صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


ٹوٹی چھت کا مکان

ایم مبین

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                 ٹیکسٹ فائل

   ہرنی

جب وہ گھر سے نکلی تو نو بج رہے تھے۔ تیز لوکل تو ملنے سے رہی دھیمی لوکل سے ہی جانا پڑے گا۔ وہ بھی وقت پر مل گئی تو ٹھیک۔ ورنہ یہ تو طے ہے کہ آج پھر تاخیر سے آفس پہنچے گی۔ اور لیٹ آفس آنے کا مطلب ؟ اس خیال کے ساتھ ہی اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور بھویں تن گئیں۔ آنکھوں کے سامنے باس کا چہرہ گھوم گیا۔ اور کانوں میں اس کی گرجدار آواز سنائی دی۔

" مسز مہاترے ! آپ آج پھر لیٹ آئیں ہیں۔ میرے باربار تاکید کرنے پربھی آپ روز لیٹ آتی ہیں۔ آپ کی اس ڈھٹائی پر مجھے غصہ آتا ہے۔ آپ کو شرم آنی چاہےئے۔ بار بار تاکید کرنے پر بھی آپ وہی حرکت کرتی ہیں۔ آج کے بعد میں آپ سے کوئی رعایت نہیں کروں گا۔

کوئی اس سے بڑی تیزی سے ٹکرایا تھا اور اس کے خیالوں کا تسلسل ٹوٹ گیا تھا۔ وہ سڑک پر تھی۔ بھیڑ اور ٹریفک سے بھری سڑک اسے پار کرنی تھی۔ اس لئے اپنے ہوش و حواس میں رہنا بہت ضروری تھا۔ غائب دماغ رہتے ہوئے سڑک پار کرنے کی کوشش میں کوئی بھی حادثہ ہوسکتا تھا۔ جو اس سے ٹکرایا تھا وہ تو کہیں دور چلا گیا تھا لیکن اس کے ٹکرانے سے اس پر غصہ نہیں آیا تھا۔

اچھا ہوا وہ اس سے ٹکرا گئی۔ اس کے خیالوں کا سلسلہ تو ٹوٹ گیا اور وہ ہوش کی دنیا میں واپس آگئی۔ ورنہ تناؤ میں وہ اپنے انہی خیالوں میں کھوئی رہتی اور بے خیالی میں سڑک پار کرنے کی کوشش میں کسی حادثہ کا شکار ہوجاتی۔ اس نے چاروں طرف چوکنا ہوکر دیکھا۔ سڑک کے دونوں طرف کی گاڑیاں اتنی دور تھیں کہ وہ آسانی سے دوڑ کر سڑک پار کرسکتی تھی۔

سگنل تک رکنے کا مطلب تھا خود کو اور دوچار منٹ لیٹ کرنا۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے سڑک پار کرنے کا فیصلہ کرلیا اور دوڑتی ہوئی سڑک کی دوسری طرف پہنچ گئی۔ دونوں طرف سے آنے والی گاڑیاں اس کے کافی قریب ہوگئی تھیں۔ ذرا سی تاخیر یا سستی کسی حادثہ کا باعث بن سکتی تھی۔ لیکن اس نے اپنے آپ کو پوری طرح اس کے لئے تیار کرلیا تھا۔ کوئی حادثہ نہ ہو اس بات کا پورا خیال رکھا تھا۔ سڑک پار کرکے وہ اس تنگ سی گلی میں داخل ہوئی۔ جس کو پار کرنے کے بعد ریلوے اسٹیشن کی حد شروع ہوتی تھی۔ گلی میں قدم رکھتے ہی اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ سانس پھولنے لگی اور ماتھے پہ پسینے کی بوندیں ابھر آئیں اس نے ہاتھ میں پکڑے رومال سے پیشانی پر آئی پسینے کی بوندیں صاف کیں اور پھولی ہوئی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی۔ لیکن اسے علم تھا نہ پھولی ہوئی سانسوں پر وہ قابو پاسکے گی اور نہ ہی دل کے دھڑکنے کی رفتار معمول پر آئے گی۔

ذہن میں کھوٹا کا خیال جو آگیا تھا۔ اسے پورا یقین تھا۔ گلی کے درمیان میں اس پان کی دکان کے پاس کھوٹا کرسی لگا کر بیٹھا ہوگا۔ اسے آتا دیکھ کر بھدے انداز میں مسکرائے گا اور اس پر کوئی گندہ فقرہ کسے گا۔ کھوٹا کا یہ روز کا معمول تھا۔ صبح شام اس جگہ وہ اس کا انتظار کرتا تھا۔ اسے پتہ تھا سویرے وہ کب آفس جاتی ہے اور شام کو اب واپس آفس سے گھر جاتی ہے۔ اس کے آنے جانے کا راستہ وہی ہے۔ ریلوے اسٹیشن جانے کا اور ریلوے اسٹیشن سے گھر جانے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ایک ہے بھی تو وہ اتنی دور کا راستہ ہے کہ اس راستے سے جانے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ اس لئے کھوٹا اسی راستے پر بیٹھا اس کا انتظار کرتا رہتا تھا اور اسے دیکھتے ہی کوئی بھدا سا فقرہ ہوا میں اچھالتا تھا۔

" ہائے ڈارلنگ ! بہت اچھی لگ رہی ہو۔ یہ آفس ‘ نوکری وکری چھوڑو۔ مجھے خوش کردیا کرو۔ ہر مہینہ اتنے پیسے دے دیا کروں گا جو نوکری سے تین چار مہینے میں بھی نہیں ملتے ہوں گے۔ آؤ آج کسی ہوٹل میں چلتے ہیں۔ چلتی ہو ؟ آج شیریٹن ہوٹل میں پہلے ہی سے اپنا کمرہ بک ہے۔ نوکری کرتے ہوئے زندگی بھر شیریٹن ہوٹل کا دروازہ بھی نہیں دیکھ سکوگی۔ آج ہماری بدولت اس میں دن گزار کر دیکھو۔ "

کھوٹا کے ہر فقرے کے ساتھ اسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ایک نیزہ آکر اس کے دل میں چبھ گیا ہے۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں تھیں اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگتا تھا۔ تیز چلنے کی کوشش میں قدم لڑکھڑانے لگتے تھے۔ لیکن وہ جان توڑ کوشش کرکے تیز قدموں سے کھوٹا کی نظروں سے دور ہوجانے کی کوشش کرتی تھی۔

کھوٹا اس علاقے کا مانا ہوا غنڈہ تھا۔ اس علاقے کا بچہ بچہ اس سے واقف تھا۔ شراب ‘ جوئے ‘ عصمت فروشی کے اڈے چلانا ‘ ہفتہ وصولی ‘ سپاری وصولی ‘ اغوا ‘ قتل اور مار پیٹ وغیرہ۔ غرض کہ ایسا کوئی کام نہیں تھا جو وہ نہیں کرتا تھا یا اس طرح کے معاملوں میں ملوث نہیں تھا۔ وہ جو چاہتا کر گزرتا تھا کبھی پولس کی گرفت میں نہیں آتا تھا۔ اگر کسی معاملے میں پھنس بھی گیا تو اس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پولس کو اسے دو دنوں میں چھوڑنا پڑتا تھا۔

اس کھوٹا کا دل اس پر آگیا تھا۔ اس پر اس مایا مہاترے پر ایک معمولی ایک چھوٹی سی پرائیویٹ آفس میں کام کرنے والی ایک بچے کی ماں پر پہلے تو کھوٹا اسے صرف گھورا کرتا تھا۔ پھر جب اسے اس کے آنے جانے کا وقت اور راستہ معلوم ہوگیا تو وہ روزانہ اس راستے پر اس سے ملنے لگا۔

روزانہ اسے دیکھ کر مسکراتا اور اس پرگندے گندے فقروںکی بارش کرنے لگتا۔ کھوٹا کی ان حرکتوں سے وہ دہشت زدہ سی ہوگئی تھی۔ اسے یہ اندازہ تو ہوگیا تھا کہ کھوٹا کے دل میں کیا ہے۔ اور اسے یہ پورا یقین تھا کہ جو اس کے دل میں ہے کھوٹا ایک دن اسے پورا کرکے ہی رہے گا۔ اس تصور سے ہی وہ کانپ اٹھتی تھی۔ اگر کھوٹا نے اپنے دل کی مراد پوری کرڈالی یا پوری کرنے کی کوشش کی تو ؟ اس تصور سے ہی اس کی جان نکل جاتی تھی۔

" نہیں ! نہیں ! ایسا نہیں ہوسکتا۔ اگر کھوٹا نے میرے ساتھ ایسا کچھ کردیا تو میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گی۔ میں زندہ نہیں رہ پاؤں گی۔ " اسے اس بات کا علم تھا کہ وہ اتنی خوبصورت ہے کہ کھوٹا جیسے لوگ اسے دیکھ کر بہک سکتے ہیں۔ دوسرے ہزاروں لوگ اسے دیکھ کر ایسا کوئی خیال دل میں لاتے بھی تو اسے کوئی پرواہ نہیں تھی کیونکہ اسے پورا یقین تھا کہ وہ کبھی اس خیال کو پورا کرنے کی جرأت نہیں کرپائیں گے۔

لیکن کھوٹا ؟ ہے بھگوان ! وہ جو سوچ لے دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے اس کے سوچے کام کو روکنے کی کوشش نہیں کرسکتی تھی۔ اور وہ آتے جاتے کھوٹا کی دہشت کا شکار ہوتی تھی۔ اور اس دن تو کھوٹا نے حد کردی۔ نا صرف راستہ روک کر کھڑا ہوگیا بلکہ اس کی کلائی بھی پکڑ لی۔

" بہت زیادہ اکڑتی ہو۔ اپنے آپ کو کیا سمجھتی ہو۔ تمہیں معلوم نہیں کھوٹا سے تمہارا پالا پڑا ہے۔ ایسی اکڑ نکالوں گا کہ زندگی بھر یاد رکھوگی۔ ساری اکڑ نکل جائے گی۔ "

" چھوڑ دو مجھے۔ " اس کی آنکھوں میں خوف سے آنسو آگئے۔ اور وہ کھوٹا کے ہاتھوں سے اپنی کلائی چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔ لیکن وہ کسی شیر کے چنگل میں پھنسی ہرنی سی اپنے آپ کو محسوس کررہی تھی۔ کھوٹا بھیانک انداز میں ہنس رہا تھا اور وہ اس کے ہاتھوں سے اپنی کلائی چھڑانے کی کوشش کرتی رہی۔ اس منظر کو دیکھ کر ایک دو راستہ چلنے والے رک بھی گئے۔ لیکن کھوٹا پر نظر پڑتے ہی وہ تیزی سے آگے بڑھ گئے۔ شیطانی ہنسی ہنستا ہوا کھوٹا اس کی بے چینی سے محظوظ ہورہا تھا۔ پھر ہنستے ہوئے اس نے دھیرے سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ وہ روتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ کھوٹاکا شیطانی قہقہہ اس کا تعاقب کرتا رہا۔ وہ روتی ہوئی اسٹیشن آئی اور لوکل میں بیٹھ کر سسکتی رہی۔ اسے روتا دیکھ کر آس پاس کے مسافر اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔

آفس پہونچنے تک رو رو کر اس کی آنکھیں سوج گئی تھیں۔ اس میں آئی تبدیلی آفس والوں سے چھپی نہ رہ سکی۔ اسے آفس کی سہیلیوں نے گھیر لیا۔

" کیا بات ہے مایا ‘ یہ تمہارا چہرہ کیوں سوجا ہوا ہے اور آنکھیں کیوں لال ہیں ؟ " اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور ان سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ وہ سب بھی گھبرا گئیں اور اسے تسلی دیتے ہوئے چپ کرانے کی کوشش کرنے لگیں۔ بڑی مشکل سے اس کے آنسو رکے اور اس نے پوری کہانی انہیں سنا دی۔ اس سے قبل بھی وہ کئی بار کھوٹا کی ان حرکتوں کی بارے میں انہیں بتا چکی تھی لیکن انہوں نے کوئی دھیان نہیں دیا تھا۔

" نوکری پیشہ عورتوں کے ساتھ تو یہ سب ہوتا ہی رہتا ہے۔ میرا خود ایک عاشق ہے جو اندھیری سے چرنی روڈ تک میرا پیچھا کرتا ہے۔ "

" میرے بھی ایک عاشق صاحب ہیں۔ سویرے شام میرے محلے کے نکڑ پر میرا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ "

" اور میرے عاشق صاحب تو آفس کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں۔ آؤ بتاتی ہوں سڑک پر کھڑے آفس کی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے ہوں گے۔ "

" اگر کھوٹا تم پر عاشق ہوگیا ہے تو یہ کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔ تم چیزہی ایسی ہو کہ تمہارے تو سو دو سو عاشق ہوسکتے ہیں۔ " ان کی باتیں سن کر وہ جھنجھلا جاتی۔

" تم لوگوں کو مذاق سوجھا ہے اور میری جان پر بنی ہے۔ کھوٹا ایک غنڈہ ہے ‘ بدمعاش ہے۔ وہ ایسا سب کچھ کرسکتا ہے جس کا تصور بھی تمہارے عاشق نہیں کرسکتے۔ لیکن اس دن کی کھوٹا کی یہ حرکت سن کر سب سناٹے میں آگئیں تھیں۔

" کیا تم نے اس بارے میں اپنے شوہر کو بتایا ؟ "

" نہیں ! آج تک کچھ نہیں بتایا۔ سوچتی تھی کوئی ہنگامہ نہ کھڑا ہوجائے۔ "

" تو اب پہلی فرصت میں اسے سب کچھ بتا دو۔ "

اس شام وہ معمول کے راستے سے نہیں لمبے راستے سے گھر گئی۔ اور ونود کو سب کچھ بتادیا کہ کھوٹا اتنے دنوں سے اس کے ساتھ کیا کررہا تھا اور آج اس نے کیا حرکت کی۔ اس کی باتیں سن کر ونود کا چہرہ تن گیا۔

" ٹھیک ہے ! فی الحال تو تم ایک دو دن آفس جانا ہی نہیں۔ اس کے بعد سوچیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ اس کے بعد وہ تین دن آفس نہیں گئی۔ ایک دن وہ بالکنی میں کھڑی تھی۔ اچانک اس کی نیچے نظر گئی اور اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ کھوٹا نیچے کھڑا اس کی بالکنی کو گھور رہا تھا۔ اس سے نظر ملتے ہی وہ شیطانی انداز میں مسکرانے لگا۔ وہ تیزی سے اندر آگئی۔

رات ونود گھر آیا تو اس نے آج کا واقعہ بتایا۔ اس واقعہ کو سن کر اس نے اپنے ہونٹ بھینچ لئے۔ دوسرے دن آفس جانا بہت ضروری تھا۔ اتنے دنوں تک وہ اطلاع دئے بنا آفس سے غائب نہیں رہ سکتی تھی۔

" آج میں تم کو اسٹیشن تک چھوڑنے آؤں گا۔ " ونود نے کہا تو اس کی ہمت بندھی۔ ونود اسے اسٹیشن تک چھوڑنے آیا۔ جب وہ گلی سے گذرے تو پان اسٹال کے پاس کھوٹا موجود تھا۔

" کیوں جانِ من ! آج باڈی گارڈ ساتھ لائی ہو۔ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس طرح کے سو باڈی گارڈ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ " پیچھے سے آواز آئی تو اس آواز کو سن کر جوش میں ونود مڑا لیکن اس نے اسے تھام لیا۔

" نہیں ونود ! یہ غنڈوں سے الجھنے کا وقت نہیں ہے۔ " اور وہ اسے تقریباً کھینچتی ہوئی اسٹیشن کی طرف بڑھ گئی۔ اس شام واپسی کے لئے اس نے لمبا راستہ اپنایا۔ لیکن اس کالونی کے گیٹ کے پاس پہونچتے ہی اس کا دل دھک سے رہ گیا۔

کھوٹا گیٹ پر اس کا منتظر تھا۔

" مجھے اندازہ تھا کہ تم واپس اس راستے سے نہیں آؤگی۔ اس لئے تمہاری کالونی کے گیٹ پر تمہیں سلام کرنے آیا ہوں۔ کاش تم مجھ سے فرار حاصل کرسکو۔ " یہ کہتے ہوئے وہ اسے سلام کرتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ رات ونود کو اس نے ساری کہانی سنائی تو ونود بولا۔ " کل اگر کھوٹا نے تمہیں چھیڑا تو ہم اس کے خلاف پولس میں شکایت کریں گے۔ "

دوسرے دن ونود اسے چھوڑنے کے لئے آیا تو کھوٹا سے پھر آمنا سامنا ہوگیا۔ کھوٹا کی گندی باتیں ونود برداشت نہ کرسکا اور اس سے الجھ گیا۔ ونود نے ایک مکہ کھوٹا کو مارا۔ جواب میں کھوٹا نے ونود کے منہ پر ایسا وار کیا کہ اس کے منہ سے خون بہنے لگا۔

" بابو ! کھوٹا سے اچھے اچھے تیس مار خاں نہیں جیت سکے تو تمہاری بساط ہی کیا ہے؟ "زخمی ونود نے آفس جانے کے بجائے پولس اسٹیشن جاکر کھوٹا کے خلاف شکایت کرنا ضروری سمجھا۔ تھانہ انچارج نے ساری باتیں سن کر کہا۔ " ٹھیک ہے ہم آپ کی شکایت لکھ لیتے ہیں۔ لیکن ہم کھوٹا کے خلاف نہ تو کوئی سخت کاروائی کرپائیں گے نہ کوئی مضبوط کیس بنا پائیں گے۔ کیونکہ کچھ گھنٹوں میں کھوٹا چھوٹ جائے گا اور ممکن ہے چھوٹنے کے بعد کھوٹا تم سے اس بات کا انتقام بھی لے۔ ویسے آپ ڈرےئے نہیں ہم کھوٹا کو اس کی سزا ضرور دیں گے۔ "

پولس اسٹیشن سے بھی انہیں مایوسی ہی ملی۔ اس دن دونوں آفس نہیں گئے۔ تناؤ میں بنا ایک دوسرے سے بات کئے گھر میں ہی ٹہلتے رہے۔ شام کو اس نے پولس اسٹیشن فون لگا کر اپنی شکایت پر کی جانے والی کاروائی کے بارے میں پوچھا۔

" مسٹر ونود ! " تھانہ انچارج نے کہا۔ آپ کی شکایت پر ہم نے کھوٹا کو پولس اسٹیشن بلا کر تاکید کی ہے۔ اگر اس نے دوبارہ آپ کی بیوی کو چھیڑا یا آپ سے الجھنے کی کوشش کی تو اسے اندر ڈال دیں گے۔ دوسرے دن دونوں ساتھ آفس کے لئے روانہ ہوئے۔ متعین جگہ پر پھر کھوٹا سے سامنا ہوگیا۔

" واہ بابو واہ ! تیری تو بہت پہونچ ہے۔ کھوٹا سے بھی زیادہ ؟ تیری ایک شکایت پر پولس نے کھوٹا کو بلا کر تاکید کی اور تاکید ہی کی ہے ناں ؟ اب کی بار کھوٹا ایسا کچھ کرے گا کہ پولس کو تمہاری شکایت پر کھوٹا کے خلاف کاروائی کرنی ہی پڑے گی۔ "

" کھوٹا ! ہم شریف لوگ ہیں ہماری عزت ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہے اور اس عزت کی حفاظت کے لئے ہم اپنی جان بھی دے سکتے ہیں اور کسی کی جان لے بھی سکتے ہیں۔ اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ ہم شریف لوگوں کو پریشان مت کرو۔ تمہارے لئے اور بھی ہزاروں عورتیں دنیا میں ہیں۔ تم قیمت ادا کرکے من چاہی عورت کو حاصل کرسکتے ہو۔ پھر کیوں میری بیوی کے پیچھے پڑے ہو ؟ "

" مشکل یہی ہے بابو ! کھوٹا کا دل جس پر آیا ہے وہ اسے پیسوں کے بل پر نہیں مل سکتی۔ اس کی طاقت کے بل پر ہی مل سکتی ہے۔ "

" کمینے ! میری بیوی کی طرف آنکھ بھی اٹھائی تو میں تیری جان لے لوں گا۔ " یہ کہتے ہوئے ونود کھوٹا پر ٹوٹ پڑا اور بے تحاشہ اس پر گھونسے برسانے لگا۔ ہکا بکا کھوٹا ونود کے وار سے خود کو بچانے کی کوشش کرنے لگا۔ اچانک راستہ چلتے کچھ راہ گیروں نے ونود کو پکڑ لیا ‘ کچھ نے کھوٹا کو۔ اور وہ کسی طرح ونود کو آفس جانے کے بجائے گھر لے جانے میں کامیاب ہوگئی۔ کھوٹا سے ونود کے ٹکراؤ نے اسے دہشت زدہ کردیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ کھوٹا اس بے عزتی کا بدلہ ضرور لے گا۔ اور کس طرح لے گا اس تصور سے ہی وہ کانپ جاتی تھی۔ وہ ونود کو بہلاتی رہی۔

" کھوٹا کو تم نے ایسا سبق سکھایا ہے کہ آج کے بعد نہ وہ تم سے الجھے گا نہ میری طرف آنکھ اٹھانے کی جرأت کرے گا۔ تم نے جو قدم اٹھایا وہ بہت صحیح تھا۔ " بظاہر وہ ونود کو دلاسا دے رہی تھی لیکن اندر ہی اندر کانپ رہی تھی کہ کھوٹا ضرور اس بات کا بدلہ لے گا۔ اگر اس نے ونود کو کچھ کیا تو ؟

نہیں ! نہیں ! ونود کو کچھ نہیں ہونا چاہئیے ونود میری زندگی ہے۔ اگر اس کے جسم پر ایک خراش بھی آئی تو میں زندہ نہیں رہوں گی۔ اسے ایسا محسوس ہورہا تھا اس کی وجہ سے یہ جنگ چھیڑی ہے۔ اس جنگ کا خاتمہ دونوں فریقوں کی تباہی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور نکل بھی نہیں سکتا۔ بہتری اسی میں ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان صلح کرادی جائے۔ تاکہ جنگ کی نوبت ہی نہ آئے۔ لیکن یہ صلح کس طرح ممکن تھی ؟ کھوٹا انتقام کی آگ میں جھلس رہا ہوگا اور جب تک انتقام کی یہ آگ نہیں بجھے گی اسے چین نہیں آئے گا۔ اسے کھوٹا ایک اژدھا محسوس ہورہا تھا۔ جو اس کے سامنے کھڑا اسے نگلنے کے لئے اپنی زبان بار بار باہر نکالتا اور پھنکاررہا تھا۔ اس اژدھے سے اسے اپنی حفاظت کرنی تھی۔ دوسرے دن وہ آفس جانے لگی تو پان اسٹال پر کھوٹا کا سامنا ہوگیا۔ وہ قہر آلود نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔ اس نے مسکرا کر اسے دیکھا اور آگے بڑھ گئی۔ اسے مسکراتا دیکھ کھوٹا حیرت سے اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا رہ گیا۔

ایک دن پھر وہ آفس جانے لگی تومسکراتا ہوا کھوٹا اس کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی۔

" میرا راستہ چھوڑ دو۔ " وہ قہر آلود نظروں سے اسے گھورتی ہوئیغصہ سے بولی۔

" جانم اب تو ہمارے تمہارے راستے ایک ہی ہیں۔ " کہتے ہوئے کھوٹا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑالیا اور قریب کھڑے ناریل پانی فروخت کرنے والے کی گاڑی سے ناریل چھیلنے کی درانتی اٹھاکر کھوٹا کی طرف شیرنی کی طرح لپکی۔ کھوٹا کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ اچانک وہ سر پر پیر رکھ کر بھاگا۔ وہ اس کے پیچھے درانتی لئے دوڑ رہی تھی۔


پھولتی ہوئی سانسوں کے ساتھ کھوٹا اپنی رفتار بڑھاتا جارہا تھا۔ جب کھوٹا اس کی پہونچ سے کافی دور نکل گیا تو وہ کھڑی ہوکر اپنی پھولی ہوئی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی۔ اور پھر درانتی کو ایک طرف پھینک کر آفس چل دی۔

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                  ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول