صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
اردو ناول کا ارتقا
ڈاکٹر سیّد محمد یحیٰی صبا
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
اس طرح اردو ناول کے پس منظر کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ مجموعی طور پر
یہ ترقی پسند نظریہ ادب اور زندگی سے قریب ہے۔ ہمیشہ سے یہ روایت چلی آ
رہی ہے ۔ہر دور میں بد لتی ہوئی زندگی کے رشتوں اور ہمت پر غور و فکر اور
اس کی معنویت کی کھوج کا ولولہ اور جذبہ انسانی جبلت میں پہناں رہا ہے۔اس
وقت پریم چند تاکا ہی طریقہ مستحکم طور پر رائج رہا ہے جو انسانی
زندگی کو خوشگوار بنانے کے ساتھ ترقی کے راستہ پر گامزن کرتی ہے۔ یہی وجہ
ہے کہ ایک اچھا ناول نگار اپنی حقیقی تجربات کے پیش نظر صداقت پر مبنی
ناول نگاری کرتا ہے اور تاریخ کی صداقتوں کو سماج میں رہنے والے انسانی
رشتوں سے جوڑ کر پیش کرتا ہے۔سماجی زندگی میں جو جو مسائل رونما ہو تے ہیں
اس میدان میں داخلی تجربہ ڈرامائی پیشکش اور علامتی اظہار و بیان کے جو
تجربے قراۃ العین حیدر نے کیئے ہیں۔ وہ اظہر من الشمس ہیں اور ان کی یہی
خصوصیت ان کو خاتون ناول نگاروں کا امام بنا دیتی ہے۔ اور سوال پیدا ہوتا
ہے کہ موجودہ دور میں ترقی پسند ناول ہمارے سماجی مسائل پر مبنی ہے یا
نہیں اور اس کے ذریعہ اس کا حل ممکن ہے یا نہیں اس کے بارے میں آپ کا ذہن
مبذول کر نا چاہوں گا کہ بیسویں صدی کے چوتھے دہائی کے بعد اردو ناول کا
موضوع شہری سماج ہو گیا ہے۔جب کہ ہندوستان میں اسی فیصد لوگ دیہات میں
بستے ہیں۔ وہ مزدور کسان، محنت کش اور معصوم ہیں۔ ان لوگوں کو بڑے بڑے
مسائل حادثات و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ ایسے ایسے مراحل سے
گذرتے ہیں جس کا ذکر آتے ہی کلیجہ تھام لینا پڑتا ہے ایسے لوگوں اور ان کو
ناول کا موضوع بنانے سے محروم رکھا ہے۔بہر حال جب ہم اردو ناول کے ارتقاء
کے متعلق بات کریں گے تو معلوم ہو گا کہ فی زمانہ اردو ناول کا موضوع اعلی
شہری سماج کا حلقہ بن گیا ہے اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اردو ناول نگاری
میں ایسے ناول نگاروں کا فقدان ہے جو دیہات کے سماج سے واسطہ رکھتے ہوں۔
ویسے حالات حاضرہ میں معدود چند لوگوں نے دہقان اور اس کے احوال، دیہات
اور دیہاتی ماحول پر مبنی ناول تخلیق کی ہے۔ مگر ان حضرات نے دیہات
کے محنت کش طبقے کی زندگی کو ایک چشم دہقان سے نہیں بلکہ جاگیردار یا
درمیانی طبقہ کی نظر سے دیکھا ہے۔ اس لئے ان کی انسان دوستی محنت کش دہقان
سے ان کی سچی محبت اور احساس قرابت کی جگہ ان کی حالت پر کرم یا درد مندی
کے جذبات کی چغلخوری یا مخبری کرتی ہے۔ ان حضرات کے ناولوں میں غریب اور
محنت کش انسانوں کی مظلومی کی تصویریں تو نظر آتی ہیں۔ مگر ظلم و ستم کے
خلاف ان کی نفرت ان کا جذبہ بغاوت ان کی روح کا کر ب و درد کا سراغ نہیں
ملتا۔ بیسویں صدی میں بانو قدسیہ ، خدیجہ مستور، ممتاز مفتی ، بلونت سنگھ،
ایم اسلم اور ابن سعید ویسے بڑے اور چھوٹے ناول نگاروں کا ایک قافلہ پیہم
رواں دواں ہے۔ان ناول نگاروں نے اپنے ناولوں میں تقسیم ہندسے پیدا ہو نے
والے پیچیدہ سیاسی ، اقتصادی، سماجی ، آپسی اختلاف نفاق معاشی بدحالی
سماجی نا برابری ،بے مروتی ، نا انصافی ، جبر و ظلم اور جاگیر دارانہ ظلم
و استحصال اور جغرافیائی اور ثقافتی و ادبی مسائل پر مبنی ناول تخلیق
کیئے۔تقسیم ہند کے بعد کے بڑے ناول نگاروں نے اس عہد کے حالات کو بڑی
فنکاری کے ساتھ قلم بند کیا ہے جہاں وہ لوگ اقدار کے زوال و انہدام کے
نوحہ گری کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔جتندر بلّو ، ہرچرن چاولہ ، انور خان
وغیرہ نے انسانی تضادات ، شدید رد عمل ہجرتوں کا سلسلہ اور ان سے متعلقہ
معاملات و حالات اور مسائل کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے۔ اسی عہد میں
بلونت سنگھ، کے ناول شہری عامیانہ پن کے زد کا شکار رہی ہیں۔جمیلہ ہاشمی،
، مستنصر حسین تارڑ کے ناولوں میں دیہات اور شہر کی دوئی اور باہمی ترسیل
کا بحران ہے۔ سید محمد اشرف کے ناول میں ثقافتی اداروں کے زوال و انتشار
اور انسانی غم و الم افسر دگی اور حر ماں نصیبی رقص کرتی ہیں۔ جیلانی بانو
کے ناولوں میں متعدد قسم کے مر دو عورت کے کر دار ملتے ہیں اور دبی زبان
میں جنسی معاملات اور عاشقانہ واردات کا تفصیل و تشریح دکھائی دیتے ہیں۔
ساجدہ زیدی کھلے انداز میں غیر روایتی جنسی رشتوں کی پیش کش کر تی
ہیں۔ ریوتی سرن شرما کے ناول کی عورت جہاں رشتہ ازدواج کی حدود کے اندر
رہنے کے باوجود اپنی انفرادی شناخت کا حق مانگتی ہے۔اس کے علاوہ
بیسویں صدی کو الوداع کہہ کر اکیسویں صدی کو خیر مقدم کرنے والے
ناول نگاروں میں نئے اور پرانے چراغوں کا متحرک اور فعال قافلہ
ہے جو پیہم ہر گام اپنے منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہے جس میں
مظہر الزماں ، کوثر مظہری، فہمیدہ ریاض اقبال مجید، انور سجاد ، عمراؤ
طارق، احمد داؤد، آغا سہیل، فخر زمان ، طارق محمود، خالد سہیل، شام بارک
پوری، محسن علی ، یعقوب یاور، پروفیسر محمد حسن،، الیاس احمد گدی ،
غضنفر،گیان سنگھ شاطر، احمد صغیر ، وبھوتی نرائن ، شام سندر آنند وغیرہ
قابل ذکر ہیں۔
جس میں مصنف الیاس احمد گدی نے
صوبہ بہار کے شہر ’’جھریا‘‘ کے ایک چھوٹے سے علاقے کو اپنی نگاہ میں رکھا
ہے۔ ناول میں ’’فائر ایریا‘‘ کو بلیغ اشاریہ کے طور پر استعمال کیا
گیا ہے۔ اس میں صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ صنعتی نظام نے استحصال کی جو
شکلیں اختیار کیں ہیں اس کی روداد پیش کی گئی ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ
ہو گا کہ جس طرح الیاس احمد گد ی کا ناول ہم عصر صنعتی ترقی کے در پردہ اس
مکر وہ استحصالی نظام کا مرقع ہے جو طبقاتی معاشرے کا لازمی وصف ہے اور جو
اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ جاگیردار نہ عہد اور انگریزوں کی غلامی سے
نجات کا دعویٰ اور صنعتی ترقی کی چمک دمک اس طبقے کے لیے بے سود و بے معنی
ہیں۔ ’’فائر ایریا‘‘ کا موضوع ایک مسلسل نا انصافی اور ایک مسلسل استحصال
ہے جسے مصنف نے بچپن سے جوانی تک اپنے آس پاس مسلسل دیکھا تھا۔ وہ جانتے
تھے کہ کول فیلڈ کی اپنی ایک الگ دنیا ہو تی ہے ، استحصال کا کرب
مزدوروں کے ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن وہ گھٹ گھٹ کر زندگی کا زہر
پینے پر مجبور ہو تے ہیں۔حق کی آواز بلند ہو تی ہے لیکن وہ اتنی بے رحمی
سے دبا دی جاتی ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بھوک ، مجبوری ، لاچاری،
بے بسی، غریبی، اور ظلم کا ننگا ناچ روز مرہ کی زندگی کا ایک حصہ بن
جاتا ہے۔ الیاس احمد گدی نے اپنے ناول میں اس ماحول کی تصویر پیش کر تے
ہوئے جس عمیق تجربے اور مشاہدے کو بروئے کا رلاتے ہیں اس کو دیکھ کر محسوس
ہوتا ہے کہ اس ناول کو لکھنے کا حق صرف اور صرف انہیں ہی حاصل
تھا۔’’فائر ایریا‘‘ کا محور جس صنعتی و سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی ہے
وہاں کے مزدور سیکٹر کے ٹریڈ یونین کی سیاست کی مختلف شکلیں ، اس کے مختلف
رخ، جس مہارت کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں وہ قابل تعریف ہے الیاس احمد گدی نے
ناول کے فن کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا تھا ، وہ اس فن کی بوطیقا کو بہت
اچھی طرح سمجھ چکے تھے اس خوبی سے کہ فائر ایریا لکھتے ہوئے وہ اس فن کے
کسی حصے پر اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کر تے۔ پلاٹ سے کر دار نگاری تک
اور نظریاتی شعور سے اسلوب بیان تک ہر مرحلہ انہوں نے بے حد فنکاری کے
ساتھ طے کیا ہے اور فنی جمالیات کی قدروں سے کہیں بھی رو گردانی
نہیں کی ہے ایک سچے فنکار کی طرح ان کا خمیر ان کے اردگرد کی حقیقتوں سے
تشکیل پاتا تھا اس لئے ان کے یہاں حقیقت پسندی نظریاتی ہے اور ان کے الفاظ
طبقاتی احساس و شعور سے لبریز ہو نے کے باوجود پڑھنے والے پر معروضی
تاثر چھوڑ تے ہیں۔’’فائر ایریا‘‘ کے بعض واقعات مثلاً مجمدار کے قتل کی
پلاننگ اور مجمدار کی موت کے بعد ایک جاہل اور گنوار عورت کا جلوس کے ساتھ
ساتھ قاتلوں کو پھانسی دینے کا نعرہ لگا نے وغیرہ کو بعض حضرات فلمی انداز
کا عیب قرار دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ محترم وہاب اشرفی جیسے ناقد نے بھی اسے
میلو ڈرامائی کیفیت سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ
واقعی فائر ایریا کے کچھ واقعات خاص کر قتل و خون اور جلسہ و جلوس کے
مناظر انتہائی میلو ڈرامائی اور ایکدم فلمی انداز لئے ہوئے ہیں لیکن اسے
تخیل کی دین سمجھ کر فلمی اور غیر اصلی سمجھ لینا صحیح نہیں کیوں کہ کول
فیلڈ میں رہنے والے جانتے ہیں کہ وہ ایسی جگہ ہے جہاں ایسے واقعات دن رات
پیش آتے رہتے ہیں۔ عورتوں کا جھنڈا لے کر جلوس میں شامل ہونا ایک عام بات
ہے۔ جبر اور استحصال سے قطع نظر بالکل آمنے سامنے صف آرا ہو نے کی کیفیت
وہاں موجود ہے دوسرے یہ کہ ہماری زندگی پر آج میڈیا کا بے پناہ اثر بالکل
واضح ہو گیا ہے اس لئے تخلیقی ادب کو میلو ڈرامائی کیفیتوں سے نزدیک رکھنے
کو عیب کے بجائے خوبی میں شمار کرنا چاہئے۔ ایسے چند گنے چنے لوگوں میں
الیاس صاحب کو آسانی سے رکھا جا سکتا ہے۔ ایسا اس لیے بھی کہ الیاس کہانی
کہنے کے فن سے واقف ہیں اور انہیں ماجرا سازی کا ہنر آتا ہے۔ کچھ بر س
پہلے ہندی کے مشہور کتھاکار سنجیو کا ایک ناول شائع ہوا تھا۔ ساودھان!
نیچے آگ ہے ،۔۔۔یہ ناول فائر ایریا یعنی کول فیلڈ میں کام کر نے والے ان
مزدوروں کی زندگی پر مبنی تھا جو اندر دہک رہی آگ کی بھٹی میں اپنے حال
اور مستقبل کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔تب خیال آیا تھا یہ ناول غیاث
صاحب نے کیوں نہیں لکھا ؟ یا اس موضوع پر الیاس صاحب نے قلم کیوں نہیں
اٹھایا جب کہ ان کا تعلق اسی فائر ایریا سے ہے۔جہاں اکثر مزدوروں کی زند
گی کا سودا ہوتا رہتا ہے۔اس لحاظ سے میں الیاس احمد گدی کو مبارک
باد پیش کرتا ہوں کہ اس بہانے انہوں نے کولیری کی اس دنیا میں جھانکنے کی
کوشش کی ہے ، جہاں گھٹن ہے ، گھپ اندھیرا ہے ، کھولتے ہوئے گرم لاوے
ہیں۔۔۔۔ اندر آگ ہے اور اس آگ میں گندن کی طرح پیتا ہوا مزدور ہے۔ الیاس
نے اس ناول میں کہیں شاعری نہیں کی ہے۔ ماحول ویسا ہی پیش کیا ہے جیسا
کولیری کا ہو نا چاہئیے کر داروں کے مکالمے ویسے ہی رہنے دیے ہیں جیسا کہ
وہ بولتے ہیں۔ علاقائی زبان کے علاوہ بہار کی دوسری بول ٹھولی پر بھی
الیاس کی گرفت مضبوط ہے۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فائر ایریا کی تخلیق وہ شخص
کر رہا ہے جو بہار کے جغرافیائی حدود ، زبان ، ماحول اور کلچر سے بخوبی
واقف ہے۔ اس واقفیت نے فائر ایریا کو ایک عمدہ اور کامیاب ناول بنا دیا ہے
یہ مکمل طور پر ریسرچ کا موضوع تھا ایسے ناول کی تخلیق ہو ا میں
ممکن نہیں تھی۔
اردو میں آج بچوں کا ادب
لکھنے والا کوئی نہیں۔ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے۔بڑے ادیب بچوں کے لیے
لکھنا کسر شان سمجھتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے لیے لکھنا انتہائی
ذمہ داری کا اور مشکل کام ہے۔ کہانی انکل کی کہانی بچوں کے گرد گھومتی ہے
ایک کہانی انکل ہیں جو کہانیاں سناتے ہیں اور ڈھیر سارے بچے ہیں جو کہانی
انکل کو ہر وقت گھیرے رہتے ہیں۔ غضنفر کا اپنا ایک منفرد اسلوب۔ اور یہ
نیا ڈکشن یا اسلوب اس ناول میں بھی نظر آتا ہے یعنی ایسا انوکھا ڈکشن ،جس
سے بچے اور بڑے دونوں ہی لطف اندوز ہو سکیں اور کہنا چاہیے غضنفر اپنے اس
ڈکشن کی دریافت میں کامیاب ہیں۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ کہانی انکل ناول
ہے نہیں ، ناول بنا یا گیا ہے۔ اور اس کے لیے بس تھوڑی سی مغزماری کی گئی
ہے۔ یعنی کہانی والے انکل اور بچوں کا سہار لیا گیا ہے۔ اس کی زیادہ تر
کہانیاں پہلے ہی رسائل و جرائد میں چھپ چکی ہیں ہاں حیرت والی کہانی کا
ایک حصہ وکٹر ہیو گو کے مشہور ناول Less miserable کی یاد دلاتا ہے خاص کر
یہ حصہ۔ اندھا دیکھ رہا تھا ، آنکھ والا ٹھوکر کھا رہا تھا لنگڑا دوڑ رہا
تھا Less Miserable کا پادری جب اندھوں کی نگری میں پہنچتا ہے تو اس کے
ساتھ کم وبیش یہی واقعہ پیش آتا ہے۔
ادب ، ادب ہوتا ہے۔ ادب میں کشف و کرامت اور معجزے جیسی کوئی چیز نہیں
ہوتی۔ مگر جب کبھی گیان سنگھ شاطر جیسی حیرت زدہ کر دینے والی کوئی کتاب
سامنے آتی ہے تو اس اکیسویں صدی میں بھی معجزے کا قائل ہونا پڑتا ہے۔یہ
ایک سوانحی ناول ہے اور اسے قلم بند کر نے والا فن کار وہ ہے جس نے اپنی
شخصیت کی پرتیں کھولنے کے لیے اس زبان کا انتخاب کیا ، جس زبان سے وہ خود
بھی انجان تھا لیکن وہ محسوس کرتا تھا کہ جذبات و احساسات کے اظہار
کے لئے اردو سے بہتر کوئی دوسرا وسیلہ نہیں۔ حقیقت شناسی کی جس سڑاند ھ سے
وہ اپنی ذات کے موتی لٹانا چاہتا تھا اس کیلئے صحیح معنوں میں اردو زبان
کی Flexibility کی ضرورت تھی۔ اس زبان کی رعنائی، دلکشی، شیرینی، روانی،
لطافت اس آپ بیتی کو بھر پور صحت اور زندگی بخش سکتا تھا۔گیان سنگھ شاطر
ایک تو سب سے بڑی خوبی مجھے یہ نظر آتی ہے ، آنکھیں کھولتے ہی یہ اپنی ذات
کے تعاقب میں نکل پڑا۔ اور ایسا لکھا کہ آپ کبھی بھی واقعہ کی حقیقت سے
انکار نہیں کر سکتے۔ ایک فن پارہ کی اس سے زیادہ کامیابی اور کیا ہو
گی؟۔یہ کتاب صرف آپ بیتی تک محدود نہیں ہے شاطر نے اس میں ایک پورا جہان
آباد کر رکھا ہے جانا پہچانا بھی اور ان دیکھا سا بھی ایک ماں ہے۔شفقتوں
والی ماں۔۔۔ بیٹے پر اپنی دعاؤں کا سایہ کر نے والی ماں۔۔۔ اپنے شوہر کے
سائے سے ڈر جانے والی ماں۔۔۔ اندر ہی اندر ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر نے والی ماں ،
روایتی زنجیروں میں جکڑی ڈری ڈری سی خوفزدہ سی ماں۔۔۔ ایک تا یا بھی ہیں
جو عورت کی عظمت کے قائل ہیں انتہائی فیاض ، بردبار، ایک ایسا انسان جو
کسی کا بھی آئیڈیل ہو سکتا ہے۔ اور ایک بھائیا جی جو انسانوں سے حیوانوں
جیسا اور حیوانوں سے درندوں جیسا سلوک کر تے تھے۔۔۔تایا جہاں عورت کو
تخلیق کا سر چشمہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ عورت ہی سرشٹی ہے ، وہیں
بھائیا جی کی رائے بالکل مختلف ہے وہ کہتے تھے۔۔۔’’عورت اور کتیا کی
نفسیات ایک سی ہے۔۔اسے روٹی کپڑا نہ دو اس چڈے سے لپٹے رہو اور تھن چوستے
رہو۔ یہی اس کی زندگی ہے اور یہی آسودگی۔‘‘ یہ دو غیر معمولی کر دار ایسے
ہیں ، جو اردو ادب کی تاریخ میں اضافہ تو ہیں ہی شاطر کا مقام متعین کر نے
میں بھی مدد دیتے ہیں۔ عجیب و غریب کر دار تایاجی جہاں ایک آئیڈیل کے طور
پر دل و دماغ کے گوشہ میں اپنی جگہ محفوظ کرتے ہیں ،وہیں بھائیاجی
کی عورتوں کے بارے میں سوچ، بھائیاجی کی گفتگو ، ان کا لب و لہجہ۔۔۔ اگر
منٹو کے بارے میں کہا جائے کہ اس نے صرف ٹوبہ ٹیک سنگھ دیا ہو تا تب بھی
اردو ادب ان کا احسان مند ہو تا۔۔۔یہی بات ان کر داروں کے حوالے سے کہی جا
سکتی ہے ایسے ناقابل فراموش کر دار سے گیان سنگھ شاطر اردو زبان کا دامن
وسیع کر گئے ہیں۔ ایک طرف جہاں یہ انوکھے کر دار ہیں اور شاطر کا بچپن ہے
اس کا نسائی حس ہے ، اس کی جوانی ہے ، جوانی کی تر نگیں ہیں ، سرمستیاں
ہیں اور مجبوریاں ہیں ، وہیں سرزمین پنجاب میں اگی ہوئی وہ حیرانیاں ہیں ،
جنہیں دیکھنے کی تاب رکھنے والی آنکھیں ہونی چاہئیں اور جسے اپنی مخصوص
انداز بیان میں ، شاطر نے انوکھا پنجاب بنا دیا ہے۔بید ی نے اپنے کہانیوں
میں جس پنجاب کا چھلکا بھر ا تھا، بلونت سنگھ نے جس کی گودے میں
پنجابی مردوں کی آن ، بان اور شان دیکھنے کی جرأت کی تھی ، شاطر نے اس
پورے پنجاب کو تہہ در تہہ اس طرح کھول دیا ہے کہ آنکھیں ششدر رہ جاتی ہیں۔
٭٭٭