صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


تم سے باتیں کروں

رخشندہ نوید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

غزلیں


ایک ایک جذبے کو بے مہار کرنا تھا
وہ تو ایک دریا تھا مجھ کو پار کرنا تھا

عشق کی کہانی میں موت المیہ کب تھی
خواہشوں کو ہاتھوں سے زیبِ دار کرنا تھا

وہ بھی کہہ گیا یونہی لوٹ کر پھر آؤں گا
مجھ کو بھی اب ایسے انتظار کرنا تھا

آنکھ کو سنوارا تھا پھر گھٹا کے کاجل سے
حسن کی تمازت سے ان کو چار کرنا تھا

انتظار میں تیرے کتنی بار دھڑکا دل
کچھ یقین کرنا تھا کچھ شمار کرنا تھا

کس قدر خاموشی سے سہہ گئی تھی رخشندہؔ
کچھ تو سوچ کر آخر اس پہ وار کرنا تھا
٭٭٭




اتر کر دیکھ دریا میں کہاں گرداب ہوتے ہیں
سکوں کے چند لمحے بھی بڑے نایاب ہوتے ہیں

میں جب بھی ڈوبنے لگتی ہوں گردش میں زمانے کی
تماشا دیکھنے والے میرے احباب ہوتے ہیں

بھلا پھر کس طرح ان آنسوؤں میں ربط ہو پیدا
میری پلکوں کے چلمن پر تو ٹوٹے خواب ہوتے ہیں

خود اپنی ذات میں شامل کسی کو کر لیا جائے
کسی کو بھولنے کے کیا یہی آداب ہوتے ہیں

بڑی خود اعتمادی ہے کہ یادوں کے اندھیروں میں
میری دونوں نگاہوں میں جلے ماہتاب ہوتے ہیں

٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول