صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


اردو کی کہانی

پروفیسر احتشام حسین

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

زبانوں کا گھر، ہندوستان

ہندوستان ایک لمبا چوڑا دیش ہے جس میں کہیں اُونچے پہاڑ اور گہری ندیاں راستہ روکتی ہیں کہیں پھیلے ریگستان ہیں جِن میں آبادی کم ہے کہیں زمین سونا اُگلتی ہے،کہیں بنجر ہے اور کچھ پیدا نہیں ہوتا۔ پھر یہاں کے بسنے والوں کو دیکھو تو کالے بھی ہیں اور گورے بھی، خوبصورت بھی ہیں اور بدصورت بھی، لمبے قد والے بھی ہیں اور چھوٹے قد والے بھی، جنگلیوں کی طرح زندگی بسرکرنے والے بھی ہیں، اور بڑے بڑے شہروں میں رہنے والے بھی۔ یہاں نہ جانے کِتنی طرح کے لوگ مِلتے ہیں۔ اور کِتنی طرح کی زبانیں اور بولیاں بولتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جِن کو ہندوستان میں بسے ہوئے پانچ ہزار برس سے بھی زیادہ ہو گئے، کچھ ایسے ہیں جو تھوڑے ہی دِنوں سے یہاں آباد ہیں، ایسے دیش میں عجیب عجیب ڈھنگ کی قومیں ہوں گی اور عجیب عجیب زبانیں، لیکن اِس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ یہ تو اِس مُلک کے بڑے ہونے کی نشانی ہے کہ اِس میں الگ الگ ہونے پربھی سب کے مِل جُل کر رہنے کی گنجائش ہے۔

یہ بتانا کٹھن ہے کہ پانچ ہزار برس پہلے یہاں کون لوگ بستے تھے مگر اب بہت سے لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ اِسی زمانے سے یہاں دُور دُور کے لوگ آنے لگے۔ اِتنا سمجھ لینا کچھ مُشکل نہیں ہے کہ پہلے دُنیا کے زیادہ تر لوگ وحشیوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے اور کھانے پینے کی کھوج میں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں مارے مارے پِھرتے تھے، جانوروں کا شِکار کرتے تھے یا درختوں کے پھل پتّے اور جڑ کھا کر پیٹ بھرتے تھے۔ اِن میں کے کچھ لوگ یہاں بھی پہنچے، اُن کی نسل کے لوگ اب بھی بنگال، بہار، چھوٹا ناگپور اور وندھیاچل کے پہاڑوں کے قریب پائے جاتے ہیں۔ وہ جو زبان بولتے تھے وہ آج بھی الگ ہے، اِن میں سے کول اور منڈا قبیلے مشہور ہیں اور اپنی بولیاں بولتے ہیں(یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ دُنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جو کوئی بولی بولتی نہ ہو یہی بات تمام انسانوں میں مِلتی ہے ) اُن کے ہزار ڈیڑھ ہزار برس کے بعد دراوڑ لوگ پچھّم کی طرف سے وہ لوگ آئے، جنھیں دراوڑ کہا جاتا ہے یہاں اُنھوں نے خوب ترقّی کی۔ آج بھی مدراس،میسور، آندھر پردیش اور کیرل میں یہی لوگ آباد ہیں۔ تم نے تامل، تیلگو زبانوں کے نام سنے ہوں گے یہ اُنھیں لوگوں کی زبانیں ہیں۔ اِن لوگوں نے قریب قریب ساڑے چار ہزار برس پہلے سندھ اور پنجاب میں بڑے بڑے شہر بسائے اور اچھّی اچھّی عمارتیں کھڑی کیں۔ بہت دنوں تک اِن کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا مگر کوئی پچاس برس ہوئے کھدائی کر کے ہڑپّا اور موہن جُدارو کے شہر نکالے گئے ہیں جِن کو دیکھ کر ہم اِن پُرانے لوگوں کی زندگی اور رہن سہن کے بارے میں بہت سی باتیں جان سکتے ہیں۔ آج یہ علاقے پاکستان میں ہیں۔

یہ تو تھا ہندوستان کا حال۔ باہر ایران، چین اور ترکستان وغیرہ میں ایک اور قوم جسے عام طور سے تاریخ میں آریہ کہا جاتا ہے ترقّی کر رہی تھی۔ یہ لوگ بہادُر تھے، اچھّی شکل رکھتے تھے، گھوڑے سے کام لینا اور کھیتی کرنا جانتے تھے۔ کوئی ساڑھے تین ہزاربرس ہوئے یہ لوگ ہندوستان میں آئے اور اُنھوں نے یہاں کے پُرانے بسنے والوں کو ہرا کر اتّری بھارت میں اپنا راج قائم کیا۔ اِن لوگوں نے بہت سی نظمیں،بھجن اور گیت لِکھے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ لوگ جو زبان بولتے تھے اُسے آریائی زبان کہتے ہیں۔ سَنسکرت اُسی کی ایک شاخ ہے۔ یونانی،جرمن، پُرانے زمانے کی فارسی اور یورپ کی کئی زبانیں اِسی خاندان سے تعلّق رکھتی ہیں، اور جب تم آگے بڑھ کر اِن زبانوں کو پڑھو گے تو معلوم ہو گا کہ سب ایک دوسرے سے مِلتی جُلتی ہیں۔ زبانوں کی کہانی بڑی لمبی ہے مزے دار ہے مگر یہاں اُس کے بیان کرنے کا موقع نہیں ہے، بس یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سَنسکرت اُنھیں ہندوستانی آریوں کی زبان تھی، تمام لوگ سَنسکرت نہیں بول سکتے تھے، یہاں کے پُرانے بسنے والے یا تو اپنیِ پُرانی بولیاں بولتے تھے یا مِلی جُلی زبانیں۔ دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ سَنسکرت اُونچے ذات کے ہندوؤں کی زبان ہو کر رہ گئی،عام لوگ اُس سے دُور ہو گئے۔ یہ لوگ جو زبانیں بولتے تھے اُن کو پراکرت کہتے ہیں، پراکرت ایک زبان نہیں تھی بلکہ الگ الگ علاقوں کی الگ الگ پراکرتیں تھیں۔

حضرت عیسیؑ کے پیدا ہونے کے لگ بھگ چھ سو برس پہلے ہندوستان میں گوتم بُدھ اور مہابیر جیسے دھرماتماؤں کا جنم ہوا۔ اِن لوگوں نے بُدھ اور جین مت پھیلایا۔ اپنی باتیں کہتے ہوئے اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ مذہب اور دھرم کی ساری باتیں اُنھیں زبانوں میں ہوں گی جو جنتا بولتی اورسمجھتی ہیں۔ یہ دھرم خاص کر بُدھ دھرم بڑی تیزی سے پھیلا اور ہندوستان سے نِکل کر برما، چین،جاپان، ملایا، انڈونیشیا، ایران اور دوسری جگہوں پر پہنچا۔ جو بات اِس وقت یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ بُدھ مت کی وجہ سے سَنسکرت کو دَھکا لگا اور دوسری بولیاں اور زبانیں ترقّی کرنے لگیں۔ ڈیڑھ ہزار برس تک یہی سلسلہ جاری رہا۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سَنسکرت ختم ہو گئی، نہیں، بلکہ سَنسکرت میں تو اچھّے اچھّے ناٹک اور اچھّی اچھّی کِتابیں بعد ہی میں لِکھی گئیں مگر اِتنا ضرور ہوا کہ دوسری زبانیں جو دبی پڑی تھیں، اُبھریں اور لوگ اُن سے بھی کام لینے لگے۔

ہندوستان لمبا چوڑا ملک توہے ہی، کِسی حِصّہ میں کوئی پراکرت بولی جاتی تھی کِسی میں کوئی۔ اب جو بُدھ مت کا مقابلہ کرنے کے لیے سادھو اور سنت پیدا ہوئے تو اُنھوں نے بھی عام لوگوں پر اپنا اثر ڈالنے کے لیے پراکرتوں ہی میں گیت اور بھجن لِکھے اور دھرم کرم کی باتیں کیں۔ اُس وقت دوسری پراکرتوں یا زبانوں کا ذِکر کرنے کی ضرورت نہیں، اتّری بھارت میں جو پراکرت بولی جاتی تھی، ہمیں اِسی سے کام ہے اِس پراکرت کو شورسینی کہتے تھے۔ اُسی کے پیٹ سے وہ بھاشائیں پیدا ہوئیں جن کو ہندوستانی، ہندی اور اُردو کہتے ہیں۔

بنگالی، مراٹھی، گجراتی، پنجابی، سندھی، آسامی اور اُڑیا بھی نئی آریائی زبانیں ہیں یہ بھی تاریخ کا ایک دِلچسپ اتفاق ہے کہ جب مسلمان ہندوستان میں آئے تو اِن زبانوں کی بھی ترقّی ہوئی۔

اگر اُوپر لِکھی ہوئی باتیں یاد رکھی جائیں تو آگے کی کہانی اور زیادہ سمجھ میں آئے گی۔ اور معلوم ہو گا کہ ۱۰۰۰ ؁ کے بعد سے جونئی زبانیں ہندوستان میں بولی جانے لگیں اِن میں ایک اُردو زبان بھی ہے، یہ زبان کہیں باہر سے نہیں آئی، یہیں پیدا ہوئی اور یہیں کے لوگوں نے اُسے ترقّی دی، اس کی بناوٹ، اِس کا رنگ رُوپ سب ہندوستانی ہے اگر یہ زبان کِسی دوسرے ملک میں بھی بولی جانے لگیں تو یہ وہاں کی زبان نہیں بن جائے گی۔ ہندوستانی ہی رہے گی۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں  

   ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں  مشکل؟؟؟

یہاں  تشریف لائیں ۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں  میں  استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں  ہے۔

صفحہ اول