صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ترا غم
توقیر عباس
ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزل/ نظم
ٹھہرے پانی پہ ہاتھ مارا تھا
دوستوں کو کہاں پکارا تھا
چھوڑ آیا تھا میز پر چائے
یہ جدائی کا استعارا تھا
روح دیتی ہے اب دکھائی مجھے
آئینہ آگ سے گزارا تھا
میری آنکھوں میں آ کے راکھ ہوا
جانے کس دیس کا ستارا تھا
وہ تو صدیوں سے میری روح میں تھا
عکس پتھر سے جو ابھارا تھا
زندگی اور کچھ نہ تھی توقیر
طفل کے ہاتھ میں غبارا تھا
٭٭٭
دور پیڑوں کے سائے میں
دور پیڑوں کے سائے میں
حرکت، مسلسل
مرا دھیان اس کی طرف
اور دل میں کئی واہمے
دل کی دھڑکن میں دھڑکیں
کئی گردشیں
اور میں ہشت پائے کے پنجے میں جکڑا گیا
عجب خوف پیڑوں کے سائے میں پلتا ہوا
اک تحرک
جو کھلتا نہیں
اور میں منتظر
جو بھی ہو نا ہے اب ہو
اور اب ایک آہٹ نے دہلا دیا
بہت دھیمی آہٹ
اجل نے چھوا ہو
کہ دنیا اندھیرے میں ڈوبی
کہیں دور خوشبو میں مہکا سویرا
تحرک کی ہچکی سنی
اور ہر چیز اپنی جگہ تھم گئی
سیاہی کا پردہ گرا
قمقمے جل اُٹھے
اور گھر جگمگانے لگے
٭٭٭