صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


اُلفت، دہشت اور سیاست

ڈاکٹر سلیم خان

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

اقتباس

    شرجیل کے گھوڑے کی ٹاپ سے سارا جنگل گونج رہا تھا۔ بدحواس ہرن بے تحاشہ بھاگ رہا تھا اور اس کے پیچھے شرجیل دیوانہ وار دوڑ رہا تھا۔ایسا پہلے کبھی بھی نہیں ہوا تھا کہ تیر شرجیل کی کمان سے نکلا اور نشانہ چوک گیا ہو وہ اپنی اس ناکامی سے بوکھلا سا گیا تھا اور ہر صورت میں ہرن کو اپنے قابو میں کر لینا چاہتا تھا۔ ہرن تیزی سے گھنے جنگل میں داخل ہو گیا۔ شام کے سائے لمبے ہونے لگے۔ شرجیل کی مشکلیں بڑھنے لگیں لیکن لفظ شکست کا شرجیل کی لغت میں کوئی وجود نہ تھا وہ جس چیز کا ارادہ کرتا اسے ہر صورت حاصل کر لینے کا قائل تھا۔ ناکامی کے احساس نے اسے پاگل کر دیا۔ اس دیوانگی میں اس نے اچانک دیکھا کہ وہ ایک گہری کھائی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھوڑے کو قابو میں کرتا گھوڑا پھسل گیا اور شرجیل ایک بے جان پتھر کی طرح نشیب کی جانب لڑھکنے لگا۔

    جب شرجیل کو ہوش آیا تو اس نے اپنے آپ کو ایک جھیل کے کنارے پڑا پایا۔ شیبا اس کے منہ پر پانی چھڑک کر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی۔ پانی پینے کے بعد جب زخموں سے چور شرجیل نے گرد و پیش کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ وہ ایک نہایت پُر فضا مقام پر پڑا ہے۔ شیبا اس کے ہوش میں آتے ہی حکیم جی کو بلانے دوڑ پڑی اور چند منٹوں میں حکیم کے ساتھ لوٹ آئی۔ پہلے شرجیل کے زخموں کو دھویا گیا پھر اس کی مرہم پٹی کی گئی اور اس کے بعد ایک گدھے پر ڈال کر اسے گاؤں میں لے آیا گیا۔ چونکہ شیبا نے سب سے پہلے اسے دیکھا تھا اس لیے قبائلی روایات کے مطابق وہ شیبا کا مہمان ٹھہرا۔ شیبا اپنی جھونپڑی میں بوڑھے باپ کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کا عم زاد بھائی سعد قبیلہ کا سردار تھا۔اس کی سگائی سردار کے چھوٹے بھائی سعید سے ہو چکی تھی اور اگلی بہار میں نکاح کی تیاریاں چل رہی تھیں۔

    ایک ہفتہ کی دیکھ ریکھ کے بعد شرجیل صحت مند ہو گیا۔ وادی فردوس کی ہر چیز نے اس کی صحتمندی میں اپنا تعاون پیش کیا۔ یہاں کی ہوا، فضا، یہاں کے خوش خلق اور شفیق لوگ۔ حکیم صاحب کے کارگر نسخہ اور شیبا کی تیمار داری۔ اب جب کہ شرجیل چلنے پھرنے لگا تھا اسے لوٹ کر جانا تھا۔ شام میں قبائلی سردار نے اپنی جانب سے اس کی دعوت کا خاص اہتمام کیا تھا۔ اس لیے کہ فردوسی اور قحطانی قبیلوں کے درمیان بہت پرانے مراسم تھے۔ دراصل کسی زمانے میں یہ دونوں قبائل مرزوقی کہلاتے تھے اور قحطان ندی کے کنارے میدانی علاقے میں آباد تھے۔ یہ ایک نہایت زرخیز علاقہ تھا۔ زراعت ان کا پیشہ تھا۔ مویشیوں کی ان کے پاس کثرت تھی اپنے علاوہ آس پاس کے علاقوں کے لیے اناج بھی یہیں سے جاتا تھا۔ قدرتی وسائل نے ان لوگوں کو خوش حال بنا دیا تھا۔خوش حالی کے ساتھ کبر و غرور، عیش کوشی اور دوسری اخلاقی خرابیاں رفتہ رفتہ ان کے معاشرے میں پنپنے لگی تھیں۔ بڑے بوڑھے سمجھاتے لیکن نوجوان اسے گزری زمانے کی بارش کہہ کر اَن سُنی کر دیتے اور موج مستی میں لگے رہتے۔ بارش ویسے ہر دو تین سال میں ایک بار ہوتی لیکن قحطان ندی سے ان کا کام چلتا رہتا تھا۔

    ایک بار ایسا ہوا بارش مسلسل پانچ سال تک نہ ہوئی۔ ندی کا پانی تو چوتھے سال ہی کم ہو گیا تھا۔ پانچواں سال آتے آتے یہ ندی ایک بڑے سے میدان میں نالا بن گئی تھی۔ اناج کے گودام بھی خالی ہونے لگے۔ مویشیوں کا چارا ختم ہونے لگا۔ جیسے جیسے دن گزرتے جاتے گاؤں کے بزرگوں نے اسے عذابِ خداوندی قرار دیا۔ وہ خود اس کے شکار ہو گئے تھے۔ اس لیے کہ اس کو روکنے کی خاطر خواہ ذمہ داری انہوں نے بھی ادا نہ کی تھی۔ اس قحط نے مرزوقیوں کے اس زعم کو توڑ دیا تھا کہ ہم اس علاقے کے اَن داتا ہیں۔ اُن کے دم سے لوگوں کا پیٹ بھرتا ہے۔ آج وہ خود دانے دانے کو محتاج ہو گئے تھے اور قطرہ قطرہ پانی کو ترس رہے تھے۔ انسان نعمتوں کی قدردانی اسی وقت کرتا ہے جب وہ اس سے چھن جاتی ہیں۔ جب تک حاصل رہتی ہے وہ بے قدری ہی کرتا ہے۔ یہ بات مرزوقیوں پر صادق آ رہی تھی۔ بالآخر مرزوقیوں نے وادی قحطان سے ہجرت کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ بڑا سخت تھا۔ انہیں اس سرزمین سے ان کھیتوں اور کھلیانوں سے ندی اور نالوں سے بے حد محبت تھی اور ان پر بڑا ناز بھی تھا لیکن اب وہ سب بیکا رہو گئے تھے۔ ان کی افادیت صفر ہو گئی تھی۔

    ان مخلوقات پر فریفتہ ہو کر ان لوگوں نے اپنے خالق کو بھلا دیا تھا۔ لیکن آج جب کہ یہ تمام بھلاوے بے معنی ہو گئے پھر ان کی توجہ اپنے خالق کی جانب مبذول ہوئی۔ قبیلے کے سردار نے اعلان کیا ’’مایوسی کفر ہے ہمیں اپنے کیے کی سزا مل رہی ہے۔ اس سزا کو اب کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی۔سوائے ہمارے اپنے کے۔ اب تمام راستے بند ہو چکے ہیں۔ قحطان ندی پوری طرح سوکھ چکی ہے۔ لیکن اﷲ کی زمین وسیع ہے۔ اگر اس نے ہمیں زندگی دی ہے تو رزق بھی دے گا۔ اس کے سہارے اسی سے امید باندھے اس بستی سے نکل چلو جو مغضوب بستی ہے۔‘‘ قبیلے کے تمام لوگ اپنے سردا رسے متفق تھے اور اس بات کے منتظر تھے کہ وہ ان کی رہنمائی کرے۔ ہر آنکھ اپنے سردار سے سوال کر رہی تھی کہ اب کہاں چلنا ہے؟ سردار نے اعلان کیا۔ ’’چلو پہاڑوں کی جانب چلتے ہیں۔ شاید وہاں ہمارے نام کا رزق رکھا ہو۔‘‘

    پہاڑوں کا نام سن کر کچھ تو گھبرا گئے اور کچھ مایوس ہو گئے۔ کسی نے کہا۔

    ’’یہ تو بڑی محنت کا کام ہے۔ یہ اب ہم سے نہیں ہو گا۔‘‘

    کسی نے کہا۔ ’’اپنے مال واسباب کو لے کر پہاڑوں پر چڑھنا مشکل ہے۔کیوں نہ ہم میدانوں ہی کی طرف چلیں۔ کیا ضروری ہے کہ پہاڑوں میں کامیابی ہاتھ آ ہی جائے۔‘‘

    سردار نے کہا۔ ’’ہاں ضروری تو نہیں لیکن میری چھٹی حس یہ کہتی ہے کہ شاید ہمارا سامان زیست ضرور ان پہاڑوں میں کہیں چھپا ہوا ہے اور جہاں تک محنت کا سوال ہے اس کے بغیر تو کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔ بلکہ ہم پر آنے والے عذاب کی ایک وجہ آرام طلبی ہی ہے۔اب یہ ساز و سامان چکر چھوڑو اور چلو اوپر کی جانب ہمیں کوہسار بلاتے ہیں۔ ‘‘

    سردار کی تقریر سے قبیلے کے کچھ لوگوں نے اتفاق کیا اور اس کے ساتھ ہو لیے۔لیکن بڑا حصہ متفق نہ ہوا۔ انہوں نے سردار کی روانگی کے بعد ایک نئے سردار کا انتخاب کیا اور اپنے سازوسامان باندھنے کے لیے اپنے گھروں کی جانب روانہ ہو گئے۔ وہ زیادہ سے زیادہ سامانِ سفر اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن یہ بھول گئے تھے اس سامان نے ان کے سفر کو بوجھل کر دیا ہے۔دو قافلے دو مختلف سمتوں میں رواں دواں تھے۔ ایک راستہ مشکل تھا لیکن چونکہ وہ ہلکے پھلکے تھے اس لیے تیزی کے ساتھ سرگرم سفر تھے اور دوسرا آسان راستوں کی جانب اس قدر سامان سے لدا تھا کہ ان کے قدم نہ اٹھتے تھے۔ پہاڑ والوں نے ابھی چند ٹیلے پار کیے تھے کہ انہیں ایک وسیع و عریض جھیل نظر آئی۔ ان کی آنکھوں کو یقین نہیں آ رہا تھا اس قدر عظیم وسیلہ حیات ان کے اس قدر قریب ہے۔ اس جھیل کا پانی ان کے لیے آبِ حیات تھا۔ جھیل پر سے ہو کر آنے والی ہواؤں کی خنکی انہیں تر و تازہ کر رہی تھی۔ سردار نے اپنے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے اور شکر کے جذبات کا اظہار کرنے لگا۔ قبیلہ کے وہ تمام افراد جو اس کے پیچھے تھے وہ سب اس کے ہر جملہ بلکہ ہر لفظ پر آمین کہہ رہے تھے۔یہ الفاظ زبان سے نہیں بلکہ دل سے ادا ہو رہے تھے۔ جھیل کے قریب پہنچ کر قافلہ کے سردار نے اعلان کیا یہ ہمارے لیے اﷲ کی جانب سے جنت الفردوس کا تحفہ ہے۔ آج سے اس جھیل کا نام فردوس ہے اور اسی کے نام پر مرزوقی قبیلہ کے اس حصہ کو نیا تشخص حاصل ہو گیا اور وہ فردوسی کہلانے لگے۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول