صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
یا حیرت
مظفر حنفی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
جہاں زمیں ہے وہاں آسماں بھی پڑ تا ہے
یہ پردہ تیرے مرے درمیاں بھی پڑ تا ہے
کوئی بتائے سفینے جلانے والوں کو
کہ اک اَنا کا سمندر یہاں بھی پڑ تا ہے
مزا تو آتا ہے مرمر کے زیست کرنے میں
کبھی کبھار یہ سودا گراں بھی پڑ تا ہے
حسین چہروں پہ ہم سینک لیتے ہیں آنکھیں
بلا سے کم نظری کا دھواں بھی پڑ تا ہے
اب اتنا خوش بھی نہ ہو ڈھا کے چار دیواریں
بدن فصیل میں اک شہرِ جاں بھی پڑ تا ہے
ترے نثار، کچھ اتنا کیا ہے سر افراز
کہ سرے سے نیچے ترا آستاں بھی پڑ تا ہے
میں اپنی ذات کی پیچیدگی سے عاجز ہوں
اسی میں ورطۂ کون و مکاں بھی پڑ تا ہے
٭
مدافعت میں بھی تلوار اگر اٹھاتا ہوں
تو بے قصور کہاں ہوں کہ سر اٹھاتا ہوں
خفا ہیں اہلِ فلک میری چیرہ دستی پر
ستارے بو کے زمیں سے ضر ر اٹھاتا ہوں
مِرا کمالِ ہُنر میری صاف گوئی ہے
صعوبتیں بھی اسی بات پر اٹھاتا ہوں
ثمر بدست شجر پر چلائے تھے پتھر
گِرے ہیں پھل تو انھیں چوم کر اٹھاتا ہوں
اگرچہ دل پہ ٹپکتی ہے یاد کی شبنم
خفیف ہوں کہ دھواں رات بھر اٹھاتا ہوں
گزر گیا وہ بگولہ، وہ ریت بیٹھ گئی
میں بیٹھتا ہوں نہ رختِ سفر اٹھاتا ہوں
سخنوروں میں مظفرؔ کو سُرخ رو رکھیو
ترے حضور کفِ بے ہنر اٹھاتا ہوں
٭٭٭٭٭٭٭٭