صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


ہندوستان میں اردو سیاست کی تفہیم نو

اطہر فاروقی 

ڈاؤن لوڈ کریں 

حصہ اول

  ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

حصہ دوم

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

پیش لفظ

یہ تالیف ایک کوشش ہے ان تمام مسائل پر غور کرنے کی جو اردو زبان کی بقا اور ہمارے سماج میں اس کے تحفظ سے متعلق ہیں ۔ آزاد ہندوستان میں شمالی ہند کے سیاسی پس منظر میں یہ مسائل مسلسل بحث کا موضوع بنے رہے ہیں اور اس طرح سے موجودہ دور کی تاریخ کا یہ ایک باب ہیں ۔ اپنا شاندار ماضی کھونے کے بعد اب اردو ان لوگوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے جو مسلمان کہلاتے ہیں اور خود بھی اپنے ماضی میں کھوئے رہتے ہیں ۔ ایک وقت تھا کہ یہ تمام قوموں کی، خاص طور پر مسلمانوں ، سکھوں اور ہندوؤں کی مشترک زبان تھی لیکن آزاد ہندوستان میں خود ہندوؤں اور سکھوں نے اسے عمداً اپنے دائرۂ عمل سے خارج کر دیا ہے۔ اب ان کے بچے اس زبان کو نہیں سیکھتے۔

ممکن ہے کہ مستقبل کے ہندوستان میں اس زبان کے عام استعمال کے ایک سے زائد طریقۂ کار نکل آئیں ۔ میرے خیال میں اردو جو 160 لاکھ افراد کی مادری زبان ہے (2001 کے اعداد و شمار کے مطابق) اُسی وقت ایک کار گرد زبان بن کر زندہ رہ سکتی ہے جب کہ اسے ہندوستان کی ماڈرن زبان کی حیثیت سے اسکول کے نصاب میں شامل کیا جائے۔ (اس خیال کا اظہار دوسرے ادیبوں اور دانشوروں نے بھی بار بار کیا ہے جن کے مقالے اس کتاب میں شامل ہیں ) لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ نام نہاد ہندی علاقوں میں ، جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے، سیکولر تعلیم میں اردو کو جگہ دینے سے مسلسل احتراز اور انکار کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے اردو محدود ہو کر رہ گئی ہے ان مسلم اداروں اور مدرسوں میں جہاں غریب مسلم طلبا تعلیم پاتے ہیں ۔ اب یہ مسلمانوں کے کمزور طبقے میں زندہ ہے۔ مسلمانوں سے وابستگی کے سبب برصغیر کی تقسیم کے بعد یہ زبان ہندو اکثریت کی ناراضگی کا شکار ہو گئی ہے۔ حکومت نے اکثریت کے رویّے کو دیکھتے ہوئے اسے بلا تکلف اسکول کے نصاب سے خارج کر دیا۔ اردو کو کسی بھی ریاست میں دیسی زبان کی حیثیت سے قبول نہ کیا گیا۔ اس وقت بھی، جب زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی تنظیم نو عمل میں آئی تھی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں ، جہاں اردو سرکاری زبان تھی، کسی نے بھی اسے اپنی مادری زبان قرار نہ دیا۔ اس طرح حکومت کے ناموافق رویّے سے اردو والوں کے دستوری حقوق کی نفی ہوئی۔ اردو کو مذہب کے چوکھٹے میں جکڑ دیا گیا۔

چونکہ اردو کی تعلیم روزگار حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتی اس لیے شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کے اعلیٰ طبقے نے اس زبان کو یکسر مسترد کر دیا۔ اس اندیشے کے تحت کہ ان پر پاکستان (جس کی سرکاری زبان اردو ہے ) سے نسبت قائم کرنے کا الزام آئے گا، انھوں نے اردو سے سارے جذباتی رشتے توڑ دیے۔ درمیانی طبقے کی بڑھتی ہوئی نسل بھی اپنے آبائی مقامات سے ہجرت کرتی ہوئی اس زبان کو اپنے پیچھے چھوڑ آئی۔ کچھ حد تک ان سیاست دانوں کا کر دار بھی، جو سیکولر جماعتوں سے وابستہ ہیں ، سیاسی وجوہات کی بنا پرڈانواں ڈول ہو گیا ہے کیوں کہ وہ عام ہندوؤں کی اس رائے سے اختلاف کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے کہ اردو ان لوگوں کی زبان ہے جنھوں نے پاکستان بنانے کی حمایت کی تھی۔

اس میں شک نہیں کہ اردو ہندوستانی مسلمانوں کا ورثہ ہے اور ان کی محفوظ دولت ہے۔ یہ ہندوستان میں مسلمانوں کی شناخت کا ایک اہم وسیلہ بھی ہے۔ ان کی عوامی زبان بھی ہے۔ اسی سبب سے حکومت کے ہاتھوں اس کا گلا گھونٹنے اور اسکولوں سے اسے خارج کر دینے کے باوجود اس کا وجود مدرسوں کی وجہ سے ابھی بھی قائم ہے۔ لہٰذا اب بھی اس کا شمار مردہ زبانوں میں ہونے سے رہا۔ تھیوڈور پی رائٹ کی اصطلاح میں یہ ’’ماضی کی مقتدر زبان‘‘ ہے جسے آج قوسین میں محسوس کیا جا رہا ہے۔

اردو زبان کے مسائل کا مسلمانوں کے مسائل سے گہرا تعلق ہے۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان اس وقت سے قرار دیا گیا ہے جب انیسویں صدی کے اواخر میں ہندو احیا پرستی کی تحریک شروع ہو چکی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب دو علاحدہ تہذیبوں کے درمیان مذہبی بنیادوں پر لکیر کھینچ دی گئی تھی۔ یہ لکیر مذہبی بنیاد پر ملک کی تقسیم کے بعد مزید مستحکم ہو گئی۔ آزادی کے بعد زبان کے حوالے سے قوم کو دو جھٹکے لگے۔ کوئی بھی زبان اپنے بولنے والوں کو پروان چڑھانے میں اہم کر دار ادا کرتی ہے لیکن اب اردو زبان کو گہن لگ گیا ہے۔ اسے سیکھنے کے مواقع صرف مدرسوں میں حاصل ہیں ۔ نتیجتاً بعض مسلمان اسے اپنے مذہب کی سلامتی کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت میں لگے ہیں ۔ چوں کہ اس زبان میں ان کے مذہبی ادب کا سرمایہ محفوظ ہے اس لیے وہ ڈرتے ہیں کہ اردو کے زوال سے ان کا مذہبی ورثہ گم ہو جائے گا۔

میری عرض ہے کہ ہندو احیا پرستوں کے فرقہ وارانہ تعصب کے نتیجے میں اردو کے ساتھ بڑی نا انصافی ہوئی ہے اور خاص طور پر شمالی ہند میں اب اردو مذہبی معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مدرسوں میں علاحدگی پسند نصاب کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے طالب علموں میں بنیاد پرستی کے رجحانات بڑھتے جائیں گے۔ مدرسوں میں انھیں جدید سیکولر تعلیم نہیں دی جاتی۔ اس لیے ایک مشترک اور اجتماعی سماج میں مخصوص مذہبی تعلیم حاصل کرنے والوں اور دیگر جدید علوم سے نابلد ہونے والوں کا علاحدہ پسندی کی طرف مائل ہونا لازمی ہے۔ ایسے طالب علم کبھی کبھی کٹّر متعصبانہ زبان استعمال کرتے ہیں ۔ تب فرقہ پرست ہندو اس صورت حال کا استحصال کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت کی مہم چلانے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔

یہ کیفیت اس وقت تک بدلنے والی نہیں جب تک کہ اردو تعلیم کو سیکولر تعلیم سے مربوط نہ کیا جائے۔ اگر اردو کو دوسری زبانوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے تو مسلمان سرپرستوں کی اکثریت اپنے اپنے بچوں کو مدرسوں کے بجائے سیکولر اسکولوں میں بھیجے گی۔ یہ قدم بچوں کے نظریات کو وسعت دینے میں معاون ثابت ہو گا اور ایک جمہوری اور سیکولر نظام کو پروان چڑھائے گا۔ مسلم اکثریت کے پس ماندہ اور تنگ نظرانہ خیالات کو بدلنے کے لیے حکومت پر لازم ہے کہ اسکولوں کے نصاب میں اردو کو اس کا مستحق مقام دے۔ اس طرح کی پہل کی جائے تو ہندوستان کی ایک بڑی اقلیت کے نظریات کو جدید رجحانات سے روشناس کرانے اور انھیں لبرل بنانے میں بڑی سہولت ہو گی۔ ہم اپنے دانشوروں ، اسکالروں اور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری اصل غایت یہی ہے کہ وہ ہمارے ان خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے اور اردو کی سیاسی، سماجی اور تعلیمی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے اردو والوں کو سہولتیں دینے کی حمایت کریں اور اس زبان اور اس کے بولنے والوں کو سیکولر بنا کر قومی دھارے میں شامل کرنے کی جدوجہد میں حصّہ لیں تاکہ مسلمانوں میں بھی جدید اور سیکولر نظریات پروان چڑھیں ۔

اس کتاب کے مقالوں کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب Contextualizing Urdu سے متعلق ہے۔ اس باب میں ماضی کے پس منظر میں اردو کے موجودہ موقف پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پرتاپ بھانو مہتا، باربرامٹکاف، یو گیندر سنگھ اور تھیوڈور پی۔ رائٹ نے اپنے مقالوں میں اردو کے موجودہ موقف کو سماجی، سیاسی اور تاریخی پس منظر میں متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ سلمان خورشید صاحب کا دیباچہ اردو کے ساتھ سوتیلے برتاؤ اور اس کے نتیجے میں زبان نے کس طرح مذہبی شناخت حاصل کی، ان عوامل کا جائزہ لیتا ہے۔ ان کے پاس اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ اردو کو سیکولر نصاب کے ساتھ مربوط کیا جائے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر ہندوستان میں سیکولر اقدار قائم کرنا ہے تو اردو کی بقا ضروری ہے۔ پرتاپ بھانو مہتا کا مقالہ گواہی دیتا ہے کہ وہ اردو والوں میں سے ایک ہیں ۔ دوسرے مقالوں کی طرح اس میں تاریخی واقعات یا اردو کی عملی مشکلات کا ذکر نہیں ملتا بلکہ انھوں نے ایسے سوالات اٹھائے ہیں جو عام طور پر کسی بھی زبان اور خاص طور پر اردو زبان سے متعلق ہیں ۔ انھوں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سیاسی نظریات کی روشنی میں اردو کی بقا کے کیا امکانات ہیں ۔

باربرا مٹکاف نے اردو کے موقف کا تاریخی تجزیہ کیا ہے۔ ملک کی تقسیم کے سبب مسلمانوں کی زبان اردو قرار دی گئی ہے۔ تقسیم نے ان پر یہ بار ڈالا ہے کہ یہ زبان اور اس کے بولنے والے 1947 کے بعد اپنے لیے ایسی جغرافیائی حدود پیش نہ کر سکے جہاں ان کی آبادی اکثریت میں ہو۔ اس سے قطع نظر دستوری تحفظات نے بھی کوئی حمایت نہیں کی کہ ان لوگوں کو یہ زبان پڑھائی جاتی جن کی یہ مادری زبان ہے۔ انھوں نے تین مصلحت آمیز تراکیب کی نشاندہی کی ہے جن کو قبول کرنے سے اردو کی تعلیم میں اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ زیادہ سے زیادہ عوام تک پہنچ سکتی ہے۔ اوّل یہ کہ اس کی تعلیم کو ہندی کی تعلیم کے ساتھ مربوط کیا جائے۔ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اردو رسم الخط اور اردو کے الفاظ کے استعمال کا طالب علموں کو اختیار رہے۔ دوسرے یہ کہ پالیسی سازوں اور دیگر ادیبوں کو چاہیے کہ وہ اس یقین کے ساتھ کام کریں کہ اردو زبان کی اساس موجودہ ہندوستانی علاقے کی ہے اور اب اسے عبوری زبان کا درجہ ملنا چاہیے۔ ادیبوں اور ناشروں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جب بھی اپنی کتابیں ناگری زبان میں چھاپیں تو ان میں دونوں زبانوں کو شامل کریں تاکہ ناگری اور اردو میں لکھی ہوئی کتابیں ایک ساتھ مہیا ہو سکیں ۔ ان اقدامات کے ذریعے ہی اردو کو ہندوستانی عوام تک پہنچنے کا زیادہ سے زیادہ موقع فراہم ہو سکتا ہے۔

یو گیندر سنگھ اپنی دانست میں اردو کو مسلمانوں کی شناخت کا اہم وسیلہ سمجھتے ہیں ۔ انھوں نے شناخت اور اس کے قانونی جواز کے پہلو بہ پہلو ہندوستان میں مسلمانوں کا اردو سے تعلق جیسے مسائل اور ان کے مضمرات پر سوالات اٹھائے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمان قوم کی تہذیبی شناخت بھی اسی راہ سے گزری ہے جو لبرل اور سوشیل جمہوریت کے ساتھ ساتھ معاشی اور اجتماعی تہذیب کی راہ بھی ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس تہذیب کے بعض گوشے ایسے ہیں جو کلیتاً قوم کے اپنے نجی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اس علاحدگی کا بڑا سبب حکومت کی وہ تعلیمی پالیسی ہے جو علاحدگی کو بڑھاوا دیتی ہے اور جس سے مسلمانوں کی پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے مساوات کے رویّے سے انحراف برتا گیا ہے۔

تھیوڈور پی۔ رائٹ اردو کا دفاع دنیا کی ان بڑی زبانوں کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں جو سیاسی اور تاریخی پس منظر میں ممالک کی فتوحات یا ان میں آئے انقلابات کی بدولت یا تو قائم رہیں یا پھر نابود ہو گئیں ۔ قدیم اور عہدِ وسطیٰ کی یورپی (تارین فرنچ) اور ایشیا کی (پانچو) زبانوں کا موازنہ انھوں نے نوآبادیاتی دور کی زبانوں ، جیسے افریقہ اور لاطینی امریکہ کی زبانیں ، ان سے کیا ہے۔ ان کا تجزیہ عالمانہ بھی ہے اور خیال انگیز بھی۔ یہ نظریاتی سانچہ لسانیات کے مقابلے میں تقابلی سیاست سے تعلق رکھتا ہے۔

دوسرے باب میں جو ’’اردو اور شناخت کی سیاست‘‘ کے عنوان سے ہے، اس کا تعلق مذہب اسلام اور تہذیبی شناخت سے ہے۔ ارجمند آرا نے اپنے مقالے میں تجزیہ کیا ہے کہ کس طرح مسلم شناخت کو بنانے میں مدرسوں نے اپنا رول ادا کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ یہ ادارے سابقہ منصب دارانہ سوسائٹی کی دین ہیں جو اپنی تعلیمی پسماندگی سے چھٹکارا نہ پا سکے اور نہ ہی ہندوستان کے نئے سرمایہ دارانہ نظام کا ساتھ دے سکے۔ اسی لیے وہ ایسے ماڈرن تعلیمی نظام کی وکالت کرتی ہیں ، جو ترقی پذیر ہو اور جو آنے والی نسلوں کو ان کی بڑھتی ہوئی تعلیمی پس ماندگی سے نکالے اور ان کے مستقبل کو سنوارے۔

آمنہ یقین نے فرقہ واریت کے فروغ اور اردو ادب کے زوال کے اسباب کا مطالعہ کیا ہے۔ ہندوستان میں سیکولر تعلیم کے اداروں کا مفقود ہونا اس زوال کا بڑا سبب ہے۔ انھوں نے اردو سے متعلق انیتا دیسائی کی کتاب "In Custody" (ناول) کا حوالہ دیا ہے۔ اس ناول میں اردو والوں سے متعلق ان کے انکشافات کمزور ہیں ۔ اس میں اردو کے ایک عمر رسیدہ شاعر کا خاکہ پیش کیا گیا ہے اور اسے اردو بولنے والوں کا نمائندہ کہا گیا ہے۔ نام نہاد اونچے طبقے کے لوگ، جو ماضی میں اردو لکھتے اور بولتے رہے یہ ان کی زبان ہے۔ جو تصویر پیش کی گئی ہے وہ غیر حقیقی ہے، اس میں کوئی گہرائی نہیں ۔ لگتا ہے ہمارے دانشور بھی اسی طرح کے خیالی خاکوں کی پذیرائی کرتے ہیں اور ان پر اپنے نظریات قائم کرتے ہیں ۔ ممبئی کی فلموں میں جو اردو والوں کی نقالی کی جاتی ہے اور جس طرح ان کے مجازی نمونے پیش کیے جاتے ہیں ، اس سے ایک غلط تصور قائم ہوتا ہے۔ اس مقالے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو غیر اردو داں طبقہ ہے وہ اردو والوں کے بارے میں کس طرح کے نظریات رکھتا ہے۔ خاص طور پر وہ طبقہ جو سیاسی اور معاشی اعتبار سے امتیازی مقام کا حامل ہے۔

کیلی ہیر برٹن اور ڈانیلابریڈی نے اردو کی بقا سے متعلق ایسے سوالات اٹھائے ہیں جو قوم، زبان، شناخت اور اختیارات کے زمروں میں آتے ہیں ۔ اردو کو ہندوستان کے مختلف فرقوں میں باہمی ربط قائم رکھنے کا وسیلہ قرار دیتے ہوئے برٹن وکالت کرتی ہیں کہ اسے ایک ایسی زبان کے طور پر قبول کیا جائے جو الگ سے اپنی پہچان اور شناخت رکھتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایسا طریقۂ کار دونوں محاذوں پر اختیار کیا جانا چاہیے۔ ایک تو حکومت کی سطح پر اور دوسرے چھوٹے چھوٹے اداروں کی سطح پر: ایسی تفسیر جس کی مد د سے اس کے معیار کو قبول کیا جائے اور نظریاتی سطح پر اردو کے معنی و مفہوم کو کسی خاص طبقے تک محدود رکھنے کے بجائے اسے ایسی وسعت دی جائے کہ وہ سارے ہندوستان کے ادبی اور تہذیبی منظر نامے پر پھیل جائے۔

کتاب کا تیسرا باب سماجی موقف، تعلیم اور اردو کے عنوان سے ہے۔ اس میں دیگر موضوعات بھی شامل ہیں ۔ اطہر فاروقی نے ہندوستان کی چند بڑی اور نمائندہ ریاستوں میں اردو تعلیم کی ناگفتہ بہ صورتِ حال کا سروے کیا ہے۔

سید شہاب الدین نے سماجی اور سیاسی لحاظ سے اردو نے جن تلخ حقیقتوں کا سامنا کیا ہے، ان کی تصویر کھینچی ہے۔ انھوں نے جن اہم نکات کی وضاحت کی ہے وہ ہیں اردو سے مسلمانوں کا تعلق، مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کے ساتھ حکومت کا برتاؤ، تعلیمی میدان میں اردو کی زوال آمادہ کیفیت، اردو کتابوں کی کم اشاعتی اور ان کی عدم طلب اور اردو بولنے والے اونچے طبقے کا اردو سے سلوک۔ ان مسائل کا ہر سطح پر جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے ان کے حل تلاش کیے ہیں ۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی بڑی قربانی کی ضرورت نہیں ہے۔ دستور میں دیے گئے حقوق کو حکومت ہر سطح پر نیک نیتی سے پورا کرے۔ یہی ان کی تلقین ہے۔

کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ نے ہندوستانی دستور کی دفعات کی روشنی میں اردو تعلیم کے موقف کا سروے کیا ہے۔ انھوں نے 1983 اور 2001 کے درمیان ہندوستان کا مختلف اوقات میں دورہ کیا تھا۔ اور کرپلانی کمیٹی رپورٹ کے علاوہ چند منتخب ریاستوں کے مقامی اخباروں میں جو مضامین اور رپورٹیں چھپی تھیں ان سے مواد حاصل کیا اور ان کا جائزہ لیا۔ مزید برآں انھوں نے گزشتہ ان دو دہوں میں ہندوستانی اسکالروں کی سفارشات کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے اپنی ایسی تدابیر پیش کیں  جو اردو زبان کو ایک عام کار کرد زبان بنانے کے امکانات فراہم کر سکتی ہیں ۔ مختصراً یہ کہ ان کے مقالے میں اردو اور انگریزی کے میڈیم میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی بات بھی ہے اور اردو تعلیم کو پروان چڑھانے کا مشورہ بھی ہے۔

کیرن گرافن شاورِن ایک ماہر تعلیم کے نظریات پر مبنی، ڈاکٹر ذا کر حسین صاحب کی صدارت میں جو نئی تعلیمی اسکیم تیار کی گئی تھی اس کا حوالہ دیتی ہیں ۔ اسے واردھا تعلیمی اسکیم یا 1937 کی نئی تعلیمی اسکیم کہا گیا ہے۔ یہ اردو کی تعلیم اور اردو میڈیم کے بارے میں وضاحت کرتی ہے۔ اس اسکیم کے تحت اردو نے جو مادری زبان کا کر دار ادا کیا ہے اس کے بارے میں بحث کرتی ہوئی کیرن گرافن نتائج اخذ کرتی ہیں کہ اردو جو پاکستان اور ہندوستان کی عوامی زبان ہے وہ دنیا کے لسانی نقشے سے کبھی مٹ نہیں سکتی کیوں کہ لوگ اس کے شعر و ادب اور نزاکت کے گرویدہ ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ اس زبان میں مٹھاس بھی ہے۔

ہندوستان میں اردو کے موجودہ موقف کا جائزہ لیتے ہوئے حسن عبداللہ نے کئی سوالات اٹھائے ہیں ۔ وہ اردو کا ناتا سماج کے مختلف گروہوں سے جوڑتے ہیں ۔ اردو کا مقام، دوسری زبانوں کے ساتھ اس کا میل جول، یہ سب اسے ایک ماڈرن زبان کا درجہ دیتے ہیں اور اس کی اہمیت جتاتے ہیں ۔ اردو جاننے والے ذہین اور اونچے طبقے کا رول اور ان کا سماجی معاشی و علمی پس منظر، ان سب پر بحث کرتے ہوئے وہ چند سوالات اٹھاتے ہیں اور ان سب کے حوالے سے مفید مشوروں سے نوازتے ہیں ۔

جے۔ ایس۔ گاندھی نے اپنے مقالے میں وضاحت سے بیان کیا ہے کہ کس طرح 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد اردو کی مرکزیت کو زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا چھپا ہوا بیانیہ ان کے اپنے ذاتی تجربات اور یادداشتوں پر مشتمل ہے اور دکھ بھرا ہے۔ یہاں تقسیم اور طبقہ واریت کا سلسلہ تو قائم ہے لیکن ملاپ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ وہ یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ افرا تفری پالیسی محاذ پر غلط کار روائیوں کا نتیجہ ہی نہیں بلکہ فرقہ واریت کو ایک خاص گروہ سے منسوب کرنے کا سبب بھی ہے۔ اس رویّے کا اثر یقیناً منفی رہا ہے۔ اس کی تصحیح ہونی چاہیے۔ گزشتہ تمام واقعات کا سیاسی، سماجی اور نفسیاتی سطح پر ازسرِ نو جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ ہمارے مشترک تہذیبی ورثے کا احیا ہو۔

چوتھا اور آخری باب، اقلیتی زبان اور قوم، قانونی متعلقات پر ہے۔ ماہرین قانون نے اس موضوع پر مقالات تحریر کیے ہیں ۔ فالی ایس۔ ناریمان نے لسانی اور دستوری سانچے کو پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیمی موقف پر قلم اٹھایا ہے۔ وہ اکثریتی اور اقلیتی فرقوں کے باہمی رشتوں کو استوار کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ زبان کا مذہب سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور نہ ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر سیموئیل جانسن نے کہا تھا کہ زبانوں کی حیثیت کسی بھی ملک کے پرکھوں جیسی ہے۔ ہندی، اردو اور دوسری زبانیں جو آٹھویں ضمیمے میں شامل ہیں وہ ہندوستان کے پرکھوں میں شمار ہوتی ہیں ۔

سولی جے۔ سوراب جی نے بھی اقلیتوں کے موقف پر قلم اٹھاتے ہوئے ان کے مذاہب، ان کے تعلیمی اداروں ، ان کی زبانوں اور ان کے کلچر پر اظہار خیال کیا ہے۔ البانیہ کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے ایک عدالت کے فیصلے کا ذکر کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اگر اقلیتوں کو ان کے اپنے اداروں سے محروم کر دیا جائے تو پھر اکثریت کے ساتھ ان کی مساوات نہیں ہو سکتی، اسی سبب سے اوّل الذکر طبقے کے لوگ یہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے کہ انھیں اقلیتوں میں شمار کیا گیا ہے۔ قانون کی رو سے مساوات کا مطلب ہی یہ ہے کہ درحقیقت ایک ایسا سماجی نظام جنم لے جہاں ہر معاملے میں برابری ہو اور ساتھ میں توازن بھی برقرار رہے۔

یو گیش تیاگی کا مقالہ ہندوستان کی اقلیتوں کے قانونی موقف پر ہے۔ ان کی توجہ زیادہ تر اقلیتی زبانوں کے سوال پر ہے۔ کسی بھی ملک کے قانون میں اقلیتوں کی زبان کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ ان قوانین کا بین الاقوامی نظریات سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ ان کا مقالہ عمومی طور پر کسی بھی علاقائی اقلیتی زبان سے اور خاص طور پر اردو سے متعلق ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ قومی سطح پر اعداد و شمار جمع کیے جائیں اور انھی کی بنیاد پر اقلیتی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ ان زبانوں کا موثر طور پر تحفظ ہو اور یہ فروغ پا سکیں ۔

اب مجھے اس اہم سوال کی طرف لوٹنا ہے جو مادری زبان سے متعلق ہے۔ ہندوستان کے دستور کے مطابق ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جانی چاہیے۔ (دستور کی دفعہ 530-A ) اور حکومت کی پالیسی کے مطابق سہ لسانی فارمولے کو پانچویں کلاس اور اس سے اگلی کلاسوں پر لاگو کرنا چاہیے۔ اس طرح مادری زبان کو ابتدا ہی سے لازمی زبان کے طور پر (اگر ذریعۂ تعلیم اردو ہو تب بھی) پڑھایا جائے۔ شمالی ہند کی ریاستوں میں پہلی کلاس سے بارہویں کلاس تک ہندی ذریعۂ تعلیم ہے۔ پہلی جماعت ہی سے ہندی کو اول زبان قرار دے کر پڑھایا جاتا ہے۔ یہ سہ لسانی فارمولے کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس طریقۂ کار سے ہندی کو ان غیر ہندی دانوں پر بھی تھوپا گیا ہے جن کی مادری زبان ہندی نہیں ہے۔ ماڈرن زبان کی حیثیت سے اردو کو تیسرا درجہ بھی نہیں دیا گیا۔ اس کے بجائے سنسکرت کو ہندوستان کی ماڈرن زبان قرار دیا گیا ہے اور گھس پیٹ کر اسی کو پڑھایا جاتا ہے۔ ساتھ میں سنسکرت کو ہندی زبان کا لازمی جز قرار دے کر چھٹی جماعت سے بارہویں جماعت تک کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ یوپی میں اردو کے طالب علم کے لیے اپنی مادری زبان سیکھنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ لازماً اسے ہندی اور سنسکرت زبانیں سیکھنا پڑتی ہیں ۔

ان صداقتوں کے پیشِ نظر دستور کے حقوق اور اس کی دفعہ 350A کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ اردو یا دوسری اقلیتی زبانوں کو ابتدائی یا وسطانوی یا فوقانوی جماعتوں میں ذریعۂ تعلیم بننے کا موقع کہاں سے مل سکتا ہے۔ وہ طلبا جن کی مادری زبان اردو یا کوئی دوسری اقلیتی زبان ہے اس کی بقا کی کیا گنجائش ہے۔ یہ تو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا سوال ہے۔ ان میں مسلمان بھی شامل ہیں ۔

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ امتیازی برتاؤ کے خلاف دستور کے دیے گئے تحفظ کے باوجود اردو کو قومی دھارے کے سیکولر تعلیمی اداروں کے نصاب سے منظم طور پر خارج کر دیا گیا ہے۔ جامعاتی نقطۂ نظر سے یہ ممکن تھا کہ ایک ایسا فارمولا تجویز کیا جائے جس کی بدولت اردو کو اسکول کی تعلیم میں شامل کیا جا سکے لیکن جب اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی بات آئی تو اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔لہٰذا میں محسوس کرتا ہوں کہ اردو کو باقی رکھنا سیاسی ضرورت بھی ہو گی۔ اس کا حل سیاسی مصلحت کا مطالبہ کرتا ہے۔ ابھی تک حکومت اور اس کی تعلیمی ایجنسیاں ایسی پالیسیاں تجویز کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی ذمّے دار رہی ہیں جن کے تحت اردو کو منظم طور پر نصاب سے خارج کر دیا گیا۔ وجوہات واضح ہیں ۔ ہندوستان کا دستور تیقّن دلاتا ہے کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے لیکن زمینی حقیقت (ground reality) یہ ہے کہ فیصلہ کرنے اور دستور کو نافذ کرنے والے لوگ سیکولر نہیں ہیں ۔ یہی سبب ہے جو عوام، ان کے کلچر اور ان کی مادری زبانوں کو یکساں پروان چڑھانے میں مانع ہے۔ اردو واضح طور پر اس متعصّب ذہنیت کا شکار ہوئی۔

ایک طالب علم کی حیثیت سے میں زبان کی خوبیوں کو تلاش کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھ پاتا۔ کیا کسی اور کو بھی دیکھنا نہیں چاہیے کہ اردو جو ایک زندہ زبان ہے، اس کے کر دار کو دوسری زبانوں کے کر دار سے مختلف قرار دیا جائے۔ تعلیمی میدان میں جو رول اردو نے ادا کیا ہے اس کا تجزیہ ان سہولتوں کی روشنی میں کیا جانا چاہیے جو اسے سکنڈری اور سینئر سیکنڈری امتحانات کے بورڈ سے فراہم کی جاتی ہیں ۔ ساتھ ساتھ ان مسائل پر بھی غور کیا جانا چاہیے جو اردو والوں کے سماجی اور معاشی حالات کے پیدا کردہ ہیں اور جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اردو کو اختیاری مضمون کے طور پر قبول کریں ۔ قابلِ غور مسئلہ ہے کہ حکومت کے سہ لسانی فارمولے کو لازمی قرار دینے کے باوجود اگر کوئی طالبِ علم اردو سیکھنا چاہتا ہے تو اسے کوئی موقع فراہم نہیں کیا جاتا۔ کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ ہم اس اہم مسئلے پر غور کریں ۔ یہ واضح ہے کہ ہندوستان میں رہ کر اردو سیکھنا کسی بھی یورپی (سوائے انگریزی) زبان کے سیکھنے کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند ہے۔ شمالی ہندوستان میں کسی بھی دوسری علاقائی زبان کے سیکھنے سے زیادہ اردو سیکھنا مفید و کارآمد ہے۔ کم عمر طالب علموں کی معلومات محدود ہوتی ہیں وہ اپنے کیریر کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پاتے۔ اس لیے ان سے یہ کہنا کہ وہ فرانسیسی، جرمنی، اسپانش یا سنسکرت، آسامی، ملیالم جیسی کسی زبان کو تیسری زبان کی حیثیت سے سیکھیں تو یہ ان پر زائد بوجھ ڈالنے کے برابر ہو گا۔ اسکول سے تعلیم کی فراغت کے بعد ایک طالب علم خود سے فیصلہ کرنے کے موقف میں ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی بدیسی زبان یا کلاسیکل زبان یا جنوبی ہند کی کوئی بھی زبان سیکھے۔ انگریزی میڈیم،تعلیم پانے والے طالب علم کے لیے بھی، جس کی مادری زبان ہندی ہے (یا کوئی دوسری ہندوستانی زبان۔ خاص طور پر شمالی ہند میں ) اختیاری زبان کی حیثیت سے اردو مفید ہو سکتی ہے۔ چھٹی جماعت اور اس سے اگلی جماعتوں میں جہاں انگریزی زبان اول ہے، دوسری زبان کی حیثیت سے ہندی پڑھائی جا سکتی ہے اور اردو تیسری زبان کی حیثیت سے۔ مجھے یقین ہے کہ جدید ٹکنالوجی کے اس دور میں ان سوالات کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے گا۔ خاص طور پر ایسے دور میں جب کہ شناخت اور کلچر پر زور دیا جا رہا ہے، ان سوالات کی بڑی اہمیت ہے۔

اس کتاب میں شامل سارے مضامین ان معنوں میں مختلف ہیں کہ اردو سے متعلق نہ تو یہ کسی کی ایما پر خاص مقصد سے لکھے گئے ہیں اور نہ ہی یہ کسی غلط فہمی کو جنم دیتے ہیں ۔ گزشتہ پانچ سال سے مختلف ادیبوں تک رسائی اور ان سے تال میل کی وجہ سے یہ ممکن ہو سکا کہ ایسے مضامین بھی حاصل کیے جا سکے جو ہندی اردو سے متعلق متنازع ہیں ۔ تاریخی پس منظر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اور ماضی و حال کے سیاسی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے موضوعات کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس طرح کے بہت سے مسائل کا از سرِ نو جائزہ لینا ضروری ہے ورنہ ایسے بیشتر موضوعات از کار رفتہ ہو جاتے ہیں ۔ اردو کا تعلق اسی نوع سے ہے اور یہ لسانی تاریخ کے پس منظر میں بڑے ہی پیچیدہ مسائل کا سامنا کر رہی ہے جن میں ایسے نظریات کے منفی پہلو بھی ہیں جو جامعاتی سطح پر بڑے اہم اور قابل توجہ ہیں ۔

مجھے امید ہے کہ یہ کتاب اردو کے مسائل کو حل کرنے میں ممّد و معاون ثابت ہو گی۔ میں اس بات کو دہرانا چاہوں گا کہ ان مقالوں میں پیش کیے گئے نظریات اور مشوروں کو پیش نظر رکھا جائے تو اردو عام سماجی سطح پر (Civic Space) ہمارے ہمہ لسانی، ہمہ مذہبی اور ہمہ تہذیبی ماحول میں ایک کار کرد زبان ثابت ہو گی۔

میں تمام مقالہ نگاروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ مجھے یقین ہے کہ ان تمام احباب نے اپنے مقالوں کی تیاری میں اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے۔ بعض مصروف قلم کاروں نے اپنے مقالے مکمل کرنے میں دوسے تین سال لگائے اور بعض نے اس لیے بھی زیادہ وقت لیا کہ اس تھیم پر پہلے کوئی اکیڈمک تحریر موجود نہیں تھی۔ 1990 سے قبل اس موضوع پر صرف ایک ہی کتاب تھی۔ یہ کتاب بھی بہت پہلے 1974 میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کے صرف ایک باب میں شمالی ہندوستان میں زبان کی صورتِ حال کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک امریکن پروفیسر کی تحریر کردہ کتاب ہے جنھوں نے اس پر نظرِ ثانی بھی نہیں کی۔

مجھے امید ہے کہ زیرِ نظر کتاب آنے والے دنوں میں ان ریسرچ اسکالروں کی رہبری کرے گی جو اس موضوع سے دلچسپی رکھتے ہوں گے۔ اگر ایسا ہوا تو مجھے خوشی ہو گی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ میری کامیابی کا سہرا ان لوگوں کے سر ہے جن کے ساتھ میں نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس میں تبادلۂ خیال کیا۔ خاص طور پر میں منظر خاں مینیجنگ ڈائرکٹر کا ممنون ہوں کہ ان کی کرم فرمائی اور عنایات ہمیشہ میرے ساتھ رہیں ۔

نئی دہلی

اطہر فاروقی

٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

حصہ اول

  ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

حصہ دوم

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل


پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول