صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ہزار سال کے قدیم ترین وثائق
قرآن کی روشنی میں
مولانا سیّد مناظر احسن گیلانی
ؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
تمام
دینی نوشتے جو خالق کی طرف منسوب تھے ان سب کو "اساطیر الاوّلین"( بڑھیوں
کی کہانیاں) یا میتھالوجی ٹھہرا کر بصدِ بے باکی و گستاخی یورپ نے علم کی
جدید الحادی نشاء ة میں اس دعوے کی بدبو سے سارے عالم کو متعفن بنا رکھا
تھا کہ مذہب اور دین کے سلسلے میں بنی آدم کا ابتدائی دین شرک تھا،
سمجھایا جاتا تھا کہ کم عقلی کی وجہ سے ہر ایسی چیز جس سے ہیبت و دہشت کے
آثار پیدا ہوتے تھے یا جنہیں دیکھ کر لوگ اچنبھے میں مبتلا ہو جاتے تھے
فطرت
کے ان ہی مناظر کے سامنے آدم کی نا تراشیدہ عقل نے سر جھکا دیا۔بجلی،
بادل، سورج، چاند، سانپ، ہاتھی، سانڈ وغیرہ چیزوں کی پوجا کے متعلق ہر بڑی
چھوٹی کتاب خواہ کسی فن اور علم میں لکھی گئی ہو اپنی اس لحافی [یہ ایک
شخصی اصطلاح ہے مطلب یہ ہے کہ ماضی کے ایسے حوادث و واقعات جن کے متعلق
صحیح مواد ہمارے پاس نہ ہو۔ جہل کا اقرار و اعتراف بھی صحیح علمی طریقہ ان
امور کے متعلق ہوسکتا ہے مگر وسوسہ کی خارشت (سرشت)سے مجبور ہو کر بعض لوگ
کچھ نہ کچھ رائے ان کے متعلق قائم کر لینا ضروری سمجھتے ہیں ورنہ اپنی
ذہنی کھجلاہٹ سے سکون کی کوئی صورت ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔آسان راستہ اس
سلسلے میں بھی ہے کہ '' لحاف اوڑھ کر پلنگ پر دراز ہو جائے ''اور وسواسی
تُک بندیوں سے کام لے کر کوئی رائے قائم کر لے۔ ماضی ہی نہیں بلکہ مستقبل
کے متعلق بھی نتائج اور آراء جن کا چرچا عوام میں پھیلا ہوا ہوتا ہے۔
تحلیل و تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر لحافیاتی مقدمات ہی سے ان
نتائج و آراء کے استنباط میں کام لیا گیا ہے۔] توجیہ کے تذکرے کو مغربی و
مستغرب مصنفین نے ایک قسم کا پیشہ بنا لیا تھا اور شاید کچھ لوگ اب تک
بنائے ہوئے ہیں۔
باور کرایا جاتا تھا کہ مشرک انسان عقلی
ارتقاء کے ساتھ ساتھ اپنے معبودوں کو بھی بدلتا چلا گیا تآنکہ آخری نقطہ
جہاں تک پرانی دنیا کی عقل پہنچ سکی تھی "خدائے واحد " کا تخیّل تھا، حاصل
یہی ہوا کہ توحید عہدِ قدیم کے عقلی ارتقاء کا نتیجہ ہے اور اب جدید دور
میں انسانی عقل ترقی کے جس زینے پر پہنچ چکی ہے اس نے اس " ایک خدا" کی
ضرورت کے خیال کو بھی ختم کر دیا۔ اس آخری حاصل کو سطروں میں تو جگہ نہیں
دی جاتی تھی لیکن جو طریقہ بیان اس مسئلہ میں اختیار کیا گیا تھا اور جس
معصومانہ سادگی اور خالص علمی لب و لہجہ میں شرک کے پیٹ سے توحید کو
نکالنے کی کوشش کی جاتی تھی اس کا لازمی نتیجہ یہی تھا کہ شعوری یا غیر
شعوری طور پر آدمی کا ذہن " انکارِ خدا" کے نقطہ پر پھسل کر خود پہنچ جائے
گویا بجائے " سطور" کے دل کی بات " بین السطور" میں بڑے احتیاط کے ساتھ
کھپانے والے کھپا دیا کرتے تھے۔ انیسویں صدی کے عام ادبیات میں اس عجیب و
غریب مسئلہ کو کچھ ایسے شاطرانہ طریقہ سے سان دیا گیا تھا کہ بڑے بڑے
دینداروں، مذہب کے علمبرداروں تک کو بھی اسٹیج ہی نہیں بلکہ ممبروں سے بھی
دیکھا جاتا تھا کہ "دین کی تشریح " اسی راہ سے کر رہے ہیں حیرت ہوتی تھی
کہ آدم و حوّا کا قصہ جو کم از کم سامی مذاہب کا ایک عام مشترک قصّہ تھا
اس قصے میں انسانِ اوّل حضرت آدم علیہ السّلام کا سامی مذاہب کی تمام
کتابوں میں جن خصوصیتوں کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے ان کو مانتے ہوئے لوگوں
کے دل میں یہ بات کیسے جاتی تھی کہ ہمارے باپ دادوں نے شرک سے شروع کر کے
توحید کو اپنا دین بنایا ہے جس آدم اور حوّا کے حالات سے ہمیں آسمانی
کتابوں میں روشناس کرایا گیا ہے وہ اتنے گئے گزرے نہیں معلوم ہوتے کہ
سانپ، بچھو، آگ اور پانی۔ بجلی اور بادل جیسی چیزوں کو پوجتے ہوں۔٭٭٭