صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
تزک چنگیزی
ایک فکاہیہ
شبیر احمد رانا
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
کچھ عرصہ قبل سر راہ ایک صبح خیزیا کرم کتابی ناصف کھبال خان نظر آیاجس نے پرانی، نادر و نایاب کتب اور مخطوطات کی چوری میں متعدد نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ سرقہ، توارد، چربہ سازی اور کفن دزدی اس متفنی کا ہمیشہ سے وتیرہ رہا ہے۔ اسے دیکھتے ہی اہل علم لا حول پڑھتے ہیں۔ ابھی میں اسے دیکھ کر جھٹ پٹ کہیں نکل جانے کی فکر کر رہا تھا کہ یہ بگٹٹ بھاگتا اور ہنہناتا ہوا میری راہ روک کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے جل تو جلال تو، آئی بلا ٹال تو کا مسلسل ورد کیا لیکن ابلیس نژاد موذی درندے کب جان چھوڑتے ہیں وہ نہایت ڈھٹائی سے زمین کا بوجھ بنا رہا اور اپنی عرق آلود پیشانی اور گرد آلود ملبوس کو صاف کرتے ہوئے دم ہلا کر غرایا:
’’ کئی دنوں سے ابن بطوطہ کی جستجو میں بھٹک رہا تھا۔ میرے پاؤں میں ایک ایسا چکر ہے جو مجھے کسی کل چین نہیں لینے دیتا۔ پرانے مخطوطات کی تلاش میں گرد چھانتا پھرتا ہوں۔ کل ایک ردی والے کے کباڑ خانے سے جو مال مسروقہ ہاتھ لگا ہے وہ گزشتہ صدیوں کی تاریخ کا ایک ایسا ورق ہے جو سب کے لیے عبرت کا سبق ہے۔ مجھے چنگیز خان کی خود نوشت ’’تزک چنگیزی‘‘ مل گئی ہے۔ میں آسمان کے تارے توڑ کر لایا ہوں۔ میں یہ مخطوطہ فروخت کر نا چاہتا ہوں۔ کہیے آپ اس کے کتنے دام لگاتے ہیں ؟‘‘
میں نے جان چھڑاتے ہوئے کہا:’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے چنگیز خان کے ساتھ سرے سے کوئی دل چسپی ہی نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ قدیم مخطوطات کی فروخت کے لیے آپ کسی عجائب گھر یا کتب خانے سے رجوع کریں۔ یہ جو اوراق پارینہ آپ نے تھام رکھے ہیں ان کرم خوردہ اور فرسودہ اوراق کا مطالعہ میرے بس سے باہر ہے۔ تم جو رواقیت کے داعی بن بیٹھے ہو اگر تم میں اتنا دم خم ہے تو ارسطو کا تصور طربیہ لے کر آؤ۔ دنیا تم کو عطائی فلسفی کے بجائے حقیقی فلسفی مان لے گی۔ اس وقت تمھاری حیلہ سازی، بہتان طرازی اور چربہ سازی نے تمھیں نکو بنا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ تم پر تین حرف بھیجتے ہیں۔ ‘‘
’’اف !اس قدر آسان کام ‘‘ ناصف کھبال خان نے منمناتے ہوئے کہا ’’لوگ کہتے ہیں کہ میں کوڑے کے ڈھیر کو سونگھتا پھرتا ہوں تا کہ جاہ و منصب کی ہڈیاں نوچ کر کھاؤں۔ کس قدر کوتاہ اندیش لوگ ہیں۔ میں تو عفونت زدہ کوڑے کے ڈھیر میں ہاتھ اس لیے ڈالتا ہوں کہ شاید کوئی گم گشتہ مخطوطہ ہاتھ لگ جائے۔ اب رہ گیا ارسطو کا تصور طربیہ تو وہ میں نے خود لکھا تھا جس کا اصل مخطوطہ میرے پاس محفوظ ہے۔ ارسطو میں اتنی تاب کہاں کہ وہ طربیہ پر کچھ لکھ سکتا اس کا تصور المیہ بھی میر ا چربہ ہے۔ سقراط اور افلاطون کو بھی میں کچھ نہیں جانتا۔ میرے خاندان کے جید جاہل بھی ان کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ‘‘
مجھے اس متفنی کی ذہنی صحت کے بارے میں پہلے جو شکوک و شبہات تھے وہ اب یقین میں بدل گئے۔ میں سوچنے لگا ایسے شخص کو تو ذہنی علاج کے لیے فاوئنٹین ہاؤس بھیجنا چاہیے۔ یہ خبطی کس قدر دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے اپنی جہالت پر ڈٹا ہوا ہے۔ میں نے اس کی لاف زنی کو بالکل کوئی اہمیت نہ دی۔ اور اس کی بے سروپا گفتگو کو سنی ان سنی کر دیا اور خاموش رہا۔ میں جزیرۂ جہلا میں گھر گیا تھا نکل کے کس سمت جاتا میرے چاروں جانب مہیب سمندر تھا جس کی ہر موج میں حلقۂ صد کام نہنگ اعصاب کو شل کر رہا تھا۔ میری عدم دلچسپی کو دیکھ کر ناصف کھبال خان نے تزک چنگیزی کا مخطوطہ مجھے تھما یا۔ مزید تین پانچ کرنے کے بجائے وہ ابلہ وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔ میں نے وہ نام نہاد مخطوطہ اپنے کمرے میں ایک طرف پھینک دیا۔ میں چاہتا تھا کہ جلد ہی یہ چیتھڑے اس جعل ساز مسخرے کو واپس کر دوں اور اس سے نجات حاصل کروں مگر وہ تو ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ کئی لوگوں سے اس کا اتا پتا معلوم کیا مگر اس کی خبر نہ ملی۔ کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ وہ قحبہ خانے اور چنڈو خانے میں اکثر پایا جاتا ہے اور اس کا دماغ بھی چل بے چل ہو گیا ہے۔ چور محل میں جنم لینے والا اور چور دروازے سے گھس کر منفعت بخش منصب پر غاصبانہ قبضہ کرنے والاسانپ تلے کا یہ بچھو جس کا انحصار خرچی کی کمائی پر تھا وہ خود کو ہلاکو خان، چنگیز خان، فرعون اور نعمت خان کلاونت کی اولاد بتاتا اور اس ہف وات پر اس قدر اتراتا کہ پھول کر کپا ہو جاتا۔ اپنا پیٹ تو کتا بھی پال لیتا ہے اس نا ہنجار کو لگائی بجھائی سے فرصت نہ تھی بے بس انسانوں کا خون اس کے منہ کو ایسے لگا کہ پرائے مال اور خرچی پر گلچھرے اڑانا اس کرگس زادے کا معمول بن گیا۔ یہ اکثر کہتا خواہ کچھ ہو جائے اپنا الو تو کہیں نہیں گیا۔ کو ن اس استر کو لگام دے کر اپنے سر آفت لیتا۔
٭٭٭