صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


اردو تحریک

ڈاکٹر محمد شریف نظامی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

اردو پر خُود کش حملہ

اردو برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی ایک نمایاں پہچان رہی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اسے ہر آئین میں قومی زبان قرار دیا گیا۔ لیکن اسے وقتاً فوقتاً پرایوں اور اپنے "محسنوں" کے حملوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ تقسیم سے قبل پرائے اور اسکے بعد اپنے اس پر حملہ آور ہوتے رہے۔ اب صوبہ پنجاب کی حکومت نے اس پر حملہ کر دیا ہے۔ قدرے تفصیل میں جانے سے قبل قارئین کرام کو گزشتہ حملوں کی جھلکیاں دکھانا دلچسپ امر ہو گا۔

اردو 1849ء میں سکھ دور کے اختتام پر صوبہ پنجاب کے سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں رائج کی گئی۔ اس پر پہلا حملہ 1862 میں ہوا۔ اردو کے خلاف ایک زوردار مہم چلائی گئی اور صوبہ بدر کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ چنانچہ پنجان کے گورنر سر رابرٹ منٹگمری نے انگریز کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کا اجلاس طلب کر کے آراء حاصل کیں۔ اکثر شرکاء نے اردو کے حق میں تقاریر کیں اور یہ حملہ ناکام ہو گیا۔ نتیجتاً اردو سرکاری زبان رہی اس سخت جاں زبان پر دوسرا حملہ 1882ء میں کیا گیا۔اردو کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کیلئے ہنٹر تعلیمی کمیشن قائم ہوا۔ ایک سوالنامہ جاری ہوا اور بظاہر پنجاب سے اس کی بے دخلی کے واضح اشارے ملنے لگے۔ اگرچہ عوامی سطح پر اس حوالے سخت بے چینی پائی جاتی تھی لیکن وہ بیچارے تو روز اول سے مجبور ہی رہے ہیں۔ کوش قسمتی سے س رسید اس کمیشن کے رکن تھے۔ مسلمانوں کو انگریزی پڑھنے کی تلقین کرنے والے یہ مبلغ اردو سے بھی بے پناہ محبت کرتے تھے چنانچہ انہوں نے اس حملے کو بھی بڑے ٹیکنیکل طریقے سے ناکام بنا دیا۔ تیسرا حملہ 1908ء میں ہوا جب ڈاکٹر بی سی چٹرجی نے پنجاب یونیورسٹی کے جلسہ اسناد مین خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "پنجاب میں اردو کی جگہ پنجابی رائج کی جائے" مسلمانان پنجاب نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ چنانچہ آل انڈیا مسلم ایجوکیشن کانفرنس کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس میں علامہ اقبال، سر شیخ عبدالقادر، سر محمد شفیع، مولانا شاہ سلیمان پھلواری، سرامام علی اور مولوی محبوب عالم ایڈیٹر "پیسہ اخبار" اور دیگر مسلم زعماء شریک ہوئے۔ چنانچہ اردو حمایت میں ایک زبردست قرارداد منظور کی گئی اور ساتھ ہی چیٹر جی کی تجویز سے سخت اختلاف بھی ریکارڈ کیا گیا۔ اس طرح تقسیم ہند سے پہلے یہ تیسرا اور آخری حملہ بھی ناکام ہوا۔

قیام پاکستان کے بعد بنگال میں اردو کے خلاف آواز اُٹھائی گئی جسکے نتیجہ میں قائد اعظم مرحوم بنفس نفیس وہاں تشریف لے اور ڈھاکہ میں دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ اردو اور صرف اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہو گی۔ اگرچہ جب سے اب تک یہ انگریز کے ذہنی غلاموں کے چرکے مسلسل سہتی رہی لیکن ایوبی دور میں اس کے رسم الخط کو عربی کے بجائے سرے سے رعمن میں تبدیل کرنے کے عزائم کا اظہار کیا جانے لگا۔ اپس بار بابائے اردو مولوی عبدالحق، ڈاکٹر سید عبداللہ، مولانا صلاح الدین و دیگر نامور اردو نے اسکا بے مثال طریقے سے دفاع کیا اور اب کی بار بھی یہ خطرہ ٹل گیا جبکہ ان زعماء کے بعد احمد خان (ملیگ) مرحوم، صدر تحریک نفاذ اردو نے اپنی بساط کے مطابق قومی زبان کی حمایت کا علم بلند کئے رکھا۔ ان کی وفات کے بعد اردو "دشمنوں" کیلئے عملاً میدان صاف ہو گیا۔

خودکش حملہ آوروں کے متعلق اب تک جو معلومات ملی ہیں ان کے مطابق مسلمان نوجوان کو دنیا میں ہی جنت کی نعمتوں اور حوروں بہشت کے حسن دلفریب کی جھلکیاں دکھائی جاتی ہیں اور اس بات پر آمادہ کر لیا جاتا ہے کہ "اپنی جان کو دھماکہ مین اڑا کر ابدی جنت حاصل کو لو۔ اس عارضی زندگی و ناپائدار دنیا کو خیر باد کہو، اپنے ہم وطنوں کو خاک و کون مین لوٹاؤ اور ابدی زندگی کی خوشحالیوں سے متمتع ہو جاؤ"۔ بد قسمتی سے کچھ ایسی ہی صورت حال پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب مین آئینی تحفظ رکھنے والی اور قائد اور علامہ کی محبوب زبان اردو کے حوالے سے پیش آ گئی ہے۔ حکومت پنجاب کو اسکے مشیر حضرات نے اردو ذریعہ تعلیم کو اسکولوں سے بے دخل کر کے "انگلش میڈیم" کے نفاذ کے تحت ترقی اور خوشحالی کی جنت کا یقین دلایا ہے، لہذا خادم اعلی پنجاب برصغیر میں مسلم رہنماؤں کی اردو کیلئے دو توک حمایت اور جدوجہد کو ایک طرف رکھ کر پنجاب کو "جنت ارضی" بنانے پر تلے ہوں۔ یوں لگتا ہے کہ ان کے خیال مین متذکرہ قائدین اور پاکستان کے تمام آئین بنانے والے دور جدید کے تقاضوں اور انگریزی کی اہمیت سے قطعاً نا بلد تھے جبکہ حکومت پنجاب جو جنت حاصل کرنا چاہتی ہے بلاشبہ اس کی ترقی اور خوشحالی کے بجائے ناخواندگی اور جہالت کے فوارے تو ضرور ہی پھوٹ رہے ہو گے کیونکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 1943ء سے اس وقت تک چالیس لاکھ نوجوانوں کو صرف اس لئے جہالت کے غاروں میں دھکیل دیا گیا کہ وہ دسویں جماعت میں انگریزی (بطور مضمون) پاس نہیں کر سکے۔ اس طرح بی اے ، بی ایس سی کے حالیہ نتائج کے مطابق 78 فیصد ناکام ہوئے جن میں بہت بری اکثریت انگریزی میں فیل ہونے والوں کی ہے اور کم و بیش ہر سال ذہانت کا یوں قتل عام ہو رہا ہے۔ ایسا آخر کیوں نہ ہو؟ ہمارے ارباب اقتدار انگلش دیوی کے چرنوں میں اپنے نوجوانوں کی ذہانتوں کا خون یوں پیش نہ کریں تو وفاداری کا اور کیا ثبوت پیش کریں؟ لیکن ہم تو ان سے مخلصانہ گذارش کرین گے کہ اردو پر رحم فرمائیں اور قومی تشخص کے اثاثے کو تباہ نہ ہونے دیں۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول