صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


ورق ورق چہرہ

غلام ربانی فداؔ

مرتب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

سراپا زخم زخم ـــــــــــــ مبین احمد زخم

ریاست کرناٹک میں اردو ادب و صحافت کے میدان میں حیدرآباد کرناٹک کا علاقہ ہمیشہ ہی سے سرسبز و شاداب رہا ہے۔بیدر، گلبرگہ، بیجا پور۔رائچور  اور یادگیر تک اردو زبان و ادب کا دربار عام ہے۔جہاں کنڑا زبان کی حکومت ہوتے ہوئے بھی اردو کی بادشاہی مسلم ہے۔اس علاقے کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اردو زبان کی ابتدائی نشو و نما یہیں ہوئی۔یہ علاقہ اس لئے بھی سبز و شاداب ہے کہ اس  علاقے نے اردو کے لئے جیالے سپاہی  اور نامور ہستیوں کو جنم دیا ہے جو تاریخ اردو کے زریں باب ہیں جن کے بغیر تاریخ اردو ادب مکمل ہوہی نہیں سکتی۔انہیں چاند تاروں میں سے ایک کا نام مبین احمد زخم بھی ہے۔مبین احمد زخم ایک سچے اردو کے خادم، مخلص، بے غرض انسان ہیں ۔ جن کو کسی اخبار و رسالے میں شائع ہونے کی خواہش نہ مشاعروں میں شرکت کی تمنا رکھتے ہیں ۔

۱۹۹۵ میں الصمد ایجوکیشنل چارٹیبل اینڈ ویلفر ٹرسٹ کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا جس کے زیر اہتمام مدرسہ وحیدہ نسوان کا آغاز کیا گیا۔اگر زخم کے خدمات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ قوم مسلم و اردو کا یہ جیالا سپاہی زخموں سے چور چور سے ہے۔جسے آرام کی ضرورت ہے مگر سپاہی کی قسمت میں آرام کہاں ؟ زخموں کی پرواہ کئے بغیر زخمؔ اپنی نادیدہ منزل کی جانب رواں دواں ہے۔

شعبۂ صحافت میں ٹاپ نیوز(ہفت روزہ)  اور سہ ماہی چراغ نور کے روح رواں بھی ہیں ۔کئی اصلاحی، سیاسی۔و رفاہی و عوام بہبودی تحریکوں سے وابستہ ہیں کسی  کے رکن تو کسی کے صدر کے حیثیت سے۔

زخم سیاست دان ہوتے ہوئے اپنی شاعری میں نظر نہیں آتے زخم کی شاعری ایک زخم خوردۂ   وفا کی شاعر ی ہے۔وہ اپنی شاعری میں اتنی کثرت سے محبت کی باتیں کرتا ہے جس سے وہ مبلغ محبت نظر آتا ہے۔میرے سامنے زخم کے کئی بکھرے ہوئے اشعار ہیں ۔میں حیرت و مسرت کے ملے جلے جذبات سے سرشار زخم کے فن  اور شخصیت کے مطالعے میں مصروف زندگی کی تمام پرتوں کو محسوس کرتا ہوا کبھی غم ذات کی محرومیوں میں ڈوب کر ہجر و فراق کے تلخ لمحات میں محبوب کی بے رخی سے محظوظ ہوتا ہوں  اور کبھی غم دوراں کی اذیت میں گم ہو کر ایک عجیب راحت محسوس کرتا ہوں ۔اُردو کے بیشتر شعراء کی طرح زخمؔ  نے اپنی شاعر ی کا آغاز غزل ہی سے کیا ہے۔ غزل ان کی محبوب صنفِ  سخن ہے۔

    زخم کی شاعری کو پڑ ھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے ان کی شاعری میں ایک سچا  اور  حقیقی شاعر نشو نما پا رہا ہے۔ زخمؔ کو اُردو زبان پر اہلِ زبان کی سی قدرت ضرور حاصل ہے۔ہلکی پھلکی بحروں میں ان کا نرم لب و لہجہ بڑا ہی دلکش معلوم ہوتا ہے۔ ان کی عمر  اور مشق کے لحاظ سے ان کے کلام کو عروضی  اور  لسانی اعتبار سے جانچنا میرے خیال میں قبل از  بات ہو گی۔جبکہ ہمارے یہاں دھڑا دھڑ جو مجموعے منظر عام پر آرہے ہیں اُن کے آئینے میں مشاق شعراء کا کلا م بھی عیوب و اسقام سے ہر گزر پاک نہیں ہے۔

وہ میرا ہو کے جب مرا نہ رہا

 اور جینے کا حوصلہ نہ رہا

تم سے ہوئے جدا تو محبت بری لگی

کیا پوچھتے ہو کیوں یہ عبادت بری لگے

جب زخم ہرا ہوتا ہے

اک شعر نیا ہوتا  ہے

کالی رات  اور  اجلا چاند

تنہا میں  اور  تنہا چاند

زخم کے چند اشعار نے تو بیک نظر میری توجہ کو جذب کر لیا ہے  اور  ان کے کلام میں وہ خوبیاں ضرور موجود ہیں جو اُردو غزل کی بہترین روایات کی مظہر ہیں  اور  سنجیدہ ترین اوصاف کی حامل ہیں ۔ اُن کے تازہ غزلیہ کلام میں چند ایسے اشعار قابلِ توجہ ہیں جن کو مُشتے از خر وارے کے طور پر پیش کر رہا ہوں ۔ جن سے اُن کے مزاج و آہنگ کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔

بس مجھے ایک کام کرنا ہے

زندگی تیرے نام کرنا ہے

چاہتوں میں کمی نہیں ہوتی

خود سے یوں دشمنی نہیں ہوتی

لباس گل جو وہ تار تار کرتا ہے

عجیب شخص ہے کیا کاروبار کرتا ہے

عشق کو ہم خطا نہیں کہتے

آپ کو بیوفا نہیں کہتے

زمیں تم ہو آسماں تم ہو

غرض کہ سارا جہاں تم ہو

انتظار کی کیفیت کو بڑ ے سلیقہ سے پیش کیا ہے۔

رسم الفت ذرا یوں نبھایا کرو

بھول سے ہی سہی آیا جایا کرو

شعور کی نا پختگی کو صَرفِ  نظر کر کے دیکھا جائے تو زخم کے یہ اشعار اُن کے خوش آئند مستقبل کے ضامن ہیں ۔ زندگی کے حقائق کو ہلکے پھلکے انداز میں چھو ٹی چھوٹی بحروں میں سمونا زخمؔ کا کمال  ہے۔

ہر غزل میں زندگی کے اقدار کی عکاسی  اور  تجربوں کا نچوڑ ملتا ہے۔ ایک اچھے شاعر کے لئے ضروری ہے کہ وہ روایت کا پاسدار بھی ہو  اور  جدید تقاضوں کا شعور بھی رکھتا ہو۔زخمؔ کے کلام میں ایسے بے شمار اشعار ملتے ہیں ۔

شعر وہ بے مثال ہوتا ہے

جس میں تیرا خیال ہوتا ہے

زخم ایک خوددار انسان ہیں غریبی و مفلسی میں بھی ان سے ہاتھ پھیلایا نہیں جاتا اور محنت کو عبادت سمجھتے ہیں

اپنی تقدیر کو بنانے دو

مجھ کو محنت سے زر کمانے دو

 یہ جُر اتِ  گفتار کا اقرار  اور  عزم شاعر کی ذہنی سطح کی بلندی کا پتہ دیتی ہے ۔

آج اردو جن نا مساعد حالات سے گزر رہی ہے وہاں ایک ایسے نوجوان کی اُردو دوستی  اور  حالات کے پیش نظر اردو زبان و ادب کی خدمات قابل تحسین عمل ہے۔ زخمؔ  صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اپنی مادری زبان نہ ہوتے ہوئے بھی اردو زبان سے بے پناہ محبت کا ثبوت دیا ہے۔ اس سے پیشتر جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے۔  زخم اپنی ادارت میں ایک سہ ماہی مجلہ ’’چراغ نور‘‘ شائع کرتے ہیں ۔ زخم اپنے اشعار میں اچھے مضامین لاتے ہیں ۔ بیشتر کلا م زخم کے تازہ رنگِ  سخن کا آئینہ دار ہے۔میری رائے میں زخمؔ  کی شاعری میں ایک نئے ارتقائی قدم کی چاپ سنائی دیتی ہے۔یہ تازہ رنگ و نکھار آگے چل کر کس حد تک بار آور  اور  خود زخمؔ  کیلئے کتنا مبارک و مسعود ثابت ہو گا۔ اسکے بارے میں کہنا مستقبل کے ادبی مورخ یا نقاد کے ہاتھ سے قلم چھین لینے کے مترادف ہو گا۔ میں زخمؔ کے روشن مستقبل کے لئے بدرگاہِ رب العزّت دُعا گو ہوں ۔

٭٭٭  

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول