صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


العتیبی کی کتاب الحکم بغیر ما انزل اللہ پر ردّ

مولف:ڈاکٹر طارق عبدالحلیم المصری
اردو ترجمہ:عبدالعظیم حسن زئی
نظرثانی : فضیلۃ الشیخ فاروق احمد قصوری

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                            ٹیکسٹ فائل

(العتیبی کی کتاب کا )پہلا مبحث

 پھر عتیبی کی رائے میں اقامت حجت کی کیا شرائط ہیں ؟ کیا یہ ضروری ہے کہ آدمی خود حاکم کے پاس جائے اور اس کے سامنے اسلام اور توحید کی وضاحت کرے اور اگر وہ حکمران تکبر کرے،توحید کو نہ مانے تو تب یہ اس پر حجت قائم کرنا کہلائے گا؟ یا خود جانے کے بجائے دوسرے لوگوں کے ذریعے بھی کافی ہو جاتا ہے۔یا لاعلمی کو ختم کرنے والے علم کا پھیلنا ہی کافی ہے (قیام حجت کے لیے )وہ اس طرح کہ جو داعی لوگوں میں اللہ کے حکم کو نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ان کا یہ مطالبہ ان حکمرانوں تک رسائل اور کتب کے ذریعے پہنچ جائے اور یہ کتب ورسائل دلائل کی وضاحت کرتے ہوں اور براہین قائم کریں۔جبکہ حجت یا اس کی قبولیت سے مراد اس کا نہ پہنچنا اور قائم نہ ہونا سمجھ لیا گیا ہے۔(الجواب المفید ص:118)

کبھی حجت براہ راست پہنچانے سے قائم ہوتی ہے اور کبھی علم کے پھیلنے سے کہ اس سے لاعلمی دور ہوتی ہو۔رسول اللہؐ نے جن کفارسے جنگ کی ان میں سے ہر ہر شخص کو انفرادی طور پر حجت نہیں پہنچائی بلکہ آپؐ کی دعوت سے جو علم پھیلا اقامت حجت کے لیے دلیل کے طور پر اسی پر اکتفاء  کیا گیا۔

وجادلھم بالتی ھی احسن کے تحت علمی مناقشہ کے ذریعے اضطراب میں اضافہ کیا گیا ہے جہاں مسئلہ متعلقہ بحکام المسلمین کے ضمن میں مندرجہ ذیل استدلال کیا ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اپنے  فتاویٰ(16/434)میں لکھتے ہیں :ہر خطا کار کافر نہیں خاص کر دقیق مسائل میں غلطی کرنے والا وہ دقیق مسائل جن میں امت کے درمیان اختلاف بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔مزید فرماتے ہیں :(12/466)کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ مسلمانوں کو کافر قرار دے اگرچہ وہ غلطی کرے۔جب تک اس پر حجت قائم نہ کی جائے اور حجت سمجھا نہ دی جائے۔جس کا اسلام یقینی ثابت ہو چکا ہو تو شک کی بناء  پریہ زائل نہیں ہو سکتا بلکہ صرف اقامت حجت اور ازالہ شبہ کے بعد ہی زائل ہو گا۔جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ ابن تیمیہؒ غلطی کرنے والے مرتکب گناہ کی بات کر رہے ہیں جبکہ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ الحکم بغیر ما انزل اللہ تشریع مطلق کی صورت میں گناہ ہے۔لہٰذا اس اختلاف میں ابن تیمیہؒ کی بات سے استدلال صحیح نہیں ہے ابن تیمیہؒ نے جن دقیق مسائل کی بات کی ہے تو اس سے مراد ہے اللہ کی صفات میں اختلاف وغیرہ جیسا اللہ کی صفت قدرت میں اختلاف ہے اور جیسا کہ ایک آدمی نے اپنی راکھ دریا میں بہانے کی وصیت کی تھی۔مطلب یہ کہ مسائل خفیہ میں کفر سرزد ہو جائے نہ کہ ان مسائل میں جو کہ کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہیں۔

اس عتیبی نے وجادلھم بالتی ھی احسن کے ضمن میں مناقشہ علمیہ کے تحت مسئلہ متعلقہ بحاکم المسلمین میں خلط ملط کیا ہے جہاں اس نے ابن تیمیہؒ کے قول سے استدلال کیا ہے :

‘’شیخ الاسلامؒ فرماتے ہیں (فتاویٰ:16/434) :ہر خطاء  کرنے والا کافر نہیں ہوتا خاص کر دقیق مسائل میں جن میں امت کے درمیان بہت اختلاف ہے۔ابن تیمیہؒ (فتاویٰ:12/466)میں فرماتے ہیں :کسی کے لیے جائز نہیں کہ کسی مسلمان کو کافر کہے اگرچہ اس سے خطاء  و غلطی سرزد ہو گئی ہو جب تک اس پر حجت قائم نہ کی جائے۔حجت کی وجہ واضح نہ کر دی جائے۔جس کا اسلام یقینی طور پر ثابت ہو چکا ہو وہ شک کی بناء پر زائل ہی نہیں ہو سکتا۔

پھر چوتھے قاعدے میں ایک اور بڑی مصیبت آ گئی ہے کہ :ان الاصل فی الاعمال ھو عدم التکفیر(اعمال میں اصول ہے عدم تکفیر)

اور تکفیر اسی اصول سے ماخوذ ہے اسی پر پیش کیا جاتا ہے۔اس اصول کو اس طرح صرف وہی شخص بنا سکتا ہے جوباطن میں مرجۂ ہو اس لیے کہ اعمال کی بنیاد و اصول ہی نہیں بلکہ انہیں اپنے مقام کے لحاظ سے پرکھا جائے گا پتہ نہیں یہ شخص اس طرح کا اصول اور قاعدہ کہاں سے لایا؟ اگر یہ اس طرح کہتا کہ اعمال میں سے کچھ ایسے ہیں جو بظاہر کافر بنا دینے والے ہوتے ہیں مگر ان کا فاعل کافر نہیں ہوتا تب بات صحیح ہوتی۔لیکن اس طرح کے ساتھ کہنا کہ اعمال میں اصل عدم تکفیر ہے تو یہ بات اسلاف میں سے کسی نے نہیں کہی۔البتہ جو شخص مسلمان ہو اور پھر وہ کوئی گناہ یا تاویل کرے تو اس کو اسلام سے خارج کرنے میں اختلاف ہے جیسا کہ ابن عبدالبرؒ سے منقول ہے کہ ابن عبدالبرؒ کے کلام میں صراحت اور وضاحت ہے کہ یہ بات گناہ اور تاویل کے مرتکب کے بارے میں ہے ہر باطل عمل کرنے والے کے بارے میں نہیں ہے۔اگر ہم عتیبی کے منہج اپنائیں یعنی تحریف میں کلام کرنے والا منہج تو پھر ابن عبدالبر کے کلام کہ جس نے گناہ کیا (گناہ فعل ہے)سے جان چھوٹ جاتی ہے جیسا کہ عتیبی نے اس سے استدلال کیا ہے اسی طرح ابن عبدالبر کے کلام (جس نے تاویل کیا )تاویل اعتقاد میں ہوتی ہے (تو گویا مطلب یہ ہو گا کہ )کوئی شخص کسی بھی قسم کا عمل کرے یا کوئی بھی عقیدہ رکھے اسے کافر نہیں کہا جائے گا کیساہی عمل یا اعتقاد کیوں نہ ہو اس لیے کہ اعمال میں اصل عدم تکفیر ہے۔حالانکہ یہ بات پہلے کسی نے نہیں کہی۔نہ ہی بعد میں کسی عقلمند نے کی ہے لیکن اللہ کی مخلوق میں مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں (یعنی بے وقوف بھی ہوتے ہیں )

پانچواں قاعدہ تو اس بات کی دلیل ہے کہ شیخ توحید کی سمجھ سے بے بہرہ ہیں بلکہ انھوں نے تو اپنے ارجاء کے مذہب کے استدلالات کو خوارج کے دلائل کے ساتھ خلط کیا ہے۔جو قاعدہ اس نے ایجاد کیا ہے وہ یہ ہے کہ الحکم بما انزل اللہ کا مسئلہ کسی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔پھر وضاحت اس طرح کرتا ہے کہ جس نے بھی اپنے بارے میں یا د و افراد یا کئی لوگوں کے درمیان یا استاد اپنے شاگردوں کے درمیان باپ اپنی اولاد کے درمیان فیصلہ کرتا ہے تو یہ سب فیصلہ کرنے والے حاکم بغیر ما انزل اللہ ہیں اور جو حاکم بغیر ما انزل اللہ کو کافر کہتے ہیں ان کے نزدیک یہ اشخاص کافر ہیں۔اس پر دلیل ابن تیمیہؒ کے اس قول سے لی ہے جو اس پر دلالت ہی نہیں کرتا۔ابن تیمیہؒ کا قول ہے کہ جس نے دو افراد کے درمیان فیصلہ کیا تو وہ قاضی ہے اس لحاظ سے وہ حاکم ہے۔ابن تیمیہؒ نے اس آدمی کی بات ہی نہیں کی جو اپنی اولاد کے درمیان جائیداد یا زمین کے تقسیم کا فیصلہ کرتا ہے۔وہ ان کے درمیان بغیر ما انزل اللہ کے مطابق فیصلہ کیسے کرے گا ؟ یہ کیسے سوچاجا سکتا ہے کہ قرآن و حدیث میں حکم بما انزل اللہ اور توحید عبودیت کے تذکرے اور یہ واضح ہو جانے کہ عبادت ہی اطاعت ہے اس کے علاوہ توحید کے اصول واضح ہونے کے بعد ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایسی باتیں کریں گے جو ایک آدمی (عتیبی)نے اپنے قاعدے اور اصول میں بنا رکھے ہیں ؟

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

    ورڈ فائل                                            ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول