمپنی کو نکالے جانے کا خطرہ تھا۔ انہوں نے بلاوجہ کانفرنس ملتوی کر دی مظفر پور والوں سے بات کی جائے تو وہ شاید اب بھی میزبانی کے لئے تیار ہوں گے۔ بہار میں ہو جائے تو اچھا ہو گا۔ گورنر کو مدعو کیا جاسکتا ہے یہ میری ذمہ داری ہو گی۔‘
یہ تو ذرا سنجیدہ مسائل آگئے۔ عموماً خطوط میں شخصیات کا تذکرہ رہا ہے ملاحظہ ہو :
’’ڈاکٹر صاحب (گیان چند) بہت نیک انسان ہیں ، ایسے ظرف والے اردو میں کہاں ۔ ہمارے یہاں تو کیا ہے کہ ہم چوں ماخرے نیست۔ بخدا آپ خوش نصیب ہیں ۔ میری صرف یہی خواہش پوری نہیں ہوسکتی کہ مجھے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا۔ حالات ہی ایسے رہے۔ الہ آباد آگئے تھے تو سوچا تھا کہ اب ان سے استفادے کے مواقع بکثرت ملیں گے۔ لیکن وہ تو پادر رکاب تھے۔ ادھر آئے ادھر جانے کا اعلان کر دیا۔‘
’’ڈاکٹر گورنجش سنگھ صاحب نہایت نیک نیت، ایماندار اور باحوصلہ آدمی ہیں ۔ میں انہیں پچھلے پندرہ برسوں سے جانتا ہوں ۔ انہوں نے اپنے شعبے کو یہاں زمین سے اٹھا کر آسمان پر بٹھادیا خدا کرے کہ انہیں ایک اور Term مل جائے تو آپ کی یونیورسٹی کے بنیادی کام مکمل ہو جائیں ۔ اردو کا الگ شعبہ قائم ہو جائے گا تو اچھا ہو گا۔‘
بعض جگہ ان کے بڑے تیکھے جملے ملتے ہیں ۔ ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’میں ہنگامہ پسند نہیں کرتا۔ ہنگاموں میں لوگوں کا دماغ خراب ہو جاتا ہے۔ وہ آدمی سے زیادہ پروفیسر بن کر رہ جاتے ہیں ‘۔
’’اردو کے نیم مردہ جسم میں اب جان تو ہم لوگ کیا ڈالیں گے لیکن اسے کفنانے دفنانے اور دھوم دھام سے جنازہ نکالنے کا اہتمام تو اردو والے کر ہی سکتے ہیں ۔ ابھی اتنے بے غیرت تو ہم نہیں کہ آخری رسوم کا کام دوسروں پر چھوڑ دیں ‘۔
’’محبت، عزت اور خلوص، دل کی چیزیں ہیں ۔ ان کا اظہار برسرعام کرنا ضروری نہیں ‘۔
ایک اور خط میں لکھتے ہیں :
بھئی میں میلے جمگھٹے کا آدمی نہیں ہوں ۔ مزید بریں اس میں وقت بہت برباد ہوتا ہے۔ پچھلے ایک دیڑھ ماہ میں آدھا وقت لکھنؤ کے چکر لگانے میں کٹا۔ اپنا پڑھنا لکھنا سب چھوٹ گیا ہے۔ پہلے بھی صدر شعبہ بن کر پچھتا رہا تھا۔ یہ ایک اور ڈھول گلے میں پڑگیا۔ ۔ ۔ اکاڈمی کا کام بہت بڑھ گیا ہے اور وہاں کوئی کام کرنا نہیں چاہتا۔ اردو کے نام پر کمانے کھانے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن اردو کا کام خلوص سے کرنے والوں کی شدید کمی ہے ۔ ۔ ۔ پیر و مرشد (گیان چند) کی خدمت میں آداب‘۔
ایک خط میں ان کے خاندانی حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے :
’’۲۵/ تا ۲۷/اکتوبر کو اردو اکاڈمی دلی کا امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد سمینار تھا۔ دو دن بعد وہاں سے قریب والد ماجد کی خدمت میں چلا گیا۔ چار سال قبل میری والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا تھا تب سے والد صاحب قبلہ کچھ بجھ سے گئے ہیں ۔ بات بات پر رونے لگتے ہیں ۔ اس لئے دلی جانے پر ان کے یہاں حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ پچھتر برس کی عمر ہے انہیں کئی بار کہا کہ میرے یہاں چلے آئیں ، لیکن وہاں گھر پر میرے چھوٹے بھائیوں کے چھوٹے بچے ہیں کچھ پرانے احباب ہیں اس لئے نہیں آتے۔ ایک بیٹی رہتک میں بیاہی ہے۔ رہتک دلی سے صرف ۳۵ میل ہے۔ وہاں جانا بھی ضرور رہتا ہے، منجھلی بیٹی آگرہ میں بیاہی ہے اورمیری اکلوتی بیوی کی اکلوتی والدہ ماجدہ بھی آگرہ میں ہیں ۔ وہاں بھی ایک پھیرا لگانا ضروری ہوتا ہے، پرانی عادت ہے کسی زمانے میں اس گلی کے پھیرے دن میں تین تین چار چار لگاتے تھے ۔اب برسوں میں ایک پھیرا ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ سعادت تو حاصل کرنا ہوتی ۔‘
اہلیہ سے غیرمعمولی وابستگی کا کئی خطوط میں اظہار کیا ہے۔ کچھ کے اقتباسات ملاحظہ ہوں ۔ لکھتے ہیں :
’’میرا بیٹا یہاں سے کام بند کرکے دہلی چلا گیا۔ اس کے ساتھ بیگم بھی چلی گئیں ۔ آج کل میرا حال بھی وہی ہے جو آپ کا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ دن کا کھانا کاتا نہیں ۔ رات کا کھانا قمر جہاں بنا کر بھیج دیتی ہیں ۔ لیکن گھر جاتا ہوں تو ’’بن گھرنی، گھر بھوت کا ڈیرا لگتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہو گیا ہے۔ بیوی کے بغیر ایک منٹ بھی جی نہیں لگتا۔‘
ایک اور خط میں لکھتے ہیں :
’’گھر میں دال بھی ہوتی ہے تو بیوی کے ہاتھوں سے مرغ کی کیفیت کی حامل ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ‘
ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’بھائی، یوں تو تینوں بیٹیاں ہی بیاہی گئیں ۔ اب گھر سونا سونا ہو گیا ہے۔ بیوی ایک آدھ بار ضرور رو دیتی ہے لڑکا ہے وہ اپنا اسکول جاتا ہے، کھیلتا کھاتا ہے۔ میں روزبستر دربغل اور پادر گاڑی رہتا ہوں ۔ مخدومہ اکیلی ہو جاتی ہے تو بہت اداس ہوتی ہے۔ میں نے کہا ہے کہ لڑکے کی شادی کرادیتا ہوں ۔ لڑکااور بہو دونوں پرھیں گے اور تمہاری خدمت بھی کریں گے۔ کہتی ہیں ابھی لڑکا دسویں میں پڑھتا ہے ابھی سے اس کی شادی کیسے کر دیں ۔ میں نے کہا کہ پھر تو صرف میں رہ جاتی ہوں ۔ کہو تو ڈھونڈ ڈھانڈ کے میں ہی ایک شادی کرلوں ۔ کہنے لگی کہ بڑھتے تمہیں ایسی باتیں کرتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ دو نواسوں اور ایک نواسی کے نانا، تین دامادوں کے سسر، منھ میں دانت نہ پیٹ میں آنت۔ اب شادی کرنے چلیں گے ۔ میں نے کہا میں تو مجبوری میں یہ شادی کروں گا ورنہ بھلی لوگ کوئی آدمی ایک بار شادی کرنے کے بعد کیا دوسری شادی کرنے کی ہمت یا حماقت کر سکتا ہے۔ میرا مقصد تو نیک ہو گا کہ تمہارا اکیلا پن دور ہو جائے۔! ابھی تک کچن سے تبرے وصول ہورہے ہیں ‘۔
ایک اور خط میں لکھتے ہیں :
’’مجھے بھاگ بھاگ کر دلی جانا پڑتا تھا۔ ۔ ۔ مہینوں کی تگ و دو کے بعد اب کہیں جا کر وہ روبصحت ہوئی ہیں ۔ ان کی جدائی میں میرا یہاں رہنا بہت ہی مشکل ہو گیا تھا۔ میں نے تو ساڑھے چار مہینے گھر کی کھڑکیاں ہی نہیں کھولیں ۔ بن گھرنی گھر بھوت کا ڈیرا لگتا تھا۔ ۔ ۔ ‘
خطوط میں جگہ جگہ میرے حال پر جو شفقت تھی اس کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ وہ عمر میں مجھ سے تین چار سال بڑے رہے ہوں گے لیکن صحت بہت اچھی تھی، اس لئے اپنی عمر سے کم نظر آتے تھے۔ کم ازکم دس برس پیچھے! لیکن میرااحترام کرتے تھے۔ جب میں نے سبب دریافت کیا کہنے لگے :
’’آپ نمازی پرہیزگار آدمی ہیں ۔ کبھی دخت رز کو ہاتھ نہ لگایا بلکہ کسی کی دخت کو ہاتھ نہ لگایا ہو گا۔ اپنی بیوی کو چھوڑکر ایسے آدمی کا احترام نہ کروں ؟ پھر آپ سید ہیں ۔ علی والے‘۔
بھائی عابد پیشاوری اور محترم ڈاکٹر عقیل صاحب کی طرح انہوں نے میری تسبیح خوانی کا کبھی مذاق نہیں اڑایا۔ یہ لوگ لبوں پر ’’بد بد‘ کہہ کر دوستانہ اندازمیں ہی سہی، میری اس عادت پر احتجاج کرتے رہتے تھے۔ نیر صاحب تسبیح خوانی سے خوش ہوتے تھے، نماز کے وقت تو اکثر ایسا لگتاتھا کہ بس اب وضو کرکے اور اللہ اکبر کہہ کر یا علی کا نعرہ لگائیں گے اور نیت کرلیں گے۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ مجھے مشورے بھی دیتے تھے کبھی کبھی بڑے خوبصورت انداز میں نصیحت بھی کرتے تھے۔ خطوط میں ’’محبی‘ ۔ ’’عزیز مکرم‘ یا صرف ’’مجاور صاحب‘ لکھ کر مخاطب کیا ہے۔ ایک خط میں ’’سید صاحب‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ کچھ ذاتی باتیں اور ان کا خصوصی انداز نصیحت ملاحظہ ہو :
’’بڑی مدتوں بعد خط ملا۔ میں نے دو خط بھیجے تھے، جواب سے محرومرہا تو سوچا کہ خط لکھنے میں آں حضرت یوں بھی سست تھے، اب صدر شعبہ بن گئے تو فرصت کہاں ۔ پہلے بھی لوگ گھیرے رہتے تھے، اب تو حوالی موالی تعداد میں کئی گنا ہو گئے ہوں گے کیونکہ صدر گھر سے یا دفتر سے جہاں سے بھی نکلتا ہے صدر کی حیثیت سے نکلتا ہے۔ اس کے ساتھ مجمع ہونا چاہئے تاکہ بہ وقت ضرورت حسب ضرورت زندہ باد یا مردہ باد کے نعرے لگاسکیں ۔ آپ کے خط سے لگتا ہے کہ آپ صدارت سے بیزار ہورہے ہیں ۔ اماں اس کے لئے تو لوگ سرگاڑی اور پاؤں پہیہ کےئے رہتے ہیں اور آپ ہیں کہ اسے سے بیزار ہو گئے اور وہ بھی اتنی جلدی۔ ہمیں دیکھو۔ پیدا ہوئے تو ہیڈ تھے اور مریں گے تو ہیڈ ہی کی کرسی پر۔ اسے چھوڑکر زندہ کے دن رہیں گے؟ اس لئے ریٹائر ہونے سے پہلے کچھ کھا کر کرسی پر لیٹ جائیں گے۔ شہید اردو کہلائیں گے اور صدر ہی مرجائیں گے کیونکہ میرے یہاں کؤی اس کرسی کو قبول نہیں کرتا۔ نقوی مقرر ہوئے بھاگ گئے۔ وہ تو اس کرسی پر بیٹھے ہی نہیں ۔ ڈاکٹر قمر جہاں بنیں تو دس پندرہ دنوں میں بھاگ گئیں ، بیس دن کی چھٹی لے کر بیٹھ گئیں اور وہیں سے استعفے وی۔ سی کو دے آئیں ۔ حالانکہ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ تجربہ کریں ، نزدیک سے بھی ڈھول کی کراہت انگیز آواز سنیں ، صبح سے شام تک میٹنگیں کریں اور وہاں لوگوں کی بے سروپا باتیں سنیں ، بہرحال مبارک باد۔ ۔ ۔ ‘
ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’کافی وقت آپ کے پاس رہتا ہے۔ کوئی سلیقے کی ایک اور کتاب لکھ ڈالو‘۔
ایک خط میں لکھا :
’’مجھے دعاؤں میں یاد رکھا کیجئے۔ آپ اللہ والے آدمی ہیں ۔ مولا سے ربط خاص رکھتے ہیں ، اس لئے درخواست کر رہا ہوں ۔‘
ایک جگہ ۱۹۸۵ء میں لکھا :
’’سرخے تو سب ہی لندن کی ہوا کھارہے ہیں ۔ آپ کیوں نہ گئے۔ اس وقت خوب ریوڑیاں بٹ رہی تھیں ۔ نام لکھوالیتے۔ نماز بھی پڑھتے رہتے اور سوڈا بھی پیتے رہتے۔‘
۳۱/جنوری ۱۹۹۰ء کے خط میں لکھتے ہیں :
’’آج یہاں آنے پر آپ کا خط ملا۔ آپ جذباتی آدمی ہیں ۔ دنیا داری آپ کو چھو نہیں گئی۔ یہاں چاروں طرف منافقت اور منافقین کا دور دورہ اور راج ہے اس لئے دوست نہیں بناسکتے دشمن تو نہ بنائیے۔ میں وہاں آجاتا تو دیکھتا کہ کیسے لوگ دھاندلی کرتے ہیں ۔ شیخ سعدی سے لوگوں نے پوچھا کہ ادب اور عقل کس سے سیکھیں ؟ مرحوم نے فرمایا کہ بے ادبوں اور کم عقلوں سے، مولا کے کرم سے۔ تم تو اب عقل کے تھیلے بھر بھر کر رکھ رہے ہو گے۔
’’مبارک ہو ۔ !‘
ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’جہاں افکار تو تقریباً پوری پڑھ ڈالی۔ ’’صدق عظیم‘ کے کچھ حصے بھی دیکھ ڈالے۔ ۔ ۔ ‘
پھر توصیفی کلمات ہیں ۔
ایک صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ممکن ہے وہ اس وقت تیسرے نکاح کے لئے ہاتھ پیر مار رہا ہو۔ ۔ ۔ ایک حیدرآباد میں ہو جانا چاہئے۔ شیعہ بھائی ہے مدد کیجئے۔ لیکن آپ تو خود پھڈی رہے۔ اب تک بیرنگ ہیں ۔ آپ کیامدد کریں گے۔
آپ کو حیدرآباد میں ڈھیروں وقت ملا۔ آپ نے کوئی ڈھنگ کا کام نہ کیا۔ نمازیں کام آئیں گی عاقبت میں ، دنیا میں ان کا صلہ کچھ نہیں ملتا۔ ۱) آپ تو کسی نواب یا جاگیردار کی بیوہ سے بھی نکاح نہ کر سکے یوں ہی بدنامی مول لی۔ ’’دنیا والے ہاں برداشت کر سکتے ہیں ۔ کوئی کارنامہ انجام دیتے تو کام یادگار رہ جاتا‘۔
وہ صبح اٹھتے تھے اور حفظان صحت کے اصولوں کا خیال رکھتے تھے۔ وہ اپنی مے پرستی کا چرچا ضرور کرتے تھے لیکن میرے سامنے اس شغل کا کبھی ایسا موقع نہیں آیا۔ حالانکہ اسی منحوس عادت نے ان کے جگر کے ٹکڑے کردئیے۔
فروری ۱۹۹۱ء میں اوسطر کا ایک خط ملا۔ لکھتے ہیں :
’’دو دن قبل ڈاکٹر محمود الحسن رضوی صدر شعبہ لکھنؤ سے معلومہوا کہ آپ پروفیسر ہو گئے۔ مبارک ہو، بہت بہت۔ میں آج شام کو سبکدوش ہورہا ہوں !‘
آخری دنوں میں تقریباً خط و کتابت بند رہی۔ آخری خط ۲۱/اکتوبر ۱۹۹۱ء کا ہے۔ پورا خط نقل کیا جارہا ہے۔ لکھتے ہیں :
مجمی مجاور صاحب۔ سلامباکرام
عزیزہ سمن سعید اور عزیزم امجد حسین کے نکاح مسنونہ کا دعوت نامہ بنارس میں ملا تھا۔ جو عزیز دعوت نامہ لائے تھے، انہوں نے میری حالت زار بتائی ہو گی۔
فارسی میں کہاوت ہے ’’یک پیری و صد عیب‘ مجھے پہلے ۲۵، ۳۰ برس میں یاد نہیں آتا، کہ میں کبھی اتنا اور ایسا بیمار پڑا ہوں ۔ جب کبھی کچھ ہوا تو ایک دن ہوا، دوسرے دن ٹھیک۔ لیکن اب کے تو بخار ہی نے میری کمر توڑ دی۔ ۸/اکتوبر کو الہ آباد میں تھا۔ رات کو بنارس پہنچا، ۹/اکتوبر کی شام کو بخار ہو گیا۔ ۱۴/ کو ڈاکٹر نے ٹائیفائڈ بتایا۔ علاج شروع ہوا، روزآنہ بخار کم ہونے لگا۔ یونیورسٹی بند تھی۔ ڈاکٹر قمر جہاں کو بھی گھر جانا تھا۔ اس لئے میں مولا کا نام لے کر ۱۷/اکتوبر کو گاڑی پر سوار ہوا۔ ۱۸/ کی صبح آگرہ پہنچ گیا، ۲۰/اکتوبر کو بخار پھر ۱۰۲ ہو گیا۔ مقامی ڈاکٹر کو دکھایا اس نے ندبح میں بھیج دیا۔ کئی قصاب چھریاں لئے تیار کھڑے تھے۔ کسی نے خون نکالا، کسی نے پیشاب ۔ بہرحال ٹھیک بھی ہو جاؤں تو ایک ماہ تک گھر سے باہر قدم نہ رکھوں گا۔ اس لئے میں اس تقریب مبارک میں شامل نہ ہوسکوں گا۔ یہی خط عزیزم امجد حسین کو بھی پڑھوا دیجئے گا۔ میری طرف سے دونوں خاندانوں کو اور نئے شادی شدہ جوڑے کو مبارک باد پیش کیجئے‘۔
یہ آخری خط تھا۔ اور ان کے خطوط کے ذریعہ جو تصویر بنا رہا تھا وہ یہیں ا کر رک جاتی ہے۔ گیارہ برس میں ان کے جو خطوط مجھے ملے تھے ان میں بہت ساری باتیں ایسی ہیں جن کا بیان نہیں کیا گیا۔ بچوں کے بارے میں اظہار خیال، لوگوں کے بارے میں اظہار خیال، بعض لوگوں کا تذکرہ بڑے سخت الفاظ میں کیاگیاہے۔ میں نے ان سے کئی لوگوں کی سفارش کی تھی۔ میں نے جس کام کے لئے بھی کہا انہوں نے بہرحال میری خواہش پوری کی۔ تین کی پروفیسری میں ان کا نمایاں کردار تھا۔ ایک کے بارے میں تو وہ یہی کہتے رہے کہ آپ پچھتائیں گے ۔ وہ بہت خفیف الحرکات آدمی ہے۔ کسی کو جھوٹا مکار وغیرہ کے خطابات سے یاد کیا ہے۔ ایک صاحب کے لئے لکھا ہے: ’’اس کو بقول شبیہ الحسن قرآن مجید کا ایک نسخہ بخط مصنف مل گیا ہے‘۔ وغیرہ وغیرہ۔ بعض جگہ ایسے معرکہ کے فقرے ملتے ہیں کہ روح بالیدہ ہو جاتی ہے۔ لکھتے ہیں :
’’جہالت کی پہلی نشانی اپنے علم کا غرور ہونا ۔ ۱)
غرور برا نہ لگے بشرطیکہ علم تو ہو، اس کا تو کہیں دور دور تک پتہ نہیں اور یونہی اکڑے چلے جاتے ہیں ۔ انکسار اولیں شرط ہے عالم کے لئے۔‘
۱) حضرت علی ؑ نے یہی تعبیر فرمائی ہے۔ شاید نیر صاحب نے وہیں سے مستعار لیا ہے۔
اکثر خطوط میں اعلیٰ درجے کے تدریسی مشورے دئیے ہیں ۔ لکھتے ہیں :
’’بھائی۔ وکنیات کی تعلیم شمالی ہند میں یکسر ختم ہوتی جارہی ہے۔ اب تو پڑھانے والا بھی کوئی نہیں رہا، ڈیڑھ دو صفحات کی نظم اور نثری اقتباسات پر مشتمل کوئی کتاب اچھی طرح سے مرتب ہو جائے تو کارآمد ہو گی، تنقید کی نام نہاد ترقی نے ہمیں اگر کچھ دیا ہے تو وہ یہ کہ ہماری تعلیم کو غارت کر دیا۔ کوئی شخص کہیں بھی متن نہیں پڑھاتا۔ موروثی نوٹس سے کام لیتا ہے۔ طالب علم بھی خوش ہو جاتا ہے کہ سستے چھوٹے، استاد کو بھی محنت نہیں کرنا پڑتی، درسی کتابیں نایاب تھیں ، میں نے کوشش کرکے بی۔ اے کے لئے چار کتابیں تیار کرائیں اور ایم۔ اے، کے لئے انتخاب قصائد اور انتخاب مراثی چھپ چکے ہیں ۔ آج کل غزلیات اور منظومات کے انتخاب کی کتابت ہورہی ہے۔ خطوط، خاکے، انشائیے کے انتخابات بھی تیار کروں گا، ایک ایڈیشن تیار ہو جائے تو اگلے ایڈیشن میں احباب کے مشوروں سے حذف و اضافے کا کام ہو گا، اس طرح کچھ اچھی اور سستی کتابیں طلباء کو مل جائیں گی۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس تو پورا سیٹ ہے اسے دیکھئے اور مشورہ دیجئے۔ درسی کتابوں کا ایک سٹ میں بھی آپ کے پاس بھجوادوں گا۔ دکنی ہند کی مثنویوں کا ایک انتخاب شائع کیا جاسکتا ہے۔ پوری پوری مثنویاں طویل ہوں گی، کوئی نہ پڑھائے گا۔ پھول بن اور وجہی کی مثنویوں کی تلخیص شروع میں کارآمد ہو گی۔ اعراب کا تعین کیا جائے اور سختی سے عمل درآمد ہوتا کہ صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھائی جاسکے لیکن صحیح متن میری دسترس سے باہر ہے۔
’’تلفظ کے معاملے میں ٹھوکریں کھاجاؤں گا‘۔
ایک اور خط ملا خطہ ہو :
’’میں نے ڈاکٹر صاحب قبلہ کو پچھلے خطوط میں لکھا تھا کہ آل انڈیا یونیورسٹی ٹیچرس اسوسی ایشن کا نام ’’اردو کانگریس‘ بروزن ’’سائنس کانگریس‘ کر دیا جائے تو بہتر ہو گا۔ ۔ اس میں سبھی محبان اردو شرکت کر سکیں گے۔ لیکن انہوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ بہرحال یہ باتیں تو اجلاس کے وقت سوچی جاسکتی ہیں ۔ پہلی ضرورت اس کا کہیں نہ کہیں اجلاس بلانے کی اور اس کے آئین میں کچھ بے حد ضروری ترمیمات کرنے کی ہے۔ کسی منصب دار کو دوسرے سشن میں عہدے پر نہ رہنے دیا جائے۔ کوشش یہ کی جائے کہ Seniority سے صدر پروفیسروں میں سے اور دو تین نائب صدر ریڈرس میں سے اور دو تین سکریٹری لکچررس میں سے لے لےئے جایا کریں ۔‘
ان خطوط میں بہت ساری شخصیات کا تذکرہ ہے اور بہت ساری اہم اطلاعیں جنہیں عام طور سے صیغہ راز سے تعبیر کیا جاتا ہے ان میں سے کچھ درج کی جاتی ہیں :
’’میں نے آپ کی اور ثمینہ کی رپورٹ بھیج دی ہے‘۔
ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’کل الہ آباد میں پروفیسر کا سلکشن تھا۔ جعفر رضا ہو گئلے۔ مبارک ہو۔ میں ، خواجہ احمد فاروقی اور ثریا حسین باہر سے گئے تھے‘۔
شخصیات میں وہ پروفیسر گیان چند سے بے حد متاثر تھے۔ آخری خط تک وہ جین صاحب کاتذکرہ کرتے رہے، کبھی استاذی لکھ کر، کبھی استاد لکھ کر، کبی پیرمغاں ، کبھی پیرو مرشد، بہت کم لوگ احترام کی اس وضعداری کو نبھاپاتے ہیں ۔
جین صاحب جب امریکہ سے واپس آئے تو مجھے نیر صاحب نے لکھا :
’’پیرمغاں کا کوئی خط نہیں ملا۔ وہ تو مکہ گئے، مدینہ گئے، کربلا گئے، خدا جانے کہاں کہاں ہو آئے آج کل روز کوئی نہ کوئی داستان سناتے ہوں گے۔ جنت ارضی سے ہوکر آئے ہیں جہاں حور طہور مقامی اور کھجور امپورٹیڈ سب کچھ افراط سے مل جاتا ہے، میں جب نابالغ تھا اس وقت امریکہ گیا تھا۔ آج بھی اس کے ذکر سے دل پر چھری سی چل جاتی ہے۔ غالب تو کلکتہ ہی دیکھ کر بیخود ہو گئے تھے میں نیاستاد کو لکھا ہے کہ روداد سفر ہماری زبان میں شائع کر دیں تو لوگ استفادہ کر سکیں ۔ کتابچہ لکھ دیں تو بات ہی اور ہو گی۔ وہ صات گو آدم یہیں سب کچھ کھول کر دکھادیں گے۔ ڈھکی چھپی کے قائل نہیں ۔‘
گیان چند کے علاوہ پروفیسر شبیہ الحسن نونہردی، پروفیسر محمود الٰہی، پروفیسر نارنگ کے معرف و مداح تھے۔ محمود الٰہی صاحب سے برادرانہ خلوص تھا۔ پروفیسر محمود الحسن سابق رفیق کار تھے، ان سے شفقت آمیز محبت کرتے تھے۔
اپنے رفقاء کار میں حنیف نقوی کے بارے میں یہ خیال تھا کہ ’’ٹناٹن‘ پڑھاتا ہے۔ ان کی وسعت مطالعہ کے بے حد مداح تھے۔ ظفر احمد صدیقی کی ذہانت اور دوسری زبانوں میں ادبیات پر ان کی گرفت کی توصیف کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر قمر جہاں کا جہاں بھی ذکر کیا ہے شفقت و محبت کے قلم سے لکھا ہے۔ ’’بیٹا قمر جہاں نے یوں خدمت کی، یہ کیا وغیرہ‘۔ ایک بار میں نے عرض کیا کہ صرف خدمت ہی کرتی ہیں اور بیٹا ہیں یا کچھ پڑھنے پڑھانے سے بھی دلچسپی ہے؟ کہنے لگے ’’تمام جامعات مے ں اردو کی تدریس میں کوئی خاتون اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی مجاور صاحب! وہ بہت پڑھی لکھی ہے‘۔ آخری جملہ ادا کرتے وقت ان کے چہرے پر وہ شفقی سرخی آجاتی تھی جو کسی باپ کے چہرے پر سگھڑ، سلیقہ مند اور باعظمت بیٹی کے تذکرے سے آجاتی ہے۔
میرے تمام شاگردوں سے وہ بہت مانوس تھے۔ ہر خط میں نام بنام دعائیں لکھتے تھے۔ عموماً لڑکیوں کو بیٹا کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ خصوصاً واجدہ فرزانہ ان کی بہت عزیز بیٹا تھیں ۔ ڈاکٹر رحمت علی خاں ریڈر حیدرآباد یونیورسٹی کے علمی شغف، ڈاکٹر بیگ احساس ریڈر عثمانیہ یونیورسٹی کی ذہانت اور خوش مزاجی اور ڈاکٹر انوار الدین ریڈر حیدرآباد یونیورسٹی کے تدبر وفراست کے بہت مداح تھے۔
اب آخری بات ان کے عقائد کے سلسلے میں رہ جاتی ہے وہ روہتک کے رہنے والے تھے۔ ہندو خاندان میں پیدا ہوئے سچی ہندوستانی تہذیب کے پروردہ بھی تھے اور نمائندہ بھی۔ عقائد کی بات صرف اس لئے کی جارہی ہے کہ آگے چل کر انہیں بھی کوئی چھنولال دلگیر کی طرح مسلمان نہ ثابت کرنے لگے۔
ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’سلکشن کمیٹ یمیں جعفر رضا، منظر عباس نقوی اور میں یعنی ڈھائی شیعہ‘۔
ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’سورج سوا نیزے پر ا کر رکا ہوا ہے، ذراسا اور سر کے تو انا للہ و اناالیہ راجعون کا نعرہ بلند ہو۔ یا علی، یا علی، یا علی، کرا چلا جائے وہ‘۔
اسی طرح اکثر خطوط میں مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں مولا کے واسطے سے ان کے لئے دعا کروں ۔ اپنے لئے لکھا ہے کہ مولا کا نام لے کر یہ کام شروع کر دیا۔ لیکن اب دوسرا رخ ملاحظہ ہو۔ لکھتے ہیں :
’’مرنا گھر ہی پر چاہتا ہوں ورنہ ساتھ کے کاغذات اور سازو سامان سے لوگ سمجھیں گے کہ مسلمان ہیں اور دفنا دیں گے، پھر قیامت کا انتظار رہے گا۔ خدا جانے قیامت کب آئے۔ میرے عقیدے کے مطابق تو اسی پل لوٹ آنا ہے، اس قسم کے اعمال کے پیش نظر سزاء نہ ملے گی جزاء ملے گی۔ میں نے ہر طرح سے خدمت کی ہے۔ کسی کو مجھ سے گزند نہ پہونچی ہو گی۔‘
اس خط پر ۱۰/اکتوبر ۱۹۸۶ء کی تاریخ درج ہے۔ اب ۳۱/جنوری ۱۹۹۰ء کے خط سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’موت سے نہیں ڈرتا۔ سفر میں اس سے ڈرتا ہوں کہ میرے اس تمام لوازمات ایسے ہوتے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ مومن ہوں ۔ پاکستان بنا تھا تو اس وقت مارے ڈر کے مسلمانی بھی کرالی تھی۔ مردے کو دیکھیں گے تو بلا چوں و چرا دفنا دیں گے۔ میاں کب قیامت آ:ے گی اور کب جہنم میں ہی سہی بھیجیں گے، اپے عقیدے کے مطابق تو اسی دن دندناتے واپس اسی جنت میں آجائیں گے۔ اب کے تو ہندو یونیورسٹی میں نہ جاؤں گا الہ آباد جاؤں گا۔ علی گڑھ جاؤں گا لیکن ہندوؤں کی یونیورسٹی میں نہ جاؤنگا، عثمانیہ میں یا حیدرآباد میں بھیج دیں تو کیا کہنے۔‘
یہ ہیں اس شخصیت کے کچھ نقوش جو بہرحال اپنے عقیدے کے مطابق تدریس کے خدمات انجام دینا چہاتا تھا۔ دوسرے جنم میں بھی۔
ان کی تصانیف میں دو کتابیں بہت اہم ہیں ۔ ایک ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ جو درگاہ سہائے سرور جہان آبادی پر ہے اور دوسری کتاب ’’اردو کے ادبی مسائل‘ ان میں پہلی کتاب سے بہت سارے البناسات دور ہوتے ہیں ۔ بالخصوص پیارے لال شاکر میرٹھی کا بت ٹوٹتا ہے اور ان کی ادبی فریب کاریوں کے بارے میں اہم معلومات فراہم ہوتی ہیں ۔ خود سرور کے بارے میں بے حد اہم معلومات اکٹھا کی گئی ہیں ۔ یہ وہی شاعر ہے جس نے محسن الملک کی رحلت پر نظم لکھی۔ اقبال کو بلبل پنجاب کہا اور وطن کو مخاطب کرکے یہ شعر لکھا
گنگا نہائے شیخ اگر تیرا اذن ہو
گر تیرا حکم ہو تو برہمن کرے وضو
’’اردو کے ادبی مسائل‘ میں انہوں نے پرانے ریکارڈ سے یہ ثابت کیا کہ اپریل ۱۹۰۰ء میں اردو کے ساتھ زیادتی کی پہلی اینٹ رکھی گئی۔ اس میں ان کا دو معرکتہ الآراء مضمون بھی ہے جو تقریباً اردو کے ہر خدمت گار کو یدا ہے۔ الہ آباد کے اخبار ’’لیڈر‘ میں ان کا ایک جواب شائع ہوا تھا، اردو پر دو اعتراض کئے جاتے تھے: (۱) یہ بدیسی زبان ہے (۲) یہ ہندی کی ایک شیلی یا اسٹائل ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ دونوں باتیں بیک وقت درست نہیں ہوسکتیں ۔ اگر اردو بدیسی زبان ہے تو ہندی کی شیلی کیسے ہوسکتی ہے۔ کیا ہندی بھی بدیسی زبان ہے۔ اگر وہ ہندی کی شیلی ہے تو پھر وہ بدیسی زبان نہیں ہوسکتی۔ پہلے اعتراض کرنے والے اپنا دائرہ فکر متعین کرلیں ، پھر ہم سے جواب سنیں ۔
اکثر جلسوں میں انہوں نے یہی تقریر کی جو ان کے اسی مضمون سے ماخوذ ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ’’سیاست دانوں پر بھروسہ کرنا نادانی ہے۔ اردو کا مسئلہ خود اردو والوں کو طئے کرنا ہے لسانی جارحیت کہیں نہیں پنپ سکتی۔ میں جب بنگلہ دیش کا ذکر کرتا ہوں تو لوگ بغلیں بجاتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ لسانی جارحیت کہیں بھی ہو، انجام وہی ہو گا۔‘
وہ کہا کرتے تھے کہ ’’ہم اپنا گھر درست کریں ۔ اردو کی تعلیم پر توجہ دیں ‘۔ ان کا خیال تھا کہ ’’اردو کو انگریزی ہندی یا فارسی عربی کی بیساکھی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ خود آزاد اور زندہ زبان ہے کوئی ضروری نہیں کہ ہر ’’خر‘ پر اردو کی کتاب لاد دی جائے‘۔
انہوں نے بہت سارے متون مرتب کئے۔ بعض میں بہت سی غلطیاں رہ گئیں ۔ وہ شروع سے مرتب متن کی دشواریوں سے باخبر تھے۔ چاہتے تھے کہ لوگ ہاتھ بٹائیں ۔ مگر بہت کم لوگوں نے ساتھ دیا۔ انجام کاری ساری غلطیاں رہ گئیں اور لوگ بھی اس وقت اعتراض کرنے اٹھے جب وہ آگرہ میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے۔
انہیں شعر کا مطلب پوچھا بہت اچھا لگتا تھا، انہیں لسانیات سے خاص شغف تھا۔ فارسی ادبیات کے معلم بھی رہے اور شعبہ فارسی سے منسلک بھی رہے۔ بوقت ضرورت کسی اہل زبان کی طرح فارسی میں گفتگو بھی کرلیتے تھے۔ تحقیق و تنقید ان کا میدان نہ تھا۔ وہ صرف تدریس کے آدمی تھے۔
’’صحیح متن کی بازیافت‘۔ ’’قرأت و تدریس‘ پہلے یہ ہو جائے تب جارج کی اروی چھیلے اور ایلیٹ صاحب کا آملیٹ بنائیے۔ ارے یہاں پہلے غالب کا شعر صحیح پڑھنا تو سیکھ لو، اس کا مطلب تو معلوم کرلو۔ پھر روس سے امریکہ تکا سفر کرنا۔
ادب میں ’’تحریکات‘ سے بیزار تھے۔ ان کے خیال میں اس سے ادب کو نقصان پہونچتا تھا۔
زبان میں شین قاف کی درستی کے لئے اردو کے ہر طالب علم کو تھوڑی سی سہی مگر فارسی ضرور سیکھنی چاہئے۔ اس کے ساتھ اتنی قواعد ضرور آئے کہ مبتدا اور خبر سے تو واقف ہو۔
ڈاکٹر نہال احمد صدیقی نے بتایا کہ یو، پی بورڈ کی میٹنگوں میں وہ نصاب کی درستگی اور معقولیت کے لئے سرگرم رہے۔
ان کا خیال تھا کہ سیاسی طور پر نعرہ بازی کے بجائے عوامی سطح پر اردو کی ابتدائی تعلیم کی طرف ہر اردو والے کو رضاکارانہ طور پر توجہ دینا چاہئے۔
یہ اس شخص کے تصورات و خیالات تھے جو صرف اور صرف اردو کا آدمی ہوکر جیا اور جو چاہتا تھا کہ وہ لوگ جو نقاد اکبر اور محقق اعظم بننا چاہتے ہیں وہ پہلے مدرس بنیں ۔ انہوں نے ایک ایسے محترک کا کام کیا جس سے بہت سارے لوگوں کوپڑھنے پڑھانے کا حوصلہ ملا۔ ادبی فضا کی تخلیق میں سرگرم حصہ لینے والوں میں وہ سے ایک تھے۔ بنارس یونیورسٹی میں مولوی مہیش پرشاد کی روایات کو آگے بڑھا کر انہوں نے شعبہ اردو میں جو روایت سازی کی اسے ایک وقار عطا کیا۔
کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ علم شاید مقصود بالذات نہیں ہے بلکہ ذریعہ ہے انسانی شخصیت کو نکھارنے اور سنوارنے کا۔ علم تھوڑا ہو لیکن شخصیت کا جز وہو۔ نیر صاحب کو دیکھ کر اس خیال کو تقویت ملتی تھی۔ انہوں نے دستار علم کی نمائش نہیں کی بلکہ قبائے اخلاق کوپہن کر یہ سمجھایا کہ وہ علم جو انسانوں میں فساد پیدا کرائے، جہل سے بدتر ہے۔ انسانیت سب سے بڑا علم ہے۔ اپنے اپنے عقیدے پر قائم رہ کر ایک دوسرے کا احترام کرنا ہندستانیت ہے۔
مجے ان کی موت کی اطلاع محترم پروفیسر اشرف رفیع (جن کی وہ بہت قدر کرتے تھے) کے ذریعہ ملی۔ میں اس وقت حیدرآباد میں تھا بہت دنوں تک سکتہ سا طاری رہا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیسے لکھوں اور کیا لکھوں ۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ لوگ مجھے ماتم پر سے کا خط لکھیں گے۔ ! لیکن سناٹا رہا۔ گذشتہ سال ستمبر میں ان کا انتقال ہوا۔ اکتوبر نومبر ذاتی الجھنوں میں گزر سے اور ڈسمبر سے ان کی موت کے بعد سے ایسے حالات ہوئے کہ زندگی کا اندھیرا بہت بڑھ گیا۔ ایک نیر کی ضرورت آج پھر ہے۔ شاید وہ اپنے عقیدے کے مطابق اندھیروں سے لڑنے کے لئے اپنی کرنوں کو سمیٹ رہے ہوں گے وہ ایک بار پھر طلوع ہوں گے۔ یقینا وہ مرے نہیں ہیں ، بس اوجھل ہو گئے ہیں ۔ شاید انہیں کے لئے یہ کہا گیا ہے۔
ہرگز نیرو آں کہ شود زندہ شد زعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام کا
٭٭٭