صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
تتلیاں
شہزاد قیس
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
ہجر کے درد کو پلکوں پہ بٹھا کر رکھنا
دیپ اشکوں کا سرِ شام جلا کر رکھنا
چند لوگ آنکھوں کو پڑھنے میں یہاں ماہر ہیں
اس کو آنکھوں میں نہیں دل میں چھپا کر رکھنا
اب تو لوگوں کو سہارا یہ کھٹکتا ہے بہت
آخری خط کو کلیجے سے لگا کر رکھنا
لفظ لازم نہیں ، تم وقتِ دعا یوں کرنا
اس کی تصویر کو ہاتھوں پہ اٹھا کر رکھنا
حشر سے پہلے بپا حشر نہ ہو جائے کہیں
درد جتنا بھی اٹھے آہ دبا کر رکھنا
گر مرے نام کی مہندی کی اجازت نہ ملے
دل کی تختی پہ مرا نام سجا کر رکھنا
جانے ہو جائے دعا کون سی ساعت میں قبول
آس کا تاج محل روز بسا کر رکھنا
چاند کو دیکھ کے ملنے کی دعا واجب ہے
ہاتھ گر نیچے کریں پلکیں اٹھا کر رکھنا
سارے زخموں کو نہ شعروں میں اڑا دینا
قیس دل کی دھڑکن کو بھی کچھ زخم بچا کر رکھنا
٭٭٭
آنکھوں میں کل کے خواب ہیں خوش خواب تتلیاں
چندا سے پیار کرتی ہیں مہتاب تتلیاں
جب حسن کے صحیفے میں لکھا تمہارا نام
پھول اس پہ نقطے بن گئے ، اعراب تتلیاں
رمزِ چمن سمجھنی ہو ، آنکھوں پہ آنکھ رکھ
پلکیں جھکا کے کرتی ہیں آداب تتلیاں
سو منزلہ چمن سے یہ نقصان بھی ہوا
جگنو بھی خواب ہو گئے ، نایاب تتلیاں
جگنو کے سیل نکال کے تتلی میں ڈال دو
رکھتی ہیں بوڑھی جان کو شاداب تتلیاں
کچھ تتلیوں کی آنکھ میں شبنم نہیں رہی
غنچہ بہ غنچہ اڑتی ہیں بے خواب تتلیاں
بھنوروں کی پیاس بجھتی ہے شبنم سے ، شہد سے
اہل نظر کو کرتی ہیں سیراب تتلیاں
سودا چمن کا جب ہوا ، گل ہی گنے گئے
خود کو سمجھتی تھیں یونہی سرخاب تتلیاں
کیسا دکھایا قیس حسینوں کو آئینہ
یہ شعر پڑھ کے ہوتی ہیں آب آب تتلیاں
٭٭٭