صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
وطنیات
پروفیسر سید مجاور حسین رضوی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اودھ میں ادبی صناعی
صناعی تخلیقی ہنر ہے۔ تخلیق کے تین مارج ہیں :
(۱) تخلیق محض (۲) ایجاد یا انوکھا پن یعنی بدیع (۳) بیان اور اس کا حُسن
یہی حُسن، ایجاد و انوکھے پن سے مل کر اور تناسب و فن پیدا کرتا ہے جسے صناعی کہا جاتا ہے۔
اگر
کائنات کی حقیقت پر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہو گا کہ خدا وند عالم خالق
بھی ہے، بدیع المساوات و الارض بھی ہے اور صابغ مطلق بھی ہے، اس کی صناعی
کا ایک کرشمہ وہ ہے جسے حُسن کا نام دیا جاتا ہے۔
ادبی تخلیق میں بھی
جو حُسن ہوتا ہے وہ صناعی کار ہیں منت ہوتا ہے۔ صناعی میں بیان کی وہ
نزاکتیں بھی ہوتی ہیں جنہیں تشبیہ، مجاز استعارہ اور کنا یہ ہتے ہیں او
رالفاظ کا وہ آہنگ بھی ہوتا ہے جو نجم الغنی کے مطابق ’’کلام میں ایسی
خوبی پیدا کرتا ہے کہ کانوں کو بھلا معلوم ہو اور دل میں اثر کر جائے‘۔
یہاں اتنا اضافہ ضروری ہے کہ الفاظ کے وجود اور پیکر کا احساس قوت حاسہ ہر
طرح کرتی ہے ہم بولتے ہیں تو ساخت کو محسوس کرتے ہیں ، کبھی کبھی تو اس کا
ذائقہ چکھنا پڑتا ہے۔ سنتے ہیں تو ناگواری اور خوش گواری کی منزلوں سے
گزرنا پڑتا ہے۔ دیکھتے ہیں تو کمرخمیدہ دال (د) یا چیں برجیں تشدید ()
خوبصورت بالوں کی چوٹی والی میم (م) یا زلفوں والا لام (ل) ان سب کی شکلیں
بھی ایک دوسرے سے مل کر مخصوص صوری پیکر تیار کرتے ہیں ۔
ادب انسانی
احساسات کا وہ دھند لگا ہے جہاں الفاظ سے معنی روشنی میں آجاتے ہیں ۔ عمل
فن کا مطالبہ کرتا ہے اور یہ فنکاری حُسن پیدا کرتی ہے اور ا نہیں محاسن
سے صناعی وجود میں آتی ہے۔
ادبی تخلیق میں سب سے اہم الفاظ ہوتے ہیں
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ الفاظ ہوتے ہیں حالانکہ ابن محتیبہ نے چار
صورتیں بتائی ہیں ، لفظ و معنی اچھے ہوں ، لفظ اچھے ہوں ، معنی اچھے نہ
ہوں ۔ معنی اچھے ہوں لفظ اچھے نہ ہوں ، لفظ و معنی دونوں اچھے نہ ہوں ۔
لیکن اس بیان سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ابن قتیبہ کے نزدیک لفظ الگ کوئی چیز
ہے اور معنی الگ کوئی شئے ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ دراصل لفظ کا استعمال ہی معنی
کی تخلیق کرتا ہے اور یہی لفظ اپنی ترتیب سے جہاں معنی آباد کرتے ہیں ۔
جس
کے پاس جتنے زیادہ الفاظ ہوتے ہیں اتنا ہی اس کی معلومات زیادہ ہوتی ہیں
اور کسی حد تک علم بھی زیادہ ہوتا ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو لفظ ہی سب کچھ
ہیں ۔
دکن، لفظ ہی تھا جس سے یہ دنیا وجود میں آئی۔ اس سے زیادہ لفظ
کی اور کیا اہمیت بیان کی جاسکتی ہے۔ ا نہیں لفظوں کے استعمال سے محاسن
اور مقام پیدا ہوتے ہیں اور انہیں محاسن کو صناعی کا ایک رخ سمجھا جاتا ہے
ورنہ صناعی میں تو سب کچھ شامل ہے۔ علم بیان بھی، علم بدیع بھی، عروض بھی
اور جتنے اسالیب یا طرز ادا ممکن ہیں وہ سب بھی اس لئے یہاں جب صناعی یا
صنعت کا لفظ استعمال کیا جارہا ہے تو اس مفہوم ہے وہ محاسن جو لفظ کے
استعمال سے کلام کے ظاہر و باطن میں پیدا ہوتے ہیں ۔
ادب کا دو رخ
جہاں محاسن کی تلاش ہونا چاہئے تھی وہ اس کا کڑھے ہوئے علم اور کلاسیکی
ادب سے شناسائی اور تربیت یافتہ ذوق کا مطالبہ کرتا تھا، ان دونوں کے لئے
جگر سوزی کی بھی ضرورت تھی ارو ایک خاص طرح کی لطافت ذہنی کی بھی۔ اگرچہ
ہمارے اکثر بزرگ صناعی سے خوش نہیں تھے۔ ا مداد امام اثر نے اسے
’’ڈھکوسلا‘ کہا ہے۔ شبی جیسے متواز. ذہن رکھنے والے نے بھی ایک جگہ لکھا
ہے کہ : ’’انیس جس شاعری کو زندہ رکھنا چاہتے تھے اس کے چہرے پر صنائع اور
بدیع کے داغ ہیں ‘۔
ایک گہ اور لکھا ہے کہ ’’صنائع بدائع شاعری اور
انشاء پردازی کا دیباچہ زوال ہے‘۔ مسعود حس رضوی ادیب نے انیسیات میں
نہایت عالمانہ انداز میں انیس کے کلام میں محاسن شاعری کی تلاش ی لینک یہ
بھی لکھ گئے کہ :
’’صنعتوں کا استعمال بذات خود ش اعری نہیں ہے۔ ۔ ۔
کچھ صنعتیں ایسی بھی ہیں کہ ان کا استعمال بذات خود ایک مشکل صنعت ہے۔ ۔ ۔
ان صنعتوں کے استعمال کا ملکہ اور چیز ہے اور شاعری اور چیز ہے جو صناع ان
صنعتوں میں کمال رکھتا ہے وہ شاعر نہیں بلکہ ایک طرح کا بازی گر اور شعبدہ
باز ہے‘۔
اس سلسلے میں حالی کا بھی ایک اقتباس ملاحظہ ہو، کھانے کی مثال سے بات سمجھاتے ہیں :
’’مفید
ہو، لذیذ ہو، جز و بدن بننے کے لائق ہو۔ بوباس، رنگ روپ بھی اچا رکھتا ہو۔
اگر باوجود ان سب باتوں کے چینی کے باسنوں میں کھایا جائے تو اور بہتر ہے‘۔
ہمارے
بزرگوں کے لئے ساری مشکل یہی تھی کہ وہ صناعی کو چینی کا باسن یا نفس
شاعری سے الگ کوئی چیز سمجھتے تھے ۔ لوگوں کے خیال میں صناعی کی مثال زیور
کی سی تھی، جسے کہیں سے لا کر عروس شعر کو پنہا دیا جاتا تھا لیکن حقیقت
یہ تھی کہ صنعتیں کہیں باہر سے نہیں لائی جاتی تھیں ، الفاظ کی نشست ان کے
در و بست سے پیدا ہوتی تھیں ۔ یہ دراصل کھانے کا رنگ ، بوباس اور کسی حد
تک ذائقہ تھا۔ چینی کا باسن تو وہ ہیئت تھی جس ہیئت میں تخلیق پیش کی جاتی
تھی۔
دراصل صنعت خود الفاظ کے اندر ہی موجود ہوتی ہے۔ لفظ کا استعمال
بہت سارے امکانات کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ عام آدمی جب کوئی لفظ استعمال
کرتا ہے تو بات وہیں ختم ہو جاتی ہے، سارے امکانات ختم ہو جاتے ہیں ، لیکن
تخلیق کار جب کوئی لفظ استعمال کرتا ہے تو وہ بہت سارے امکانات کی طرف
متوجہ کرتا ہے۔
قواعد اور صناعی میں یہی فرق ہے ۔ قواعد یہ تو بتادے
گی کہ یہ لفظ اسم ہے، صنعت ہے، فعل ہے، باہمی الفاظ یا حروف میں کیا رشتہ
ہے۔ مضاف مضاف الیہ، جار مجرور، صفت موصوف وغیرہ۔ لیکن صناعی یہ بتاتی ہے
کہ لفظ میں کتنی گہرائی ہے۔ اس میں کہاں تک وسعت ہے وہ دوسرے لفظ کے ساتھ
کس حد تک نبھا سکتا ہے، پوشش سے چھینٹ کی گل کاری تو اچھی لگی مگر پوشش
ھدر بہت گاڑھا معلوم ہوا۔
باکل انسانوں کی طرح لفظ بھی ایک دوسرے سے
مل کر رہتے ہیں اور جب ان کی دوسرے لفظ سے نہیں نبھتی تو ’’زیر قدم سے
والدہ فردوس بریں ہے‘ جیسے مصرعے وجود میں آتے ہیں ۔ الفاظ میں ایک دوسرے
کے ساتھ تصادم اور تعاون ہوتا رہتا ہے اور ان کی ترتیب یں جب کسی طرح کا
حُسن آجاتا ہے تو کبھی معنی چمک اٹھتے ہیں اور کبھی انہیں کا ب اہمی میل
ملاپ مکمل تخلیق کو چمکا دیتا ہے۔
ان محاسن کی طرف ۲۷۴ھ میں عبداللہ
بن معتز عباسی نے توجہ دی۔ اس نے سترہ محاسن شمار کےئے۔ ابونصر علی بن
احمد طوسی نے بھی اس موضوع کی طرف متوجہ کیا۔ مولوی شمس الدین کی ’’حدائق
البلاغت‘ اس سللسے میں اہم کتاب سمجھی جاتی ہے لیکن اردو میں کہا جاتا کہ
خوب محمد چشتی نے ’’بھاو بھید‘ علم بدیع پر کتاب لکھی۔ منشی رنچھور داس
جونپوری نے ۱۱۳۵ھ میں ’’حقائق الانشائ‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھا جس میں
ثر میں صناعی پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سچ یہ ہے کہ بحرالفصاحت میں
نجم الغنی نے ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے موتی بکھیرے ہیں ۔ ا ہنوں نے کل
ایک سو گیارہ یعنی ستاون صنائع لفظی اور چون صنائع معنوی پر روشنی ڈالی ہے۔
عزیزی
ڈاکٹر رحمت علی خاں نے اپنے غیرمطبوعہ تحقیقی مقالے میں تین صنعتوں کا
اضافہ کیا۔ عزیزی ڈاکٹر محبوب عالم انصاری نے مزید تین صنعتیں دریافت کیں
۔ اس طرح ان کی تعداد ایک سو سترہ ہو گئی ہے۔
لیکن اس سے بڑا المیہ
اور کیا ہو گا کہ چھتیس کے بعد سے نقد ادب میں محاسن کی تلاش بے سود سمجھی
گئی۔ شعر میں سماج اور عوام، ہل بیل، مل، چمنی وغیرہ وغیرہ تلاش کےئے جانے
لگے۔ ادبی معیاروں پر ادب کی تفہیم زیاں کاری اور سود فراموشی کی علامت
سمجھی گئی۔ اسلوبیاتی تنقید یا سا ختیاتی تنقید نے تعبیر تشریح تجزیہ اور
تفہیم میں محاسن کی تلاش نہ فعل عبث بنادی کبھی کبھی عض مدرسین امتحان کے
پرچوں میں گلزار نسیم یا مرزا دبیر پر سوال کرتے ہوئے یہ ایک فقرہ
بڑھادیتے ہیں کہ محاسن شعری پر روشنی ڈالیے۔ حالانکہ اردو کے مزاج سے یہ
محاسن ہم آہنگ تھے۔ اردو کی وراثت ہندوستانی تھی۔ عربی اور فارسی سے اگر
نخلستان کی شادابی ملی تھی تو سنسکرت سے ہمالیاتی سربلندی بھی عطا ہوئی
تھی محترم علی جواد زیدی نے بڑے خوبصورت انداز میں اس طرف اشارہ کیا ہے
اور یہ بھی بتایا ہے کہ تجنیات میں کوئی سنسکرت شعراء سے بازی نہیں لے
جاسکتا تھا۔ ڈاکٹر رحمت علی خاں نے اپنے وقیع مقالے میں عربی، فارسی،
سنسکرت وغیرہ کے ساتھ تلگو میں بھی صناعی پر روشنی ڈالی ہے اور یہ بتایا
ہے کہ تلگو میں ایکاکشری ایک صنعت ہے جس میں ایک ہی حرف کا استعمال کرتے
ہوئے پوری نظم کی تشکیل کی جاتی ہے اس طرح یہ صنعت گری ہندوستانی ہے اور
ہندوستان میں تو ہر ورق سے صنعت ترصیع آشکار ہے اور بالخصوص اردو میں اگر
دکنی پر نظر ڈالی جائے تو فخر دین نظامی کی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘ سے لے کر
غواصی تک وہ سار ے محاسن تلاش کیے جاسکتے ہیں جن کے لئے اودھ کی شاعری کو
زیادہ ’’بدنام‘ کیا گیا۔ نثر میں ’’سب رس‘ کے تمثیلی اسلوب میں جب محاسن
کی تلاش کی جائے گی تو تجنیں کی بیشتر اقسام کے ساتھ اس کی مقفیٰ عیارت
میں قافیہ ۔ معمولہ تک مل جائے گا اور اشتقاق، تاکید المدح، کلام جامع
جیسی صنعتیں بھی تلاش کرنے پر مل جائیں گی۔ مراعات النظیر اور حُسن تعلیل
تو عام بات ہے۔
یہی وراثت دہلی سے گزرتی ہوئی اودھ میں آئی اور
بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ نجم و شجر جو دکن سے دہلی تک آئے تھے اودھ
میں ا کر سجدہ ریز نظر آئے اور یہاں کے آفتاب و مہتاب نے اس صناعی کو
تابندہ و درخشندہ بنادیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اودھ کی فضائ، نفیس
طبیعتیں ، مزاج کی لطافت، ان محاسن کو برتنے کے لئے بے حد موزوں بھی تھی
اسی لئے یہ صناعی انیسویں صدی ہی میں نہیں بلکہ بیسویں صدی اور دورحاضر
میں بھی موجود ہے اور یہ وہ ادبی اور تہذیبی میراثت ہے جس کے بارامانت کو
سنبھال کر رکھا گیا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پلا نام انشا کالیا جانا
چاہئے جنہوں نے صنعت م قلوب کے نادر نمونے پیش کئے اور ایک شعر میں نہیں
کئی اشعار میں صرف ایک شعر درج کیا جاتا ہے
فقط اس لفافے پر ہے کہ خط آشنا کو پہنچے
تو لکھا ہے اس نے انشا یہ تراہی نام الٹا
یہاں
ایسی صنعتوں کا ذکر کیا جارہا ہے جو نسبتاً کم معروف ہیں مثلاً میر تقی
میر کی محبوب صنعت ایہام یا سود اور غالب کی نظر کردہ حُسن تعلیل اور
مراعات النظیر (جو لکھنؤ کے انیسویں صدی کے تقریباً ہر شاعر کے یہاں پائی
جائے گی) سے صرف نظر کیا گاے ہے اور یہ کوشش کی گئی ہے کہ اودھ کے شعراء
نے جس بے تکلفی اور جس حُسن کے ساتھ ایک ایک شعر میں کئی محاسن جمع کئے
اور جو صنعتیں نسبتاً کم معروف ہیں انہیں پیش کیا جائے۔
ناسخ کی
اصلاح زبان کی کوششوں نے لفظ کے نکھار اور مرکبات کو حَسین سے حَسین تر
بنانے کی طرف متوجہ کیا۔ فراغت اور خوش حالی کا دور ہی زندگی کے ان گوشوں
کی طرف متوجہ کرتا ہے جہاں حُسن کاری ہوتی ہے۔ حُسن کاری ہی ایک نام صناعی
تھا، اسی لےئے اودھ میں صناعی کی روایت نسبتاً ہر جگہ سے زیادہ ارتقاء
پذیر رہی۔ ناسخ کہتے ہیں ۔
وہ آفتاب نہ ہو کس طرح سے بے سایہ
ہوا نہ سر سے کبھی سایۂ سحاب جدا
اس
میں جہاں مراعات النظیر ہے وہیں مذہب کلامی بھی ہے یعنی ایک کہی جو دعوے
کے طور پر ہے اور پھر اس کے لئے دلیل لائے۔ آفتاب اس لئے بے سایہ ہے کہ
سحاب ہمیشہ سایہ فگن رہتا ہے تو آفتاب پر کیسے سایہ ڈالے۔
انیس و دبیر سے پلے دوسرے مرثیہ نگاروں خصوصاً ضمیر کے یہاں صناعی کا حُسن ہے
کس مور کی ملس میں مری جلوہ گری ہے
میں
مثالیہ، الف و نشر وغیرہ بھی دیگر صنعتوں کے ساتھ ملتی ہیں لیکن صنعتوں کے
خد بو سخن اور خدائے سخن اور خالق بنائے سخن انیس و دبیر ہیں ۔
دبیر نے شاعری میں صناعی کو اس منزل تک پہنچا دیا سج کے آگے سوجتے ہوئے تخیل کے پر جلتے ہیں ۔
جیں
ا کہ عرض کیا گیا۔ دبیر کے کلام سے معروف صنعتوں کی مثالیں نہیں پیش کی
جاری ہیں جیسے ایہام، رعایت لفظی، صنعت مراعاۃ النظیر، حُسن تعلیل وغیرہ
بلکہ صرف ان صنعتوں کی نشاندہی کی جارہی ہے جن کی طرف نسبتاً ذہن نہیں
جاتا حالانکہ روزآنہ کی بات چیت میں ان میں سے اکثر صنعتیں شرفاء اور اہل
علم کے کلام میں خود بخود آجاتی ہیں ۔ مثلاً صنعت عکس اس کی تعریف یہ ہے
کہ کلام میں دو لفظ لائیں پھر ان کو الٹ پلٹ دیں ۔ اس صنعت کی عظمت اس وجہ
سے بھی ہے کہ براہ راست قرآن حکیم سے استفادہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :
یخرج الحی من المیت ویخرج ال میت من الحی
اب مرزا صاحب نے اپنے اسلوب میں اسے سے جو فیض ا ٹھایا ہے وہ دیکھئے
انصاف کہاں سے ہو کہ دل صاف نہیں ہے
دل صاف کہاں سے ہو کہ انصاف نہیں ہے
میر انیس کا بھی انداز دیکھ لیجئے
استادہ آب میں یہ روانی خدا کی شان
پانی میں آگ، آگ میں پانی خدا کی شان
اس
سلسلے میں اسی سے ملتی جلتی صنعت صنعت مقلوب ہے، یعنی مصرع کو اگر الٹ دیں
تو وہی مصرع بنے ۔ مرزا صاحب کے یہاں کئی بند ایسے کی جائیں گے جن مے ں یہ
صنعت موجود ہے۔ ایک بند کی بیت ملاحظہ ہو :
آقائے امم عرش معلی کا شرف ہے
یہ فرش باآداب ایک آقا کا شرف ہے
مصرع
اگر الٹ دیا جائے تو بھی یہی مصرع بے گا یعنی اب اگر اس کے حروف کی ترتیب
بائیں جانب سے شروع کی جائے تو یہی مصرع برقرار رہے گا۔
میر انیس نے مقلوب سے ملتی جلتی صنعت کا نمونہ تجنیس قلب میں پیش کیا ہے۔
فر فر رواں ادھر سے دم جست و خیز تھا
الٹا پھر ادھر سے تو رف رف سے تیز تھا
انیس نے اشارہ بھی کر دیا کہ فر فر کو اگر الٹ دیجئے تو رف رف بن جائے گا اور رف رف کو الٹا تو بھی فر فر۔
مرزا
صاحب کے یہاں صنعت جمع، تفریق اور تقسیم کی بڑی اچھی مثالیں ملتی ہیں ۔
صنعت جمع کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک یا چند چیزیں ایک حکم میں جمع
کر دی جائیں ۔یہ صنعت بھی قرآن شریف سے استفادہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔
المال و البنون زینۃ الحیوۃ الدنیا
یعنی ما و اولاد زندگانی دنیا کی زینت ہیں ۔ مال و اولاد کو ایک حکم زینت میں جمع کر دیا ہے۔ اب مرزا صاحب کا استفادہ ملاحظہ ہو
نقاش، نقش، کاتب و خط، بانی و بنا
بود و بنؤد، ذات و صفت، ہستی و فنا
آدم، ملک، زمین، فلک، گرد کیمیا
دنیا و دیں ، حدوث و قدم، بندہ و خدا
سب شاہد کمال شہ مشرقے ہیں
جب تک خدا کا ملک ہے مالک حسین ؑ ہیں
اس بند میں صرف صنعت جمع ہی نہیں ہے صنعت تضاد بھی ہے۔ تجنیس بھی ہے، اشتقاق بھی ہے اور مراعاۃ النظیر بھی ہے۔
ثابت لکھتے ہیں کہ اس کمال کو دیکھئے کہ ہر مصرع میں چھ چیزیں لائے ہیں ۔ نہ کم نہ زیادہ۔
اسی سے ملتی جلتی ہوئی صنعت تنسیق الصفات ہے یعنی کئی صفات ایک ساتھ مذکور ہوں ۔ انیس کہتے ہیں ۔
احسان بھی، حیا بھی، مروت بھی، قہر بھی
خود موت بھی، حیات بھی، امرت بھی،زہر بھی
بنیاد و نکتہ سنج بھی، دانائے دہر بھی
تسنیم بھی، بہشت بھی، کوثر کی نہر بھی
سر شرم سے جھکائے ہے نرگس ریاض میں
جنت سواد میں یہ بیضا بیاض میں
صنعت تفریق میں دو امر بظاہر ایک طرح کے ہوں لیکن ان کے درمیان جو فرق ہے وہ واضح کر دیا جائے۔ دبیر کہتے ہیں
آئینے کے آئین پہ میں نے چوکیا غور ۔ ۔ ۔
منہ پر ہے کچھ اور پس پشت ہے کچھ اور
گوچرخ کی گردش سے نہ ہو صاف کبھی دور ۔ ۔ ۔ پر حاضر و غائب دل روشن کا ہے اک طور
جن آئینوں میں دونوں طرف ایک چمک ہے
وہ ایک مرا دل ہے اور اک مہر فلک ہے
صنعت
سے تقسیم بھی ایک صنعت ہے اس میں ادرلف و نشر میں باریک سا فرق ہے کہ لف و
نشر میں اول چند چیزیں بیان کرتے ہیں پھر ان کے منسوبات لاتے ہیں ۔ تقسیم
میں چند چیزیں ایک ہی چیز کے چند اجزا بیان کیے جاتے ہیں پھر ہر چیز یا ہر
چیز کے منسوب کو واضح کرتے ہیں کہتے ہیں
تابوت اٹھاین کی جزا، قبر کی راحت ۔ ۔ ۔ دلدل کو بنانے کی جزا، ناقہ جنت
سقائی کے انعام میں کوثر کی حکومت ۔ ۔ ۔ دولت سے یہ سب تعزیہ داری کی بدولت
عابد کے لئے طوق پہنچتے ہیں تو کیا ہے
وہ طوق نہیں دائرہ حفظ خدا ہے
اس
میں صنعت تقسیم ہی نہیں مذہب کلامی بھی ہے یعنی جزا کو دلیل بنایا ہے
مراعاۃ النظیر و رعایت لفظی کے ساتھ دولت بدولت میں تجنیس زائد بھی ہے۔
مسعود صاحب نے میر انیس کے یہاں تینوں صنعتوں کی مثال ایک شعر میں دی ہے
یعنی جمع، تقسیم اور تفریق کے بارے میں
نکلا ادھر سے وہ جو اجل کا شکار تھا
پیدل ہو یا سوار یہ دو تھا وہ چار تھا
ان صنعتوں کے علاوہ میر صاحب کے یہاں دوسرے مصرع میں سیاقتہ الاعداد بھی ہے۔
ایک
اور صنعت مرزا صاحب کے یہاں ملتی ہے جس کو استباع کہتے ہیں یعنی اس طرز پر
مدح کرنا کہ ایک طرح سے دوسری طرح حاصل ہو۔ ایک بد ملاحظہ ہو
خالق نے عطا کی شہ مرداں کو یہ قدرت
لیں ان کی زباں سے جو ہو محتاجوں کو حاجت
گردوں نے بلندی لی زمیں نے زر و دولت
یوسف ؑ نے لیا حسن سلیمان ؑ نے حشمت
پر ان کی قناعت ہے فزوں حد بیاں سے
جز نام خدا آپ لیا کچھ نہ زبان سے
یہاں آخری مصرع میں ابتدائی مصرعوں کی مدح سے مدح نکالی ہے کہ کائنات نے ہر شئے آپ سے لی اور آپ نے سوائے ذکر خدا کچھ نہ لیا۔
***