صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


وہ دیا بھی نہیں رہا

اعتبار ساجد

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

غزلیں


تھی جس سے روشنی ، وہ دیا بھی نہیں رہا

اب دل کو اعتبارِ ہوا بھی نہیں رہا


تو بجھ گیا تو ہم بھی فروزاں نہ رہ سکے

تو کھو گیا تو اپنا پتہ بھی نہیں رہا


کچھ ہم بھی ترے بعد زمانے سے کٹ گئے

کچھ ربط و ضبط خدا سے بھی نہیں رہا


گویا ہمارے حق میں ستم در ستم ہوا

حرفِ دعا بھی ، دستِ دعا بھی نہیں رہا


کیا شاعری کریں کہ ترے بعد شہر میں

لطف کلام ، کیفِ نوا بھی نہیں رہا

٭٭٭


کوئی رُقعہ نہ لفافے میں کلی چھوڑ گیا

بس اچانک وہ خموشی سے گلی چھوڑ گیا


جب دیا ہی نہ رہا،خوف ہو کیا معنی؟

خالی کمرے کی وہ کھڑکی بھی کھلی چھوڑ گیا


گونجتے رہتے ہیں سناٹے اکیلے گھر میں

در و دیوار کو وہ ایسا دُکھی چھوڑ گیا


 بس اُسی حال کی تصویر بنا بیٹھا ہوں

مجھ کو جس میں وہ میرا سخی چھوڑ گیا


پہلے ہی درہم دینار محبت کم تھے

اک تہی دست کو وہ اور تہی چھوڑ گیا


کہیں تنہائی کے صحرا میں نہ پیاسا مر جاؤں

جانے والا مری آنکھوں میں نمی چھوڑ گیا

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول