صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


اُترن
اور دوسرے افسانے

واجدہ تبسم

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

زکوٰۃ۔۔اقتباس

چاند آسمان پر نہیں نیچے زمین پر جگمگا رہا تھا! نواب زین یار جنگ کے برسوں پہلے کسی شادی کی محفل میں ڈھولک پر گاتی ہوئی میراثنوں کے وہ بول یاد آ گئے:
کیسے پاگل یہ دنیا، کے لوگاں ماں۔
چھت پوکائے کو تو جاتے یہ لوگاں ماں۔
آنکھا کھلے رکھو تاکا جھانکی نکو۔
اپنے آنگن کو دیکھو ماں .... چند ا سجا کیسے پاگل
واقعی وہ پاگل ہی تو تھے۔ اب یہ پاگل پن نہیں تو اور کیا تھا کہ اتنے زمانے سے اس حویلی میں رہ رہے تھے اور اب تک یہی معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ چاند آسمان پر ہی نہیں زمین پر بھی چمک سکتا ہے۔
عید کی آمد آمد تھی.... کل بھی ساری حویلی کے لوگ چاند دیکھنے کے لئے چھت پر چڑھے تھے.... نواب صاحب کی کچھ تو عمر بھی ایسی تھی، کچھ عید کی خوشی بھی انہیں نہ ہوتی تھی کہ روزے نمازوں سے وہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے معافی لکھوا کے لائے تھے۔ عید کے چاند کی اصل خوشی تو ان روز داروں کو ہوتی ہے جو رمضان بھر کے پورے روزے رکھتے ہیں۔ وہ چھت پر جاتے بھی تو کیوں ؟ لیکن آج سب نے ہی ضد کی.... یہاں تک کہ حویلی کے مولوی صاحب نے بھی کہا، ’’مبارک مہینوں کی پہلی کا چاند دیکھنے سے بینائی بڑھتی ہے اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔‘‘ تو وہ برکتوں کے نزول سے زیادہ بینائی بڑھانے کے لالچ میں اوپر چلے آئے، کیوں کہ آج کل وہ واقعی آنکھوں کی کمزوری کا شکار ہو رہے تھے.... عمر تو یہی کوئی چالیس بیالیس کے قریب تھی، وہ منزل ابھی نہیں آئی تھی کہ ان پر ساٹھے پاٹھے کا اطلاق ہونے لگتا۔ لیکن جوانی کو وہ شروع جوانی سے ہی یوں دل کھول کر لٹاتے آرہے تھے کہ اکثر اعضاء کس بل کھو چکے تھے۔ وہ اپنے حسابوں وہ ابھی تک خود کو بڑھا دھاکڑ جوان سمجھتے تھے۔ لیکن خواب گاہ سے نکلنے والی طرار اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پی ہوئی خواصیں دوپٹوں میں منہ چھپا چھپا کر ہنس ہنس کر ایک دوسری کو راتوں کی واردات سناتیں تو دبے چھپے الفاظ میں ان کی جوانی کا پول بھی کھول کر رکھ دیتیں۔
’’اجاڑ پتہ اچ نئیں چلا کی رات کدھر گزر گئی....‘‘
’’کیوں ؟‘‘ کوئی دوسری پوچھتی ’’اتے لاڈاں ہوئے کیا؟‘‘
’’لاڈاں ؟‘‘ وہ ہنس کر کہتی، ’’اگے جو جاکو سوئی تو بس سوتی اچ رہی.... اجاڑ دم ہی کیا ہے بول کے انوں میں۔‘‘
کوئی یوں ہی سر جھاڑ منہ پہاڑ گھومتی تو دوسری ٹھیلتی، ’’اگے غسل نئیں کری کیا میں ابھی حمام میں گئی تھی تو پانی گرم کا گرم ویساچ رکھے دا ہے۔‘‘
وہ الجھ کر بولتی، ’’باوا ہور  بھایاں بن کے کوئی مرد سوئیں گا تو کائے کا غسل اور کائے کی پاکی؟‘‘
لیکن ان تمام باتوں سے نواب صاحب کی جوانی پر کوئی حرف نہیں آتا تھا۔ آخر حکیم صاحب کس مرض کی دوا تھے؟ اور پھر حکیم صاحب کا کہنا یہ بھی تھا کہ ’’قبلہ آپ زیادہ سے زیادہ نوخیز چھریاں حاصل کرنا۔ ایسا کرے اچ تو اچ آپ کو زیادہ خوت ملتی ہور آپ زیادہ دناں جوان رہتے۔‘‘
لیکن اس وقت نواب صاحب کا چھت چاندنی پر جانا قطعی کسی بری نیت سے نہ تھا۔ وہ تو واقعی عید کا چاند دیکھنے کے لئے اوپر چڑھے تھے۔ چاند واند تو انہیں کیا نظر آتا، جس نے بھی جدھر انگلی اٹھا دی، ہوہو.... جی ہو.... جی ہو۔‘‘ کر کے ادھر ہی نظر جما دی۔ لیکن اچانک اپنی بلند بانگ حویلی کی آخری اور اونچی چھت پر سے ان کی نظر پھسلی اور نیچے کے غریبانہ ملگی (جھونپڑی) کے آنگن میں ٹھہر گئی.... آنکھیں کمزور تھیں ضرور، پہلی کا چاند یقیناً نہیں دیکھ سکتی تھیں ، لیکن چودھویں کا چمچماتا چاند سامنے ہو تو کمزور بینائی والی آنکھیں خود بھی جگمگانے لگتی ہیں۔
’’کیسے پاگل تھے ہمیں .... اتنے دناں ہو گئے  ہور یہ بھی نئیں معلوم کرے کی ایں پڑوس کیسا ہے اپنا۔‘‘
دیوان جی سامنے ہی کھڑے ہاتھ مل رہے تھے۔
’’آپ تو کبھی ہم نا بولنا تھا کی پڑوس میں خیامت ہے۔‘‘
’’جی....جی....وہ....وہ سرکار میں نے کبھی غور نئیں کرا۔‘‘

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول