صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


تیسری دفعہ کا ذکر ہے

پروفیسر ڈاکٹر غلام شبیر رانا

(افسانے اور انشائیے)

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

 ایک کہانی جانی ان جانی   

             تیسری دفعہ کا ذکر ہے کہ تیسری دنیا کے ایک ملک  کے  تیسرے کنارے پر ایک جنگل تھا۔اس جنگل میں  ظاہر ہے کہ جنگل ہی کا  قانون نافذ تھا۔جو جانور نہ تین میں  ہوتا نہ تیرہ میں  اس جنگل میں  گلچھرے اڑاتا۔دوسرے جنگلوں  کی طرح اس جنگل میں  بھی ایک بادشاہ موجود تھا۔جو بھی اس کے سامنے تین پانچ کرتا یہ بادشاہ اس کا تیا پانچہ کر دیتا۔یہ ایک ایسا شیر تھا جو صرف اپنے ہی جنگل میں  منگل کا سماں  پیدا کرتا تھا باہر تو یدھ کے باعث سدا بدھ کی حالت ہوتی تھی۔ کسی کو  گرد و نواح کی  کوئی شدھ بدھ نہ رہتی۔یہ لرزہ خیز کیفیت  درندگی اور خون آشامی کے لیے ہمیشہ ساز گار ثابت ہوتی ہے۔تیرہ تار ماحول میں  جو جانور بھی اس درندے کی زد میں  آتا وہ زندگی کی بازی ہار جاتا اور اس کے پس ماندگان آٹھ آٹھ آنسو روتے اور اس شیر کے لیے بد دعا کرتے۔ہر طرف زاغ و زغن منڈلاتے پھرتے تھے۔ہر شاخ پر بوم و شپر کا آشیاں  تھا۔تمام جانور اپنی اپنی دھن میں  مگن مستقبل سے بے خبر سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کر رہے تھے۔سب سے زیادہ مست طوطے تھے جوجی بھر کر چوری کھاتے اور ٹیں  ٹیں  کر کے اس درندے کی تعریف میں  زمین آسمان کے قلابے ملاتے ،دوسرے طیور آوارہ،حشرات اور جانوروں  کو سبز باغ دکھاتے اور بہتی گنگا میں  چونچ دھو کر خوشی سے پروں  میں  پھولے نہ سماتے۔کئی راجہ گدھ، چمگادڑ، بڑے بڑے الو اور الو کے پٹھے بھی اس عبرت سرائے دہر میں  موجود تھے جنھیں   سر گرم جلوہ دیکھ کر نیرنگیِ تقدیر جہاں  کے بارے میں  کوئی ابہام نہ رہتا۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ روم جل رہا تھا مگر وقت کا نیرو دم دبائے  دہاڑنے  اور بے بس جانوروں  کو چیرنے پھاڑنے میں  مصروف تھا۔
       وقت سدا  ایک جیسا  نہیں  رہتا۔سیل زماں  کے تھپیڑے حالات و واقعات کا رخ بدل دیتے ہیں۔ایک طوفانی رات موسلا دھار بارش ہوئی۔آسمانی بجلی گرنے سے شیر کا غار جل گیا۔یہ خون آشام درندہ مرنے سے تو بچ گیا مگر آگ سے بچ نکلنے کی کوشش میں  اس کی  چاروں   ٹانگیں  بری طرح جھلس گئیں   اور وہ مکمل طور پر اپاہج ہو کر رہ گیا۔اب وہ زخموں  سے نڈھال اور چلنے سے معذور تھا۔اس عذاب میں  بھی وہ اپنی عیاری،شقاوت اور لذت ایذا سے باز نہ آیا،اس نے کچھ ایسے گماشتے تلاش کر لیے جس اس کے لیے راتب بھاڑا فراہم کرتے  اس کے بدلے کچھ بچا کھچا مال انھیں  بھی مل جاتا جس سے وہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھر لیتے لیکن اندر ہی اندر انھیں  یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ انھیں  شیر کا بچا کھچا گوشت،اوجھڑی،ہڈیاں ،پسلیاں ،گردن اور سری پائے کے سوا کچھ نہیں  ملتا۔ان گماشتوں  میں  بجو،لومڑی  اور بھیڑیا شامل تھے۔اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس جنگل میں  نافذ جنگل کے قانون کے خلاف جو بھی صدائے احتجاج بلند کرتا اس کی ہڈی پسلی ایک کر دی جاتی تھی۔بادشاہ پھر بھی بادشاہ ہوتا ہے خواہ  روہیلے کے ہاتھوں آنکھوں  سے محروم ہونے والا شاہ عالم ہو یا وہ جید جاہل آمر جن کو قدرت کاملہ نے عقل کا اندھا بنا کر انھیں  پوری دنیا میں  تماشا بنا دیا ہو۔
      سیانے کہتے ہیں  کبھی کبھی کوڑے کے ڈھیر کو بھی اپنی اہمیت کا احساس ہو جاتا ہے۔خفاش منش اجلاف و ارزال اور سفہا کے خود ساختہ نمائندے بجو،لومڑی اور بھیڑیا ایک شام شیر کے پاس گئے اور اپنا احتجاج اس کے سامنے دم ہلا کر پیش کیا۔بجو نے اپنی مکروہ آواز میں  کہا:
         ’’ مجھے قبروں  سے تازہ دفن ہونے والے مردوں  کا گوشت بہت پسند ہے۔مگر کیا کروں  آج کل جو بھی مردے دفن کیے جاتے ہیں  وہ محض ڈھانچے ہوتے ہیں۔ان کے جسم سے تمام گوشت تو دنیا والے پہلے ہی نوچ لیتے ہیں۔یہ مظلوم زندہ در گور ہو جاتے ہیں۔میں  تو اس آس پر فربہ جانوروں  کو بہلا پھسلا کر یہاں  لاتا ہوں  کہ مجھے کچھ چربیلا گوشت ملے گا مگر یہاں  بھی سوائے ہڈیوں  کے کچھ نہیں  ملتا۔یہ ہمارا استحصال ہے۔اپنے جائز حقوق کی بحالی تک ہم مزید شکار نہیں  لا سکتے۔تمام جانور ہماری فریب کاری،غداری اور ضمیر فروشی کی وجہ سے ہم سے بیزار ہیں۔ہمارے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے۔ہمیں  ہماری غداری کا مناسب صلی ملنا چاہیے۔‘‘
      بھیڑیا جو اپنی لاف زنی کے لیے مشہور تھا اس نے بجو کی ہاں  میں  ہاں  ملاتے ہوئے کہا ’’میری نسل پر گرگ آشتی کا الزام لگایا جاتا ہے ،لیکن اپنے ابنائے جنس کے خون سے ہولی کھیلنے میں  انسان بھی ہم سے پیچھے نہیں۔  میں  علی الصبح  ایک ننھا  بھیڑیا آ پ کے پاس ورغلا کر لاتا  جس کا آپ خون پی جاتے  اور تمام گوشت ہڑپ کر جاتے۔میں  نے اب تک ساٹھ بھیڑیئے آپ کے ناشتے کے لیے پیش کیے مگر کبھی مجھے نرم گوشت آپ نے نہیں  دیا۔مسلسل اوجھڑی کھا کھا کر اب مجھے ابکائیاں  آتی ہیں۔حد چاہیے غذا میں  اوجھڑی کے واسطے۔میں  اپنے ساتھیوں  کا غدار ضرور ہوں  مگر احمق نہیں۔مناسب معاوضے کے بغیر میں  اب مزید اپنے ساتھی پکڑ کر آپ کے حوالے نہیں  کر سکتا۔یہ ہماری قربانی ہے کہ ہم نے ایک ذہنی اور جسمانی معذور درندے کو اب تک جنگل کا بادشاہ بنا رکھا ہے۔اب تو بات برابر کی سطح پر ہی ہو سکتی ہے۔آئندہ جس جانور کہ ہم مکاری اور عیاری سے یہاں  لائیں  اس کے گوشت کی تقسیم ہر اعتبار سے مساوی ہونی چاہیے  ورنہ ہم اس کام کو مزید جاری نہیں  رکھ سکتے۔‘‘
       وقت کی بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہر جاندار کے کبھی نہ کبھی بے بسی کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔جنگل کے بادشاہ شیر پر بھی ایسا ہی کٹھن وقت آ گیا تھا۔درندوں  کی زندگی میں  جب سخت مقام آتے ہیں  تو وہ  حکمت عملی کے تحت شتر گربہ کی پالیسی اپناتے ہیں  اور نرم  رویہ اپنا کر  نہ صرف اپنا الو سیدھ اکر تے ہیں  بلکہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے گدھے کو بھی اپنا باپ کہنے میں  کوئی تامل نہیں  کرتے۔شیر نے بڑی خند ہ پیشانی سے یہ سب باتیں  خاموشی سے سنیں  اور آنکھیں  بند کر لیں۔اب اس نے لومڑی سے مایطب ہو کر کہا کہ وہ بھی اپنا موقف بیان کرے۔لومڑی نے اپنی قبیح عادت کے مطابق چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے جنگل کے بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا ؛
           ’’انسانوں  کو اپنے ابنائے جنس سے غداری کرنے پر ہر دور میں  بھاری انعام ملتے رہے ہیں۔ہماری ضمیر فروشی کا مناسب معاوضہ ہمیں  آج تک کبھی نہیں  مل سکا۔میں  نے لاتعداد نرم و نازک جانوروں کو فریب دیا انھیں  یہاں  لائی یہ سب آپ کا لقمۂ تر بن گئے۔اس کے بدلے ہمیں  کیا ملا؟ صرف بچی کھچی ہڈیاں  اور زمانے بھر کی ذلتیں  اور رسوائیاں۔اب ہم مزید یہ شقاوت آمیز نا انصافی برداشت نہیں  کر سکتے۔ہم شکار میں  سے اپنا مساوی حصہ لیے بغیر اب آئندہ کبھی جانوروں کے بے گنا ہ قتل عام میں  شریک جرم نہیں  رہ سکتے۔‘‘
      شیر یہ سب باتیں  سن کر دہاڑا’’ مجھے تمھارے تمام خیالات سے اتفاق ہے۔آئندہ تم جو بھی شکار لاؤ گے اس کے چار برابر  حصے کیے جائیں  گے۔اب جلدی جاؤ اور ایک نرم و نازک ہرن کو گھیر کر لاؤ ظل تباہی آج کا ناشتہ ہرن کے گوشت سے کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
 جنگل کے بادشاہ کا فیصلہ سن کر تینوں  جانوروں  کے منہ میں  پانی بھر آیا اور ان کی آنکھوں  میں  ایک شیطانی چمک پیدا ہو گئی۔وہ اسی وقت ایک جھیل پر پہنچے ایک کم سن ہرن پانی پی رہا تھا لومڑی نے اس سے کہا  :
  ’’ اے میرے چاند ادھر میرے ساتھ آ  میں  تمھیں  آج جنگل کے بادشاہ کی زیارت کے لیے لے جاؤں  گی۔‘‘
   ’’ نہیں  ایسا کبھی نہیں  ہو سکتا ‘‘ چھوٹا ہرن بولا’’ تم نے وہ مثل نہیں  سنی ’’ اس ہرنی کی خیر نہیں  جو شیر کی جانب جائے گی‘‘
     بجو بولا’’ ہرن چاند تم کس قدر خوب صورت ہو ؟ میر دل چاہتا ہے کہ تم ہی ہمارے بادشاہ بن جاؤ۔‘‘
    ’’ واہ کیا اچھی بات کہی ہے ‘‘ بھیڑیا بولا ’’اگر ہرن جنگل کا بادشاہ بن جائے تو انقلاب آ جائے گا۔ہرن راج آج وقت کی ضرورت ہے اس طرح جنگل کے جانور تیزی سے آگے بڑھ سکیں  گے۔‘‘
’’میں  کیسے بادشاہ بن سکتا ہوں ؟‘‘ہرن نے فرط اشتیاق سے کہا ’’اس وقت جنگل کا بادشاہ تو شیر ہے۔اسے کون ہٹائے گا ؟‘‘
لومڑی نے برف پگھلتی دیکھی تو بولی ’’جنگل کا بادشاہ شیر اس وقت قریب المرگ ہے اس کی خواہش ہے کہ وہ اپنا جانشیں  تمھیں  بنا دے اس نے ہمیں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے۔آج ہی تمھاری تاج پوشی کر دی جائے گی۔اس کے بعد جنگل میں  ہرن راج کا آغاز ہو جائے گا۔‘‘
بھیڑیا بولا ’’پہلے سے ہرن مینار  شیخوپورہ میں  موجود ہے اب صرف تمھاری تاج پوشی کی دیر ہے۔تمھارے جیسا حکمران آج تک جنگل کو نصیب نہیں  ہوا۔‘‘
بجو نے کہا’’ جب تمھاری تاج پوشی ہو گی ہم تمھارے مشیر ہوں  گے ابھی ہمارے ساتھ چلو اور اپنا سکہ جاری کر دو۔‘‘
ہرن اسی وقت آمادہ ہو گیا اور لومڑی،بجو اور بھیڑیے کے ہمراہ لولے لنگڑے جنگل کے بادشاہ کے غار میں  داخل ہو گیا۔جاہ و منصب کی خواہش بھی عجیب خواہش ہے یہ پل بھر میں  عقل و خرد کا سفیہ غرقاب کر دیتی ہے۔ہرن کہ دیکھتے ہی شیر کے منہ میں  پانی بھر آیا۔لومڑی،بھیڑیے اور بجو نے شیر کو ہرن کے سات طے پانے والی تمام شرائط سے آگاہ کر دیا۔
  اپنی اندرونی سفلگی،بد طینتی اور درندگی کو چھپاتے ہوئے شیر نے کہا ’’ میرا جا نشین ہرن ہی ہو گا۔ہرن مینار کے بعد اب ہرن کی لاٹھ  تعمیر ہو گی  ہر طرف ہرن کے نعرے بلند ہوں  گے۔آؤ میرے عزیز ہرن میں  تمھاری تاج پوشی کی رسم ادا کر کے اپنی ذمہ داری پوری کروں۔آؤ جنگل کے مستقبل کے حکمران  میں  اپنی بادشاہت تمھیں  منتقل کروں۔‘‘
   یہ سنتے ہی ہرن نے آؤ دیکھا نہ تاؤ شیر کی آغوش میں  جا بیٹھا۔پلک جھپکتے میں  شیر کے دانت ہرن کی شہ رگ میں  پیوست ہو گئے۔ہرن کی شہ رگ کا خون پینے کے بعد شیر نے ہرن کی کھال اپنے نوکیلے پنجوں  سے ادھیڑ ی۔اور تمام گوشت کے چار برابر حصے کر دیئے۔لومڑی،بجو اور بھڑیے کے منہ میں  پانی بھر آیا اور ان کی آنتیں  قل ہو اللہ پڑھنے لگیں۔انھیں  یقین تھا کہ آج شیر اپنا وعدہ وفا کرے گا۔وہ سب دل ہی دل میں متاسف تھے کہ اب تک ناحق شیر کی نیت پر شک کرتے تھے۔
     اچانک شیر زور سے دہاڑا۔شیر کی آواز سن کر سارا جنگل گونج اٹھا۔شیر نے کہا:
        ’’میں  نے حسب وعدہ  شکار کے چار حصے کر دیے ہیں۔‘‘
  لومڑی بولی ’’ اب ہمارے حصے ہمیں  دیں۔کل سے کچھ کھانے کو نہیں  ملا۔اس کم بخت ہرن کو بڑی مشکل سے فریب دے کر یہاں  لائے ہیں  ‘‘
    ’’ چار حصے تو میں  نے کر دئیے ‘‘ شیر نے گرج کر کہا ’’اب تقسیم اس طرح سے ہو گی ’’ پہلا حصہ میں  لوں  گا کیونکہ میں  علیل ہوں  اور مجھے غذا کی ضرورت ہے۔دوسرا حصہ بھی میرا ہے کیونکہ میں  جنگل کا بادشاہ ہوں ،تیسرا حصہ مجھے جنگل کے قانون کی شق آٹھ کے تحت ملے گا جسے کہیں  چیلنج نہیں  کیا جا سکتا۔اور رہ گیا آخری اور چوتھا حصہ وہ یہ میر ی  ناک کے نیچے پڑا ہے جس کو ضرورت ہے وہ آگے آئے اور اسے اٹھا کر لے جائے ‘‘
یہ سن کر لومڑی،بجو اور بھیڑیا وہاں  سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدے کے سر  سے سینگ ۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول