صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
کتنی اداس شام ہے
سعد اللہ شاہ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
کیا سروکار ہمیں رونقِ بازار کے ساتھ
ہم الگ بیٹھے ہیں دستِ ہنر آثار کے ساتھ
چشمِ نمناک لیے، سینۂ صد چاک سیئے
دُور تک ہم بھی گئے اپنے خریدار کے ساتھ
ایک احساسِ وفا کی طرح بے قیمت ہیں
ہم کو پرکھے نہ کوئی دِرہم و دینار کے ساتھ
رنجشِ کارِ زیاں، دربدری، تنہائی
اور دنیا بھی خفا تیرے گنہگار کے ساتھ
سینۂ سنگ پہ گل رنگ بہار اُتری ہے
کس نے دیکھا تھا ہمیں ایسے کبھی پیار کے ساتھ
کاوشِ کوہکنی رسمِ محبت ٹھہری
تیشہ زن آج بھی فرہاد ہے کہسار کے ساتھ
سعدؔ رسوائے زمانہ ہے مگر تیرا ہے
یوں نہیں ہوتے خفا اپنے گرفتار کے ساتھ
ایک دریا ہے مری آنکھ کی دیوار کے ساتھ
روز ملتا ہے مجھے وحشت و یلغار کے ساتھ
ہم کو رُکنا ہے کئی بار اُدھر دیکھنے کو
کیسے چل پائے کوئی وقت کی رفتار کے ساتھ
کوئی نقطے سے لگاتا چلا جاتا ہے فقط
دائرے کھینچتا جاتا ہوں میں پرکار کے ساتھ
یاد آتی ہیں کبھی بھولی ہوئی باتیں بھی
ایک اقرار کسی کا کسی انکار کے ساتھ
رنگ و رامش ہی پہ موقوف نہیں ہے سب کچھ
ہم کو رکھو نہ اسیرِ لب و رخسار کے ساتھ
کس کو معلوم، یہی روگ بنے گا اک دن
کتنے خوش باش ہیں کچھ لوگ غمِ یار کے ساتھ
صرف اور صرف محبت کا بیاں ایسا ہے
لطف کچھ اور بھی دیتا ہے جو تکرار کے ساتھ
سعدؔ وہ عام سا اک شخص ہے اور کچھ بھی نہیں
تم تو بس مارے گئے عشق کے اظہار کے ساتھ
٭٭٭
OOO