صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


اسلامی تحریک

ابو الاعلیٰ مودودی


مولانا مودودی کی کتاب’اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات‘ کا ایک حصہ

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں !

رفقاء و حاضرین! جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، ہماری جدوجہد کا آخری مقصود ’’انقلابِ امامت‘‘ ہے یعنی دنیا میں ہم جس انتہائی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ فُسّاق و فجّار کی امامت و قیادت ختم ہو کر امامتِ صالحہ کا نظام قائم ہو۔ اسی مقصدِعظیم کے لیے سعی و جہد کو ہم دنیا و آخرت میں رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔
یہ چیز جسے ہم نے اپنا مقصد قرار دیا ہے ، افسوس ہے کہ آج اس کی اہمیت سے مسلم اور غیرمسلم سبھی غافل ہیں ۔ مسلمان اس کو محض سیاسی مقصد سمجھتے ہیں اور ان کو کچھ احساس نہیں کہ دین میں اس کی کیا اہمیت ہے۔ غیر مسلم کچھ تعصب کی بنا پر اور کچھ ناواقفیت کی وجہ سے اس حقیقت کو جانتے ہی نہیں کہ دراصل فُسّاق و فجّار کی قیادت ہی نوعِ انسانی کے مصائب کی جڑ ہے اور انسان کی بھلائی کا سارا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ دنیا کے معاملات کی سربراہ کاری صالح لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔ آج دنیا میں جو فسادِ عظیم برپا ہے، جو ظلم اور طغیان ہو رہا ہے، انسانی اخلاق میں جو عالمگیر بگاڑ رُونما ہے، انسانی تمدّن ومعیشت و سیاست کی رگ رگ میں جو زہر سرایت کر گئے ہیں ، زمین کے تمام وسائل اور انسانی علوم کی دریافت کردہ ساری قوتیں جس طرح انسان کی فلاح و بہبود کے بجائے اُس کی تباہی کے لیے استعمال ہو رہی ہیں ، ان سب کی ذمہ داری اگر کسی چیز پر ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ دنیا میں چاہے نیک لوگوں اور شریف انسانوں کی کمی نہ ہو، مگر دنیا کے معاملات اُن کے ہاتھ میں نہیں ہیں ، بلکہ خدا سے پھرے ہوئے اور مادہ پرستی و بداخلاقی میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں ۔ اب اگر کوئی شخص دنیا کی اصلاح چاہتا ہے اور فساد کو صلاح سے، اضطراب کو امن سے، بداخلاقیوں کو اخلاق صالح سے اور برائیوں کو بھلائیوں سے بدلنے کا خواہش مند ہو تو اس کے لیے محض نیکیوں کا وعظ اور خداپرستی کی تلقین اور حُسنِ اخلاق کی ترغیب ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کا فرض ہے کہ نوعِ انسانی میں جتنے صالح عناصر اس کو مل سکیں انہیں ملا کر وہ اجتماعی قوت بہم پہنچائے جس سے تمدّن کی زمام کار فاسقوں سے چھینی جا سکے اور امامت کے نظام میں تغیر لایا جا سکے۔

زمام کار کی اہمیت
انسانی زندگی کے مسائل میں جس کو تھوڑی سی بصیرت حاصل ہو، وہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں رہ سکتا کہ انسانی معاملات کے بناؤ اور بگاڑ کا آخری فیصلہ جس مسئلے پر منحصر ہے وہ یہ سوال ہے کہ معاملاتِ انسانی کی زمامِ کار کس کے ہاتھ میں ہے ۔ جس طرح گاڑی ہمیشہ اُسی سمت میں چلا کرتی ہے، جس سمت پر ڈرائیور اس کو لے جانا چاہتا ہے اور دوسرے لوگ جو گاڑی میں بیٹھے ہوں ، خواستہ و ناخواستہ اسی سمت پر سفر کرنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں ، اسی طرح انسانی تمدن کی گاڑی بھی اسی سمت پر سفر کیا کرتی ہے جس سمت پر وہ لوگ جانا چاہتے ہیں جن کے ہاتھ میں تمدّن کی باگیں ہوتی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ زمین کے سارے ذرائع جن کے قابو میں ہوں ، قوت و اقتدار کی باگیں جن کے ہاتھ میں ہوں ، عام انسانوں کی زندگی جن کے دامن سے وابستہ ہو، خیالات و افکار و نظریات کو بنانے اور ڈھالنے کے وسائل جن کے قبضے میں ہوں ، انفرادی سیرتوں کی تعمیر اور اجتماعی نظام کی تشکیل اور اخلاقی قدروں کی تعیین جن کے اختیار میں ہو، ان کی رہنمائی و فرماں روائی کے تحت رہتے ہوئے انسانیت بحیثیت مجموعی اس راہ پر چلنے سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتی جس پر وہ اسے چلانا چاہتے ہیں ۔ یہ رہنما و فرماں روا اگر خداپرست اور صالح لوگ ہوں تو لامحالہ زندگی کا سارا نظام خدا پرستی اور خیروصلاح پر چلے گا، بُرے لوگ بھی اچھے بننے پر مجبور ہوں گے، بھلائیوں کو نشوونما نصیب ہو گی اور بُرائیاں اگر مٹیں گی نہیں تو کم از کم پروان بھی نہ چڑھ سکیں گی لیکن اگر رہنمائی و قیادت اور فرمانروائی کا یہ اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو خدا سے برگشتہ اور فسق و فجور میں سرگشتہ ہوں تو آپ سے آپ سارا نظامِ زندگی خدا سے بغاوت اور ظلم و بد اخلاقی پر چلے گا۔ خیالات و نظریات، علوم و آداب، سیاست و معیشت، تہذیب و معاشرت،۱ خلاق و معاملات، عدل و قانون، سب کے سب بحیثیت مجموعی بگڑ جائیں گے۔ برائیاں خوب نشوونما پائیں گی۔ بھلائیوں کو زمین اپنے اندر جگہ دینے سے اور ہوا اور پانی ان کو غذا دینے سے انکار کر دیں گے اور خدا کی زمین ظلم و جور سے لبریز ہو کر رہے گی۔ ایسے نظام میں برائی کی راہ پر چلنا آسان اور بھلائی کی راہ پر چلنا کیا معنی ، قائم رہنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ جس طرح آپ نے کسی بڑے مجمع میں دیکھا ہو گا کہ سارا مجمع جس طرف جا رہا ہو اس طرف چلنے کے لیے تو آدمی کو کچھ قوت لگانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ مجمع کی قوت سے خودبخود اسی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے، لیکن اگر اس کی مخالف سمت میں کوئی چلنا چاہے تو وہ بہت زور مار کر بھی بہ مشکل ایک آدھ قدم چل سکتا ہے، اور جتنے قدم وہ چلتا ہے مجمع کا ایک ہی ریلا اس سے کئی گنے زیادہ قدم اُسے پیچھے دھکیل دیتاہے، اسی طرح اجتماعی نظام بھی جب غیرصالح لوگوں کی قیادت میں کفر و فسق کی راہوں پر چل پڑتا ہے تو افراد اور گروہوں کے لیے غلط راہ پر چلنا تو اتنا آسان ہو جاتا ہے کہ انہیں بطور خود اس پر چلنے کے لیے کچھ زور لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن اگر وہ اس کے خلاف چلنا چاہیں تو اپنے جسم و جاں کا سارا زور لگانے پر بھی ایک آدھ قدم ہی راہِ راست پر بڑھ سکتے ہیں اور اجتماعی رو اُن کی مزاحمت کے باوجود انہیں دھکیل کر میلوں پیچھے ہٹا لے جاتی ہے۔
یہ بات جو میں عرض کر رہا ہوں ، یہ اب کوئی ایسی نظری حقیقت نہیں رہی ہے جسے ثابت کرنے کے لیے دلائل کی ضرورت ہو، بلکہ واقعات نے اسے ایک بدیہی حقیقت بنا دیا ہے جس سے کوئی صاحبِ دیدۂ بینا انکار نہیں کر سکتا۔ آپ خود ہی دیکھ لیں کہ پچھلے سو برس کے اندر آپ کے اپنے ملک میں کس طرح خیالات و نظریات بدلے ہیں ، مذاق اور مزاج بدلے ہیں ، سوچنے کے انداز اور دیکھنے کے زاویے بدلے ہیں ، تہذیب و اخلاق کے معیار اور قدروقیمت کے پیمانے بدلے ہیں ، اور کون سی چیز رہ گئی ہے جو بدل نہ گئی ہو۔ یہ سارا تغیر جو دیکھتے دیکھتے آپ کی اسی سرزمین میں ہوا اس کی اصلی وجہ آخر کیا ہے؟ کیا آپ اس کی وجہ اس کے سوا کچھ اور بتا سکتے ہیں کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں زمامِ کار تھی، اور رہنمائی و فرمانروائی کی باگوں پر جن کا قبضہ تھا، انہوں نے پورے ملک کے اخلاق، اذہان، نفسیات، معاملات اور نظام تمدّن کو اُس سانچے میں ڈال کر رکھ دیا جو اُن کی اپنی پسند کے مطابق تھا؟ پھر جن طاقتوں نے اس تغیر کی مزاحمت کی ذرا ناپ کر دیکھیے کہ انہیں کامیابی کتنی ہوئی اور ناکامی کتنی۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ کل جو مزاحمت کی، تحریک کے پیشوا تھے، آج اُن کی اولاد وقت کی رو میں بہی چلی جا رہی ہے اور ان کے گھروں تک میں بھی وہی سب کچھ پہنچ گیا ہے جو گھروں سے باہر پھیل چکا ہے؟ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ مقدس ترین مذہبی پیشواؤں تک کی نسل سے وہ لوگ اٹھ رہے ہیں جنہیں خدا کے وجود اور وحی و رسالت کے امکان میں بھی شک ہے؟ اس مشاہدے اور تجربے کے بعد بھی کیا کسی کو اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں تأمل ہو سکتا ہے کہ انسانی زندگی کے مسائل میں اصل فیصلہ کُن مسئلہ زمامِ کار کا مسئلہ ہے؟ اور یہ اہمیت اس مسئلے نے کچھ آج ہی اختیار نہیں کی ہے بلکہ ہمیشہ سے اس کی یہی اہمیت رہی ہے۔ اَلنَّاسُ عَلیٰ دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ بہت پرانا مقولہ ہے۔ اور اسی بنا پر حدیث میں قوموں کے بناؤ اور بگاڑ کا ذمہ دار ان کے علماء اور امراء کو قرار دیا گیا ہے، کیونکہ لیڈرشپ اور زمامِ کار انہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

امامتِ صالحہ کا قیام دین کا حقیقی مقصود ہے
اس تشریح کے بعد یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ دین میں اس مسئلے کی کیا اہمیت ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ کا دین اول تو یہ چاہتا ہے کہ لوگ بالکلیہ بندۂ حق بن کر رہیں اور اُن کی گردن میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کا حلقہ نہ ہو۔ پھر وہ چاہتا ہے کہ اللہ ہی کا قانون لوگوں کی زندگی کا قانون بن کر رہے۔ پھر اس کا مطالبہ یہ ہے کہ زمین سے فساد مٹے، ان منکرات کا استیصال کیا جائے جو اہل زمین پر اللہ کے غضب کے موجب ہوتے ہیں اور اُن خیرات و حسنات کو فروغ دیا جائے جو اللہ کو پسند ہیں ۔ ان تمام مقاصد میں سے کوئی مقصد بھی اس طرح پُورا نہیں ہو سکتا کہ نوع انسانی کی رہنمائی و قیادت اور معاملاتِ انسانی کی سربراہ کاری ائمہ کفر و ضلال کے ہاتھوں میں ہو اور دینِ حق کے پیرومحض اُن کے ماتحت رہ کر اُن کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یاد خدا کرتے رہیں ۔ یہ مقاصد تو لازمی طور پر اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام اہل خیر وصلاح جو اللہ کی رضا کے طالب ہوں ،اجتماعی قوت پیدا کریں اور سر دھڑ کی بازی لگا کر ایک ایسا نظامِ حق قائم کرنے کی سعی کریں جس میں امامت و رہنمائی اور قیادت و فرماں روائی کا منصب مومنین صالحین کے ہاتھوں میں ہو۔ اس چیز کے بغیر وہ مدعا حاصل نہیں ہو سکتا جو دین کا اصل مدعا ہے۔
اسی لیے دین میں امامتِ صالحہ کے قیام اور نظامِ حق کی اقامت کو مقصدی اہمیت حاصل ہے اور اس چیز سے غفلت برتنے کے بعد کوئی عمل ایسا نہیں ہو سکتا جس سے انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کو پہنچ سکے۔ غور کیجیے، آخر قرآن و حدیث میں التزامِ جماعت اور سمع و طاعت پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت سے خروج اختیار کر لے تو اس سے قتال واجب ہے خواہ وہ کلمۂ توحید کا قائل اور نماز روزے کا پابند ہی کیوں نہ ہو؟ کیا اس کی وجہ یہ اور صرف یہی نہیں ہے کہ امامتِ صالحہ اور نظامِ حق کا قیام و بقا دین کا حقیقی مقصود ہے اور اس مقصد کا حصول اجتماعی طاقت پر موقوف ہے، لہٰذا جو شخص اجتماعی طاقت کو نقصان پہنچاتا ہے وہ اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرتا ہے جس کی تلافی نہ نماز سے ہو سکتی ہے اور نہ اقرار توحید سے؟ پھر دیکھیے کہ آخر اس دین میں جہاد کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے کہ اس سے جی چرانے اور منہ موڑنے والوں پر قرآن مجید نفاق کا حکم لگاتا ہے؟ جہاد، نظامِ حق کی سعی کا ہی تو دوسرا نام ہے۔ اور قرآن اسی جہاد کو وہ کسوٹی قرار دیتا ہے جس پر آدمی کا ایمان پرکھا جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر جس کے دل میں ایمان ہو گا وہ نہ تو نظامِ باطل کے تسلط پر راضی ہو سکتا ہے اور نہ نظامِ حق کے قیام کی جدوجہد میں جان و مال سے دریغ کر سکتا ہے۔ اس معاملے میں جوشخص کمزوری دکھائے اس کا ایمان ہی مشتبہ ہے، پھر بھلا کوئی دوسرا عمل اسے کیا نفع پہنچا سکتا ہے؟
اس وقت اتنا موقع نہیں ہے کہ میں آپ کے سامنے اس مسئلے کی پوری تفصیل بیان کروں ۔ مگر جو کچھ میں نے عرض کیا ہے وہ اس حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے لیے بالکل کافی ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے امامتِ صالحہ کا قیام مرکزی اور مقصدی اہمیت رکھتا ہے۔ جو شخص اس دین پر ایمان لایا ہو اُس کا کام صرف اتنے ہی پر ختم نہیں ہو جاتا کہ اپنی زندگی کو حتی الامکان اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے بلکہ عین اس کے ایمان ہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی تمام سعی و جہد کو اس مقصد پر مرکوز کر دے کہ زمامِ کار کفار و فساق کے ہاتھ سے نکل کر صالحین کے ہاتھ میں آئے اور وہ نظامِ حق قائم ہو جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق دنیا کے انتظام کو درست کرے اور درست رکھے۔ پھر چونکہ یہ مقصد اعلیٰ اجتماعی کوشش کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اس لیے ایک ایسی جماعتِ صالحہ کا وجود ضروری ہے جو خود اصولِ حق کی پابند ہو اور نظامِ حق کو قائم کرنے، باقی رکھنے اور ٹھیک ٹھیک چلانے کے سوا دنیا میں کوئی دوسری غرض پیش نظر نہ رکھے۔ روئے زمین پر اگر صرف ایک ہی آدمی مومن ہو تب بھی اس کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ اپنے آپ کو اکیلا پا کر اور ذرائع مفقود دیکھ کر نظامِ باطل کے تسلط پر راضی ہو جائے یا اہون البلیتین کے شرعی حیلے تلاش کر کے غلبۂ کفر و فسق کے ماتحت کچھ آدھی پونی مذہبی زندگی کا سودا چکانا شروع کر دے۔ بلکہ اس کے لیے سیدھا اور صاف راستہ یہی ایک ہے کہ بندگان خدا کو اس طریقِ زندگی کی طرف بلائے جو خدا کو پسند ہے۔ پھر اگر کوئی اس کی بات سن کر نہ دے تو اُس کا ساری عمر صراطِ مستقیم پر کھڑے ہو کر لوگوں کو پکارتے رہنا اور پکارتے پکارتے مر جانا اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ وہ اپنی زبان سے وہ صدائیں بلند کرنے لگے جو ضلالت میں بھٹکی ہوئی دنیا کو مرغوب ہوں ، اور ان راہوں پر چل پڑے جن پر کفار کی امامت میں دنیا چل رہی ہو۔ اور اگر کچھ اللہ کے بندے اس کی بات سننے پر آمادہ ہو جائیں تو اس کے لیے لازم ہے کہ ان کے ساتھ مل کر ایک جتھا بنائے اور یہ جتھا اپنی تمام اجتماعی قوت اُس مقصدِ عظیم کے لیے جدوجہد کرنے میں صرف کر دے جس کا میں ذکر رہا ہوں ۔
حضرات! مجھے خدا نے دین کا جو تھوڑا بہت علم دیا ہے اور قرآن و حدیث کے مطالعہ سے جو کچھ بصیرت مجھے حاصل ہوئی ہے، اس سے میں دین کا تقاضا یہی کچھ سمجھا ہوں ۔ یہی میرے نزدیک کتاب الٰہی کا مطالبہ ہے۔ یہی انبیاء کی سُنت ہے اور میں اپنی اس رائے سے ہٹ نہیں سکتا جب تک کوئی خدا کی کتاب اور رسول کی سنت ہی سے مجھ پر ثابت نہ کر دے کہ دین کا یہ تقاضا نہیں ہے۔

امامت کے باب میں خُدا کی سُنّت
اپنی سعی کے اس مقصد و منتہا کو سمجھ لینے کے بعد اب ہمیں اُس سُنّت اللہ کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جس کے ماتحت ہم اپنے اس مقصود کو پا سکتے ہیں ۔ یہ کائنات جس میں ہم رہتے ہیں ، اس کو اللہ تعالیٰ نے ایک قانون پر بنایا ہے اور اس کی ہر چیز ایک لگے بندھے ضابطے پر چل رہی ہے۔ یہاں کوئی سعی محض پاکیزہ خواہشات اور اچھی نیتوں کی بنا پر کامیاب نہیں ہو سکتی اور نہ محض نفوسِ قدسیہ کی برکتیں ہی اس کو بارآور کر سکتی ہیں ، بلکہ اس کے لیے اُن شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے جو ایسی مساعی کی بارآوری کے لیے قانون الٰہی میں مقرر ہیں ۔ آپ اگر زراعت کریں تو خواہ آپ کتنے ہی بزرگ صفت انسان ہوں اور تسبیح و تحلیل میں کتنا ہی مبالغہ کرتے ہوں ، بہرحال آپ کا پھینکا ہوا کوئی بیج بھی برگ و بار نہیں لا سکتا جب تک آپ اپنی سعی کا شتکاری میں اُس قانون کی پوری پوری پابندی ملحوظ نہ رکھیں جو اللہ نے کھیتوں کی بارآوری کے لیے مقرر کر دیا ہے۔ اسی طرح نظام امامت کا وہ انقلاب بھی جو آپ کے پیش نظر ہے کبھی محض دعاؤں اور پاک تمناؤں سے رُونما نہ ہو سکے گا۔ بلکہ اس کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ آپ اُس قانون کو سمجھیں اور اُس کی ساری شرطیں پوری کریں جس کے تحت دنیا میں امامت قائم ہوتی ہے، کسی کو ملتی ہے اور کسی سے چھنتی ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی میں اس مضمون کو اپنی تحریروں اور تقریروں میں اشارۃً بیان کرتا رہا ہوں ، لیکن آج میں اسے مزید تفصیل و تشریح کے ساتھ پیش کرنا چاہتا ہوں ، کیونکہ یہ وہ مضمون ہے جسے پوری طرح سمجھے بغیر ہمارے سامنے اپنی راہِ عمل واضح نہیں ہو سکتی۔
انسان کی ہستی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر دو مختلف حیثیتیں پائی جاتی ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں اور باہم ملی جلی بھی۔
اس کی ایک حیثیت تو یہ ہے وہ اپنا ایک طبعی و حیوانی وجود رکھتا ہے جس پر وہی قوانین جاری ہوتے ہیں جو تمام طبعیات و حیوانات پر فرماں روائی کر رہے ہیں ۔ اس وجود کی کارکردگی منحصر ہے اُن آلات و وسائل پر، اُن مادی ذرائع پر، اُن طبعی حالات پر جن پر دوسری تمام طبعی اور حیوانی موجودات کی کارکردگی کا انحصار ہے۔ یہ وجود جو کچھ کر سکتا ہے قوانینِ طبعی کے تحت، آلات وسائل کے ذریعے سے اور طبعی حالات کے اندر ہی رہتے ہوئے کر سکتا ہے اور اس کے کام پر عالمِ اسباب کی تمام قوتیں مخالف یا موافق اثر ڈالتی ہیں ۔
دوسری حیثیت جو انسان کے اندر نمایاں نظر آتی ہے وہ اس کے انسان ہونے یا بالفاظِ دیگر ایک اخلاقی وجود ہونے کی حیثیت ہے۔ یہ اخلاقی وجود طبیعیات کا تابع نہیں ہے۔ بلکہ اُن پر ایک طرح سے حکومت کرتا ہے۔ یہ خود انسان کے طبعی و حیوانی وجود کو بھی آلے کے طور پر استعمال کرتا ہے اور خارجی دنیا کے اسباب کو بھی اپنا تابع بنانے اور اُن سے کام لینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی کارکن قوتیں وہ اخلاقی اوصاف ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان میں ودیعت فرمائے ہیں ۔ اور اس پر فرمانروائی بھی طبعی قوانین کی نہیں بلکہ اخلاقی قوانین کی ہے۔

انسانی عروج و زوال کا مدار اخلاق پر ہے
یہ دونوں حیثیتیں انسان کے اندر ملی جلی کام کر رہی ہیں اور مجموعی طور پر اُس کی کامیابی و ناکامی اور اس کے عروج و زوال کا مدار مادی اور اخلاقی دونوں قسم کی قوتوں پر ہے۔ وہ بے نیاز تو نہ مادی قوت ہی سے ہو سکتا ہے اور نہ اخلاقی قوت ہی سے۔ اسے عروج ہوتا ہے تو دونوں کے بل پر ہوتا ہے۔ اور وہ گرتا ہے تو اسی وقت گرتا ہے جب یہ دونوں طاقتیں اس کے ہاتھ سے جاتی رہتی ہیں یا اُن میں وہ دوسروں کی بہ نسبت کمزور ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر غائر نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ انسانی زندگی میں اصل فیصلہ کُن اہمیت اخلاقی طاقت کی ہے نہ کہ مادی طاقت کی۔ اس میں شک نہیں کہ مادی وسائل کا حصول، طبعی ذرائع کا استعمال، اور اسبابِ خارجی کی موافقت بھی کامیابی کے لیے شرطِ لازم ہے اور جب تک انسان اس عالمِ طبعی میں رہتا ہے یہ شرط کسی طرح ساقط نہیں ہو سکتی۔ مگر وہ اصل چیز جو انسان کو گراتی اور اٹھاتی ہے اور جسے اس کی قسمت کے بنانے اور بگاڑنے میں سب سے بڑھ کر دخل حاصل ہے وہ اخلاقی طاقت ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم جس چیز کی وجہ سے انسان کو انسان کہتے ہیں وہ اُس کی جسمانیت یا حیوانیت نہیں بلکہ اس کی اخلاقیت ہے۔ آدمی دوسری موجودات سے جس خصوصیت کی بنا پر ممیز ہوتا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ وہ جگہ گھیرتا ہے یا سانس لیتا ہے یا نسل کشی کرتا ہے۔ بلکہ اس کی وہ امتیازی خصوصیت جو اسے ایک مستقل نوع ہی نہیں خلیفۃ اللہ فی الارض بناتی ہے۔ وہ اس کا اخلاقی اختیار اور اخلاقی ذمہ داری کا حامل ہونا ہے۔ پس جب اصل جوہر انسانیت اخلاق ہے تو لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ اخلاقیات ہی کو انسانی زندگی کے بناؤ اور بگاڑ میں فیصلہ کن مقام حاصل ہے اور اخلاقی قوانین ہی انسان کے عروج و زوال پر فرماں روا ہیں ۔
اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد جب ہم اخلاقیات کا تجزیہ کرتے ہیں تو وہ اصولی طور پر ہمیں دو بڑے شعبوں میں منقسم نظر آتے ہیں۔

****

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول