صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


اجالے ماضی کے

ڈاکٹر ابو طالب انصاری

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                           ٹیکسٹ فائل

باب ہفتم: مجاہدین آزادی اور سیاستداں

 جمال الدین افغانی


جمال الدین افغانی سید محمد بن صفدر، فلسفی، ادیب، خطیب، صحافی اور زبردست انقلابی شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی ولادت ضلع کابل کے قصبہ اسعدآباد میں ۱۲۵۴ .ھ میں ہوئی۔ ان کا عہد طفلی و شباب افغانستان ہی میں گزرا اور یہیں ۳۸ سال تک تمام علوم متداولہ حاصل کیے۔ ۱۲۷۳.ھ میں حج کے لیے گئے، وہاں سے لوٹ کر امیر دوست محمد خان والیٔ افغانستان کے ملازم ہو گئے اور ہرات کی مہم میں بھی اس کے ساتھ رہے۔ پھر یہاں سے نکل کر مصر، ترکی، لندن، پیرس، امریکہ اور ہندوستان وغیرہ ممالک کا سفر کیا اور لیکچرز(Lectures) دیے۔ اکثر اسفار میں ان کے شاگرد رشید’’ محمدعبدہ‘‘ بھی ساتھ ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے علمی خدمات کے ساتھ انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی بھی شروع کی۔ اسی تحریک کی بدولت ۱۸۸۲ .ء میں جنگ ’’تل الکبیر ‘‘وقوع میں آئی۔

ایک مستشرقERNESTRENAN نے اسلام اور سائنس کے عنوان سے لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا۔ جس میں ظاہر کیا گیا تھا کہ اسلام علمی تحریک کا مخالف ہے۔ جمال الدین افغانی نے اس کے جواب میں مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا جو پیرس اور جرمنی کے اخبارات میں شائع ہوتے تھے۔ پیرس میں جمال الدین افغانی کے ادبی و سیاسی اقدامات کا سب سے اہم زمانہ وہ ہے جب خود انھوں نے ۱۸۸۴ .ء میں ’’عروۃ الوثقیٰ‘‘ کے نام سے ایک عربی اخبار جاری کیا اور مصر و ہند میں انگریزی پالیسی پر خوب نکتہ چینی کی۔ شاہ ایران ناصرالدین کی دعوت پر ایران بھی گئے جہاں کی حکومت نے جب انگریزوں کو تمباکو کی تجارت پر مخصوص رعایت دینے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے اس کی زبردست مخالفت کی۔

جمال الدین افغانی اسلامی ممالک کی بیرونی تسلط سے آزادی اور ترقی کے خواہاں تھے اور زمانے کے جدید رجحانات اور دنیائے اسلام کے سیاسی مسائل سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ ان کی ساری زندگی انگریزی پالیسی کی مخالفت اور ان کی غلامی سے نجات دلانے کی تحریک میں گزری۔ وہ جہاں جہاں گئے لوگ ان کی انقلابی تحریک میں شامل ہوتے گئے۔ آخر عمر میں سلطان عبدالحمید کی دعوت پر قسطنطنیہ گئے اور اخیر تک یہیں قیام کیا۔ ان کا انتقال ۱۸۹۷ .ء (۱۳۱۴ .ھ)میں ٹھوڑی کے کینسر سے ہوا۔ (مگر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ابوالہدیٰ نے جو جمال الدین افغانی کا شدید دشمن تھا اور دربار سلطان ترکی کا بڑا ذی اثر عالم تھا، جمال الدین افغانی کو زہر دے دیا اور اسی سے ان کی موت واقع ہوئی۔ )

تصانیف : ’’تتمہ البیان ‘‘(تاریخ افاغنہ)، بقیہ تصانیف زیادہ تر رسائل اور مضامین پر مشتمل ہیں۔


شاہ اسما عیل شہیدؒ


اسماعیل شہیدؒ خازن ولی اللہ کے فرزند تھے۔ ان کی ولادت دہلی میں ۱۱۹۶.ھ میں ہوئی۔ کم سنی میں ہی والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کے چچا مولانا عبدالقادر نے ان کی پر ورش کی۔ بچپن میں بہت کھلنڈرے تھے۔ لیکن حافظہ غضب کا تھا۔ اس لیے جب لہو ولعب سے ہٹ کر تحصیل علم کی طرف راغب ہوئے تو بہت جلد فارغ التحصیل ہو گئے۔ یہ سخت موحد تھے اس وقت مسلمانوں میں جو شرک و بدعت کے رسوم پائے جاتے تھے ان کے سخت مخالف تھے۔ اسی زمانہ میں وہ سید احمد شہیدؒ کے مرید ہو گئے اور ان کے ساتھ رہنے لگے۔ ۱۲۳۶ھ میں حج کر کے قسطنطنیہ چلے گئے۔ واپس آ کر مذہبی وعظ و تبلیغ شروع کیا۔ ان کی بڑھتی ہوئی کامیابی دیکھ کر کچھ علماء ان سے حسد کرنے لگے۔ یہ اپنے پیر و  مرشد کے ساتھ پشاور چلے گئے اور سکھوں کے خلاف جہاد کی تحریک شروع کی  بہت سے لوگ ان کے ساتھ ہوئے اور پشاور پر اپنا اقتدار قائم کر لیا۔ لیکن بعد کو جب افغا نیوں کی بعض بدعتی رسوم کے خلاف احتجاج کیا تو پٹھان ان سے منحرف ہو گئے اور پشاور سے سندھ کی طرف روانہ ہوئے لیکن راستہ میں ایک سکھ فوجی دستہ سے مقابلہ ہوا اور یہ مع اپنے مرشد ۱۲۴۷ھ میں شہید ہو گئے۔ ان کی مشہور تصانیف یہ ہیں۔ رسالہ اصول الفقہ، منصب امامت، تقویت الایمان، صراط المستقیم۔

آزادی ہند کی تحریک میں علماء کی شمولیت اور ان کی قربانیوں کا سلسلہ آپ ہی کی تحریک اور جہاد فی سبیل اللہ سے شروع ہو تا ہے۔ بعد میں یہی تحریک دو حصوں میں بٹ کر ایک طرف دیو بند کے جامعہ اور ریشمی رومال کی تحریک اور دوسری طرف مولانا جعفر تھانیسری سے لیکر علماء دیگر تک پھیل گئی۔ جس میں سے اکثر کو پھانسی اور حبس دوام بعبور دریائے شور (کالے پانی کی سزا) ہوئی۔


عمر مختار


عمر مختار ۱۸۵۸ .ء میں مشرقی لیبیا کے شہر سائرنشیا(Cyrencia) میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد زنزور(Zanzur) اور جغبوب(Jaghbub) میں تعلیم کی تکمیل کی۔ اس کے بعد عمر مختار سنوسی تحریک سے وابستہ ہوئے۔ (اس تحریک کی بنیاد محمد علی سنوسی نے ڈالی تھی ۱۷۸۷ .ء۔ ۱۸۵۹ .ء )اور کچھ ہی دنوں کے بعد اس کے قائد بنا دیے گئے۔ اس تحریک کا مقصد لیبیا کو اطالوی (Italian) تسلط سے آزاد کرانا تھا۔ اس وقت اٹلی کا سربراہ مسولینی تھا۔ یہ وہ دور تھا جب افریقہ کے مختلف ممالک میں بیرونی ممالک سے آزادی کی تحریک چل رہی تھی جیسے الجیریا میں امیر عبدالقادر، صومالیہ میں محمد ابن عبداللہ اور سوڈان میں مہدی۔ مہدی سوڈانی نے سوڈان پر Anglo-Egyptian Forces کے خلاف جہاد کی قیادت کی۔

عمر مختار کا دل اپنے ملک اور عوام کے لیے ہمیشہ بے چین رہتا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح ان کا ملک بیرونی تسلط سے آزاد ہو جائے اور لیبیا میں اسلامی حکومت قائم ہو جائے۔ اس کے لیے انھوں نے ہر طرح کی کوششیں کیں۔ (گفت و شنید، گوریلا جنگ، جہاد )مگر لیبیا ان کے ہاتھوں اطالوی تسلط سے آزاد نہ ہو سکا اور اطالوی حکومت نے انھیں گرفتار کر کے ۱۶ستمبر ۱۹۳۱ .ء کو پھانسی دے دی۔


مولانا شوکت علی


مولانا محمد علی کے بڑے بھائی تھے۔ ان کی ولادت ۱۸۷۳ .ء میں ہوئی۔ تعلیم بریلی اور علی گڑھ کالج میں ہوئی۔ ۱۸۹۴ .ء میں بی اے کی سند لی۔ اس کے بعد محمد علی کے ساتھ (علی برادران) کانگریس اور خلافت تحریکوں کے روح رواں ثابت ہوئے۔ ۲۷ نومبر ۱۹۳۸ .ء کو انتقال ہوا۔ جامع مسجد دلی کے سامنے مزار سرمد کے قریب مدفون ہیں۔


مولانا محمد علی جوہر


مولانا محمد علی جوہر ۱۰ دسمبر ۱۸۷۸ .ء کو رامپور میں پیدا ہوئے۔ جہاں ان کے والد عبدالعلی خان دربار سے منسلک تھے۔ دو برس کے تھے جب والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی تعلیم والدہ کی نگرانی میں بریلی اور الہ آباد میں ہوئی اور اس کی تکمیل آکسفورڈ میں ہوئی۔ واپسی میں رامپور اور بڑودہ میں ملازم ہوئے۔ اس کے بعد کلکتہ جا کر ہفت روزہ’’ کامریڈ‘‘ (انگریزی) اور اس کے ساتھ ہی اردو روزنامہ’’ ہمدرد‘‘ جاری کیا۔ ملک کی آزادی کی تحریک میں صف اول کے رہنماؤں میں ان کا شمار تھا۔ کئی بار قید ہوئے۔

مسلم لیگ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، تحریک خلافت اور انڈین نیشنل کانگریس سب تحریکوں میں ہر جگہ پیش پیش رہے۔ دسمبر ۱۹۲۹ .ء میں تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے ولایت گئے۔ وہیں لندن میں ۴!جنوری ۱۹۳۰ .ء کو انتقال ہو گیا۔ لاش کو بیت المقدس لایا گیا اور مسجد عمر کی مغربی دیوار کے قریب تدفین کر دی گئی۔ آپ کی شان میں علامہ اقبال کا شعر ہے۔

؂ خاک قدس اورابہ آغوش تمنا درگرفت

سوئے عقبیٰ رفت آں راہے کہ پیغمبر گذشت۔


مولانا حسرت موہانی


مولانا حسرت موہانی ایک عظیم مفکر، صحافی، شاعر، سیاست داں اور مجاہد آزادی تھے۔ حسرت موہانی اُردوئے معلیٰ کے مُدیر تھے۔ جدو جہد آزادی کے لیے انہیں بے حد تکلیفیں اُٹھائیں۔ یہاں تک کہ بیش بہا کتابیں نیلام کرنی پڑیں اور اُردوئے معلی کی اشاعت بھی بند کرنی پڑی۔

۱۹۲۱ء میں کانگریس اور مسلم لیگ کے اجلاس احمد آباد میں ان کا صدارتی خطبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کا لب لباب یہ تھا’’ کانگریس اور مسلم لیگ کے مقاصد اور نصب العین ایک ہی ہیں۔ پہلے آزادی حاصل کر لینی چاہیے بعد میں اقلیتوں کی حفاظت اور حقوق کی باتیں ہو سکتی ہیں۔ حقوق کی حفاظت اپنا گھریلو معاملہ ہے۔ ‘‘ خطبہ صدارت میں انہوں نے یونایٹیڈ اسٹیٹس آف انڈیا کے قیام کا اعلان کیا۔ حسرت موہانی اپنے وقت سے بہت آگے تھے۔ ان کی فکری وسعت بہت بلند تھی۔ ان کا یہ خطبہ صدارت حکومت نے ضبط کر لیا اور ایک بار پھر جیل میں ڈال دیا گیا۔

حسرت موہانی ۱۹۵۴ء مسلم لیگ کے ٹکٹ پر اسمبلی رکن منتخب ہوئے یہ آزاد ہندوستان کی پہلی پارلیمینٹ کے رکن بھی چنے گئے تھے۔

۱۹۳۸ء میں ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے قاہرہ میں منعقد فلسطینی کانفرنس میں شرکت کی۔ اتنے سارے اعزازات کے باوجود بھی وہی قلندرانہ انداز، وہی فقیرانہ رنگ، وہی تھرڈ کلاس کا سفر، وہی پرانی چپّل، وہی گھڑی، قیام کبھی دفتر میں تو کبھی مسجد کے ہجرے میں، وہی فطرت شاہانہ اور وہی جرأت رندانہ۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

ہے مشقِ سخن جاری، چکی کی مشقت بھی

کیا طرف تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی


مولانا ابوالکلام آزادؔ


ابوالکلام آزاد ایک مبتحرعالم، انشاپرداز، بلند پایہ خطیب اور سیاست داں تھے۔ ان کا نام احمد، ابوالکلام کنیت اور آزاد تخلص تھا۔ ان کے والد مولوی خیرالدین قادری نقشبندی مشہور صوفی بزرگ تھے اور پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ اس خاندان کے بعض افراد دہلی منتقل ہو گئے تھے مگر آپ کے والد ۱۸۵۷ .ء کی تباہی کے بعد دل برداشتہ ہو کر مکہ چلے گئے۔ یہیں ۱۸۸۸ .ء میں مولانا ابوالکلام آزاد کی پیدائش ہوئی۔ آپ نے زیادہ تر تعلیم مصر و حجاز میں پائی۔ مولانا نے ہندوستان آنے کے بعد کلکتہ میں بود و باش اختیار کی۔ اور اپنا مشہور اخبار’’ الہلال ‘‘جاری کیا۔ جب حکومت نے اسے بند کر دیا تو آپ نے دوسرا اخبار ’’البلاغ ‘‘جاری کیا۔ ۱۹۱۹ .ء میں جب یورپ جنگ عظیم میں الجھا ہوا تھا تب تحریک آزادی سے منسلک ہونے کی بنا پر آپ رانچی جیل میں نظر بند کر دئیے گئے۔ جب ۱۹۲۰ .ء میں رہا ہوئے تو باضابطہ کانگریس میں شامل ہو گئے۔ لیکن اس کے دوسرے ہی سال عدم تعاون کی تحریک کے سلسلے میں علی برادران کے ساتھ پھر قید کر دیے گئے۔ اس کے بعد بھی کئی بار جیل گئے۔ آپ نے کانگریس کی صدارت بھی کی اور گاندھی جی کے ساتھ مل کر تمام قومی کاموں میں حصہ بھی لیا۔

آزادی کے بعد آپ مرکزی حکومت میں وزیر تعلیم رہے۔ ’’ترجمان القرآن‘‘ آپ کی قرآن کی بہترین تفسیر (جو صرف ۱۴پاروں پر مشتمل ہے)ہے۔ آپ کے خطوط کا مجموعہ’’ غبار خاطر‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ خطباتِ آزاد، تذکرہ، پرانے چراغ آپ کی بہترین تصنیفات ہیں۔ آپ کی تحریرات زبردست علمی، عربی و فارسی اشعار سے پُر ہیں۔ آپ کے یہاں جوش خطابت اور بلا کی خود اعتمادی ہے۔ اس وجہ سے آپ کی تقریر وتحریر دونوں سیلِ رواں کا درجہ رکھتی ہیں۔ آپ کا انتقال ۱۹۵۸ .ء میں ہوا اور مدفن دہلی میں جامع مسجد شاہجہانی کے مشرق میں چند گز کے فاصلے پر ہے۔


ڈاکٹر ذاکر حسین


ڈاکٹر ذاکر حسین ایک عظیم دانشور اور شریف النفس انسان تھے۔ یہ آزاد ہندوستان کے پہلے مسلم صدر تھے۔ آزادی کی جدوجہد میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

ڈاکٹر ذاکر حسین ۸ فروری ۱۸۹۷ .ء کو قائم گنج ضلع فرخ آباد (یوپی)میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام فدا حسین اور والدہ کا نام شاہجہاں بیگم تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد اٹاوہ کے اسلامیہ ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ ۱۹۲۳ .ء میں برلن میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۲۶ .ء میں ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی۔ واپسی پر وہ جامعہ ملیہ کے صدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۴۸ .ء میں وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر منتخب ہوئے۔ کچھ وقت تک راجیہ سبھا کے ممبر اور بہار کے گورنر بھی رہے۔ ۱۹۶۲ .ء میں ہندوستان کے نائب صدر اور ۱۹۶۷ .ء میں صدر بنائے گئے۔ ان کی قابلیت اور دیگر خدمات کے عوض میں انہیں حکومت کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’ بھارت رتن ‘‘ دیا گیا۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کی پوری زندگی تجربات سے پُر تھی۔ آپ عظیم ماہر تعلیم، صالح رہبر، اور محب وطن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دیندار مسلمان بھی تھے۔ اردو زبان و ادب سے آپ کو بڑا لگاؤ تھا۔ آپ نے انگریزی اور اردو میں کئی کتابیں لکھیں۔ آپ ہندوستانی ثقافت کا مجسمہ اور قومی اتحاد کی علامت تھے۔ جنگ آزادی کے اس مجاہد اور صداقت کے پیکر نے ۲۷ مئی ۱۹۶۸ .ء کو راشٹر پتی بھون میں آخری سانس لی۔

 ٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                           ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول