صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
اردو عروض:ارتقائی مطالعہ
محمد زبیر خالدؔ
ڈاکٹر روبینہ ترین
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
شاعری کا وسیلہ الفاظ ہوتے ہیں اور الفاظ اصوات سے ترکیب پاتے ہیں۔ صوت زبان کا لازمہ ہے اور حسنِ صوت شاعری کا۔ دنیا کی ہر زبان کا قدیم ترین ادب کلامِِ موزوں ہی کی صورت میں ملتا ہے۔ اصوات کی کوئی ایک یا متعدّد خاصیّتیں مثلاً سُر کی بلندی Pitch، بَل Stress، اور طوالت Length ، وغیرہ جب کسی خاص ترتیب اور ترکیب میں آتی ہیں تو بحریں کہلاتی ہیں اور بحور کے مطالعے کا علم عروض کہلاتا ہے۔ گویا شاعری کی جمالیاتی ریاضیات کا دوسرا نام علمِ عروض ہے۔
صرف، نحو اور لسانیات کے دوسرے شعبوں کی طرح ہر زبان کا عروض بھی اپنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی استعمار قواعدِ زبان تک پر اپنے اثرات چھوڑ جاتا ہے۔ چنانچہ انگریزی عروض بھی اپنی ابتداء میں لاطینی کی غلامانہ تقلید میں مقداری Quantitative قرار دیا گیا لیکن بعد ازاں اپنی اصل صورت میں بازیافت پذیر ہوا۔ اسی طرح عربی، فارسی اور اردو عروض میں بھی مقداریت کے ساتھ ساتھ بَل Stress کی کارفرمائی کا سراغ ۱ بھی لگایا جا رہا ہے۔ اردو عروض بھی اسی نوع کے المیے کا شکار رہا اور ابھی تک اپنی مستقل حیثیت اور جداگانہ شناخت منوا نہیں پایا۔
اردو شاعری اپنی ابتدا میں شعوری اور ارادی طور پر فارسی کی مقلّد رہی۔ فارسی الفاظ و تراکیب اور محاورات کا لغوی ترجمہ حسنِ شعر گردانا جاتا رہا۔ اس بادشاہی زبان کی ہیئتیں اور اسالیب کے ساتھ ساتھ بحور بھی اردو میں التزام کے ساتھ اپنائی جانے لگیں۔ یہ سب کچھ شمالی اور جنوبی ہند کے درباروں کی سرپرستی میں ہوتا رہا۔ تاہم کہیں کہیں دھرتی کی آواز ہندی ذخیرۂ الفاظ اور چھندوں کی صورت میں سنائی دیتی رہی۔ اگرچہ ہندی چھند فارسی عروض کی جکڑ بندیوں کے تحت چست ہو کر اردو عروض کا حصّہ بنے۔ ۲جہاں تک اردو شعراء کے پیش نظر علمِ عروض کا تعلّق ہے، ہمیشہ فارسی عروض ہی مرجع سمجھا جاتا رہا۔ تا حال عربی، فارسی اور اردو عروض کو ایک وحدت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ چنانچہ متداول عروض سے مراد وہ علمِ عروض لیا جاتا ہے جو اصل میں عربی ہے، اس میں ترامیم اور اضافوں کے ذریعے اسے فارسی شاعری کے لیے کارآمد بنایا گیا ہے اور پھر اسے اردو پر مسلّط کر دیا گیا ہے۔ اس جبر کا نتیجہ داخلی تناقضات، حشو و زوائد، نقائص اور پیچیدگیوں کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ ۳
متداول عروض تکنیکی نقائص اور تناقضات سے بھرا پڑا ہے۔ تاریخی اعتبار سے عروض کا جائزہ لیا جائے تو تحقیقی نقطۂ نظر سے تامّل انگیز حقائق سامنے آتے ہیں۔ پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ عربی عروض کے مدوّن خلیل بن احمد الفراہیدی کی 'کتاب العروض ' ناپید ہے۔ نہایت با عظمت شخصیت ہونے کے باوجود اس کے حالات بہت کم ضبطِ تحریر میں لائے گئے۔ مختلف ثانوی ذرائع سے خلیل کے نظریات اخذ کیے گئے۔ اس ضمن میں قدیم ترین مرتّب ابن عبد ربّہ بھی بعض مقامات پر اس سے اختلاف کرتا ہے۔ ۴ابنِ رشیق کی کتاب 'العمدہ' میں ابو نصر الجوہری کی رائے کا حوالہ دیا گیا ہے کہ مفْعُوْلاتُ قابلِ ترک رکن ہے کیونکہ محض اس سے کوئی بحر نہیں بنتی اور نہ کسی وزن میں اس کی تکرار ملتی ہے۔ ۵ابنِ ندیم 'الفہرست'میں برزخ العروضی اور ابوالحسن علی بن ہرون کی کتابوں کا ذکر کرتا ہے جو خلیل بن احمد کے ردّ میں لکھی گئیں۔ ۶ اخفش(م ۲۲۱ھ) نے خلیل بن احمد کے عروض میں ایک غلطی کی نشان دہی کی کہ فاصلۂ صغریٰ سببِ ثقیل اور سببِ خفیف کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے بنیادی جزو قرار پانے کا سزاوار نہیں۔ یہ ایجاد کی غلطی تھی۔ ۷اخفش ہی نے بحرِ متدارک کا خلیلی عروض میں اضافہ کر کے متعلّقہ دائرے کا تکنیکی جواز مکمّل کیا۔ اس نے بعض دیگر تصرّفات بھی کیے جن کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔ ۸اخفش کے بعد ابوالعبّاس محمدالنّاشی الانباری نے از سرِ نو خلیلی قواعد پر تنقید کی۔ ابنِ خلکان ۹کے مطابق خلیل کی عظمت قائم ہو چکی تھی، اس لیے الانباری کے اعتراضات درخورِ اعتناء نہ گردانے گئے، اگرچہ وزن رکھتے تھے۔ مسعودی ۱۰'مروج الذّہب 'میں یہی بات کہتا ہے۔ ابوبکر محمد بن حسن الزّبیدی(م ۳۷۹ھ)۱۱ خلیل کی عروض پر دو کتابوں کا ذکر کرتا ہے اور تنقیص کرتے ہوئے اس کو ذہن کی عاجزی، فہم کی مغلوبی اور عقلوں کے مفضول ہونے کا باعث قرار دیتا ہے۔ یہ امر افسوس ناک حیرت کا باعث ہے کہ عرب ماہرینِ لسانیات نے نحو اور لغت پر تو ابدی قدر و قیمت کی حامل کتب یادگار چھوڑیں لیکن علمِ عروض پر بہت کم قدر و قیمت کی حامل اور بہت کم تعداد میں کتب لکھیں۔ متقدّمین کی کتب ہائے عروض آج کل ناپید ہیں اور اس موضوع پر قدیم ترین دستیاب رسالے تیسری صدی ہجری کے اوائل میں مرتّب ہوئے۔ ۱۲عربی عروض فی الحقیقت اردو اور فارسی عروض سے یکسر مختلف ہے اور اسے مذکورہ نظاموں کا منبع سمجھنا محض پیرویِ اسلاف و جمہور ہے۔ لہٰذا اس کا تذکرہ یہیں پر موقوف کر کے ہم فارسی عروض کی طرف آتے ہیں جس میں رائج تمام مقبول بحور اردو عروض کے ذخیرۂ بحور میں شامل ہیں۔
٭٭٭