صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


ویرا
آسکر وائیلڈ کا شاہکار 

ترجمہ:سعادت حسن منٹو

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

منظر۔۔اقتباس

(ایک بڑا دروازہ جو سٹیج کے پشت پر برفانی منظر کی طرف کھلتا ہے)

(پیٹر اور مچل باہم گفتگو کر رہے ہیں )


پیٹر: (آ تاپتے ہوئے) مچل! ویرا واپس نہیں آئی کیا؟

مچل: نہیں ! پیٹر! ابھی.... تو نہیں آئی۔ ڈاک خانہ یہاں سے تین میل دور ہے۔  اس کے علاوہ اسے ابھی دودھ بھی تو دوہنا ہے!

پیٹر: احمق کہیں کے.... اس کے ساتھ کیوں نہیں گئے؟ وہ تم سے ہر گز پیار نہ کرے گی۔ جب تک تم سائے کی طرح اس کا پیچھا نہ کرو۔ عورتیں ستایا جانا پسند کرتی ہیں۔

مچل: اس کے خیال میں میں اسے پہلے ہی سے بہت تنگ کر رہا ہوں۔ پیٹر! وہ کبھی مجھ سے محبت نہیں کرے گی۔

پیٹر: چھوڑو بھی! آخر کیوں نہ کرے گی؟ کیا تم پرنس مارلو فسکی کے ملازم نہیں ؟ تمہارے پاس ایک چھوٹی سی چراگاہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ تمہاری گائے گاؤں بھر میں سب سے اچھی ہے۔ ایک لڑکی اس سے زیادہ کیا خواہش کر سکتی ہے؟

مچل: لیکن ویرا

پیٹر: میرے عزیز! ویرا مختلف الخیال ہے۔ ذاتی طور پر میں خیالات کا قائل نہیں۔ میری زندگی غور و فکر کے بغیر ہی اچھی ہے۔ میری خواہش ہے کہ میرے بچے بھی ایسے ہی ہوں متری، یہاں رہ کر سرائے کا مالک بن سکتا تھا۔کساد بازاری کے ان ایام میں ہزاروں نو جوان یہاں کام کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن پراگندہ خیال متری قانون کے مطالعہ کے لئے ماسکو پہنچ چکا ہے۔ اسے بھلا قانون کی کیا ضرورت ہے۔ جب انسان دنیا میں فرض بجا لائے۔ تو اسے کیونکر تکلیف پہنچائی جا سکتی ہے؟

مچل: لیکن پیٹر! ایک اچھا قانون داں جتنی مرتبہ چاہے قانون شکنی کر سکتا ہے۔

پیٹر: بس یہی اس کا کام ہے! گزشتہ چار ماہ سے اس نے ہمیں ایک حرف تک نہیں لکھا.... اچھا فرمانبردار لڑکا ہے!

مچل: نہیں پیٹر! متری کے خطوط گم ہو جاتے ہوں گے۔ شاید نیا ڈاکیہ اچھی طرح پڑھ نہیں سکتا۔ بدھو سا تو معلوم ہوتا ہے.... متری گاؤں میں بہترین شخصیت کا مالک تھا۔ تو کیا آپ کو یاد ہے۔ گزشتہ موسم سرما میں اس نے ریچھ کو کس طرح شکار کیا؟

پیٹر: نشانہ خوب تھا۔

مچل: ناچنے میں بھی اسے کمال حاصل ہے۔

پیٹر: خوب زندہ دل لڑکا ہے.... ایک ویرا ہی ایسی لڑکی ہے جس میں راہبوں ایسی سنجیدگی اورمتانت موجود ہے۔

مچل: ویرا ہمیشہ دوسروں کی فکر میں رہتی ہے۔

پیٹر: یہی اس کی غلطی ہے۔ خدا اور زار کا کام ہے کہ دنیا کی نگہبانی کریں۔ یہ میرا کام نہیں کہ میں ہمسایہ کے جھگڑے چکاؤں۔ گزشتہ موسم سر ما میں بوڑھا مچل برف باری میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر مرگیا۔ اس کی بیوی اور بچے چند دنوں بعد سسک سسک کر جان دے گئے۔مجھے اس سے کیا غرض؟.... میں نے دنیا نہیں بنائی، خدا اور زار اس کی حفاظت کیا کریں .... اس کے بعد طاعون نے بستیوں کو گورستان بنا دیا پادری لاشوں کو سپرد خاک نہ کر سکے۔ کوچہ و بازار میں انسانی لاشیں دکھائی دیتیں لیکن مجھے اس سے کیا غرض؟.... میں نے دنیا نہیں بنائی۔ خدا اور زار اس کی حفاظت کیا کریں ! دو برس ہوئے دریا کی طغیانی نے طفلان مکتب کو موت کی تعلیم دی۔ ان کا مدرسہ غرق دریا ہو گیا۔ لیکن میں نے دنیا نہیں بنائی؟.... خدا اور زار اس کی حفاظت کیا کریں !

مچل: لیکن پیٹر....!

پیٹر: نہیں نہیں ! میرے لڑکے! شہر کی فکر میں دبلا ہونے والا قاضی اپنی زندگی کے سانس پورے نہیں کر سکتا۔

(ویرا دہقانی لباس میں داخل ہوتی ہے)

بیٹی تم نے بہت دیر کی خط کہاں ہے؟

ویرا: آج تو کوئی خط نہیں آیا ابا!

پیٹر: مجھے پہلے ہی معلوم تھا!

ویرا: ابا! امید ہے۔ کل ضرور خط آئے گا۔

پیٹر: لعنت بھیجو.... نا شکر گزار بیٹا!

ویرا: ابا! ایسا نہ کہئے۔ خدا نہ کرے۔ مگر شاید وہ بیمار ہو۔

پیٹر: عیش و نشاط کا بیمار!

ویرا: نہیں نہیں ابا ایسا نہ کہئے متری ایسا نہیں کر سکتا۔

پیٹر: روپیہ کہاں جاتا ہے۔ آخر! سنو مچل میں نے متری کو تعلیم دینے کے لئے اس کی والدہ کی نصف جائداد وقف کر دی۔ مگر اس کی حرکت دیکھو! اب تک اس کے صرف تین خط آئے ہیں۔ جن میں ہر بار روپیہ کا مطالبہ ہے۔ حالانکہ اسے روپیہ برابر ملتا رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ میں یہ روپیہ اس کی خاطر بھیجتا رہا ہوں۔(ویرا کی طرف اشارہ کرتا ہے) اس کا بدلہ اس نے یہ دیا کہ پانچ ماہ سے کوئی خبر نہیں !

ویرا: ابا وہ واپس آ جائے گا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول