صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


تحسین غزل
نصاب
(ولیؔ، سراجؔ اور دردؔ)

امتیاز احمد

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

خواجہ میر درد..تمہید اور مقصد

    اپنے معاصر اور بعد کے شاعروں میں بھی خواجہ میر دردؔ کو اس اعتبار سے خاص اہمیت حاصل ہے کہ ان کی شاعری میں تصوف کے مسائل صرف شاعری کے لئے نہیں ہیں بلکہ وہ عملی طور پر صوفی تھے۔ اس سبق کا مقصد یہ ہے کہ اردو غزل کے اس خاص رنگ سے آپ کو واقف کرایا جائے۔ اس کے خاص خاص استعاروں ، لفظیات اور تراکیب تک آپ کی پہنچ ہو سکے۔ اور آپ اس تہذیب تک پہنچ سکیں جسے اردو تہذیب کہتے ہیں ۔

آئیے ۱ ب درد کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ درد کی پہلی غزل ہے


چمن میں صبح یہ کہتی تھی ہو کر چشم تر شبنم

بہار باغ تو یوں ہی رہی لیکن کدھر شبنم

.....
پوری غزل کو رک رک کر دوچار مرتبہ پڑھیے ۔ مشکل الفاظ پر غور کیجیے  حا وی انداز اور غیر معمولی طور پر نمایاں باتوں پر توجہ دیجیے ۔ اور اب دیکھیے کہ غزل کیا کہتی ہے؟


تشریح


اس غزل کے مرکز میں ایک لفظ ہے جو آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے رہا ہو گا۔ اور وہ لفظ ہے چمن یعنی باغ ۔ اسے ہم کہیں گے غزل کا بنیادی استعارہ۔اب آپ پوچھیں گے کہ یہ باغ۔یا چمن کس چیز کے استعارہ کے طور پر آیا ہے ؟آپ نے بالکل ٹھیک سوال کیا ۔ یہ بنیادی طور پر اس کائنات کا استعارہ ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ استعارہ بظاہر آپ کو کہیں نمایاں نظر نہیں آ رہا ہو گا ۔ یہیں سے اس غزل کی خوبیوں کا شمار شروع ہوتا ہے ۔ کوئی عام شاعر ہوتا تو یہ لفظ استعمال کر لیتا اور اس کی خزاں یا بہار کا ذکر کر کے شعر ختم کر دیتا ۔ لیکن دردؔ یہ نہیں کرتے ہیں ۔ وہ پوری غزل میں تین جگہ باغ اور ایک جگہ چمن کا لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن بہت دبے ہوئے انداز میں ۔ اس کے متعلقات گل ، پھول ، صبا ، شبنم وغیرہ کا ذکر زیادہ حاوی نظر آتا ہے ۔

غزل کے پہلے شعر کو دیکھیں تو اس میں باغ اور اس کا مترادف لفظ /چمن /دو بار استعمال ہوا ہے ۔ شعر شروع ہی لفظ/چمن/سے ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود جو لفظ پڑھنے والے کے ذہن کو سب سے زیادہ اپنی گرفت میں لیتا اور اس شعر میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے  وہ لفظ صبح اور شبنم ہے۔ صبح ، وقت کا تعین کرتا ہے اور شبنم وہ کردار ہے جس کی کہانی اس شعر میں بیان ہوئی ہے ، چمن وہ Localeیا  واردات کی جگہ ہے جہاں یہ واقعہ ہوا ۔ ایک اور ترکیب اہم ہے ۔ اور وہ ترکیب ہے ، چشم تر کی۔ بھیگی ہوئی آنکھ ، جو دل گرفتگی کی علامت ہے ۔ شاعر اس شعر میں دراصل ایک کہانی بیان کر رہا ہے کہ چمن میں صبح کے وقت شبنم بہت دکھی ہو کر یہ کہہ رہی تھی کہ دیکھیے ہر صبح ہماری نمی سے باغ کو سرسبزی اور شادابی ملتی ہے لیکن سورج کے نکلتے ہی ہمارا  وجود فنا ہو جاتا ہے۔ کد ھر شبنم کے سوالیہ اور استعجابیہ انداز میں انکار کا پہلو بھی چھپا ہوا ہے کہ شبنم کا وجود باقی نہیں رہتا ہے ۔کہنا یہ ہے کہ ہر عروج، ہر ترقی ہر بلندی کے حصول کے لیے کسی دوسرے وجود کو اس کی قیمت ضرور چکانی ہوتی ہے باغ کی بہار کی یہی قیمت شبنم چکاتی ہے ۔ اگر شبنم اپنے وجود کو خطرے میں نہ ڈالے  تو باغ کی بہار کا وجود ہی عدم میں بدل جائے گا ، ختم ہو جائے گا ۔لطف کی بات یہ ہے کہ شبنم جس کی بنیادی صفت اس کی نمی ہے اس کے بارے میں حسن تعلیل کی صنعت  استعمال کر کے یہ کہا ہے کہ وہ نم اسلئے ہے کہ دکھی ہے اور دکھ کا اظہار آنکھوں کی نمی یا آنسووں کے بہنے سے ہوتا ہے۔ ظاہر ہے آنسوؤں کے بہنے کے ذکر کے لئے آنکھ کا ذکر ضروری تھا اور آنکھ کے ذکر کے لئے شبنم کا جسم تصور کرنا ضروری تھا ۔ اس لیے شاعر نے حسن تعلیل سے پہلے تجسیم کی صنعت استعمال کر کے شبنم کو personifyکیا ، اسے ایک جسم دیا جس کی ایک آنکھ ہوتی ہے جو بھیگتی ہے ۔ پھر یہ مضمون باندھا۔  تو دیکھا  آپ نے ایک سیدھا سادہ شعر جس میں آپ کو کوئی پیچیدگی نظر نہیں آ رہی تھی شاعر کے لیے کتنا مشکل مرحلہ ثابت ہوا۔ 

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول