صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


تیسرا ہاتھ

سرور عالم راز سرورؔ

(افسانے)

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

تھپڑ

   اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے فادر جان نے گھما کر زنّاٹے کا ایک تھپڑ میرے گال پر رسید کر دیا ہو! میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا اور فضا میں نیلے پیلے تِرمِرے ناچنے لگے ۔ میرا چہرہ شرم اور کرب سے تمتما گیا، پیشانی پسینہ سے نم ہو گئی اور سارا بدن یوں کانپنے لگا جیسے اس کا سارا ست کسی نے نچوڑ لیا ہو۔اس تھپڑ کی گونج میرے رگ و پے میں کوند رہی تھی اور فادر جانکی میٹھی آواز اپنے دامن میں کتنے ہی زہریلے نشتر لئے میرے ذہن کے کسی گوشہ میں برابر مجھ پر ہنسے جا رہی تھی ، ہی ہی ہی ! ہا ہا ہا ! اور میں مجبور و
ناچار کھڑا یہ ہنسی سن رہا تھا اور کانپ رہا تھا۔ گھٹن اور ذہنی کرب سے گھبر ا کر جب بڑی ہمت کر کے نظریں اٹھائیں تو فادر جانکے چہرہ پر ہنسی یا تمسخر کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ ان کا چہرہ خوبصورت داڑھی کے فریم میں ہمیشہ کی طرح سکون اور اطمینان میں ڈوبا ہوا تھا اور اس کی سنجیدہ آنکھوں میں تصنع یا بناوٹ کا شائبہ بھی نہیں تھا۔ بائیں ہاتھ میں حسب معمول بائبل تھامے تھے اور دائیں ہاتھ سے میری کہنی تھامے جیل خانہ کے دروازہ کی جانے بڑھ رہے تھے۔ چند لمحوں میں ایک مجبور اور بے اختیار قیدی کی طرح سر جھکائے میں دروازہ تک پہنچ گیا ۔ جیل خانہ کا آہنی دروازہ کھلا اور ایک مہیب گڑگڑاہٹ کے ساتھ اس نے ہم دونوں کونگل لیا۔ اور وہ ہنسی بھی میرے دل و دماغ کو کچوکے لگاتی ہوئی میرے پیچھے پیچھے اندر آ گئی، ہی ہی ہی ! ہاہاہا !
    امریکہ میں کئی بڑے بڑے جیل ہیں جہاں مشہور زمانہ اور بدنام مجرم قید میں رکھے جاتے ہیں ۔ ان جیلوں کے بارے میں حکومت کا دعوہ ہے کہ ان سے کوئی قیدی کبھی بھاگ نہیں سکا ہے۔ لمبی لمبی قیدوں والے ان مجرموں میں کوئی قاتل ہے تو کوئی ڈکیت، کوئی بینک لوٹنے میں ماہر ہے تو کوئی معصوم عورتوں اور بچوں کو اپنی غیر فطری قوتوں اور خواہشات کا عمر بھر شکار بناتا رہا ہے۔ یہ قیدی ناقابل اصلاح تصور کئے جاتے ہیں اور عدالتی نظام نہ صرف انہیں عام مجرموں کی سی مراعات نہیں دیتا ہے بلکہ ان کے معاملات کو خاصی سختی سے دیکھتا اور پرکھتا ہے۔ ان جیل خانوں میں قیدیوں کی روز مرہ کی زندگی بندھے ٹکے قاعدوں اور ضابطوں کی پابند ہوتی ہے۔ کھانے پینے، کام کاج، لائبریری، چرچ ، ورزش، مختصر یوں سمجھئے کہ ہر شعبہ کے اوقات بندھے ہوتے ہیں اور یہ انسانی زندگیاں گھڑی کی مانند کٹا کرتی ہیں۔ قیدی اگر جیل میں دنگا فساد کریں یا نگہبان سپاہیوں سے منھ زوری کریں تو انہیں گرفتار کر کے قید تنہائی میں ڈال دیا جاتا ہے جسے قیدی اپنی اصطلاح میں ''کال کوٹھری''(Black Hole) کہتے ہیں ۔ تقریباً دس فٹ لمبی اور اسی قدر چوٹی کوٹھری میں ایسے منھ زور قیدی کو چند ہفتو ں کے لئے مقید کر دیا جاتا ہے۔ کوٹھری میں ایک جانب ایک بستر اوردوسرے کونہ میں ایک کموڈ ہوتا ہے ۔ سر پر ایک تیز ننگا بلب چوبیس گھنٹے جلتا رہتا ہے۔ ناشتہ، کھانا وغیرہ دروازہ میں بنی ایک کھڑکی کھول کر خاموشی سے سپاہی رکھ جاتا ہے۔ ایسے قیدیوں کو کسی سے ملاقات یا بات چیت کی مطلق اجازت نہیں ہوتی ہے۔ ریڈیو اور اخبار وغیرہ کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ دن را ت کے چوبیس گھنٹوں میں صرف آدھے گھنٹہ انہیں مسلح سپاہی کی نگرانی میں جیل کے میدان میں چلنے پھرنے اور بھاگ دوڑ کی اجازت ہوتی ہے۔ یہی ان کی روزانہ کی ورزش اور چہل قدمی ہے۔ اس کے بعد پھر وہ ہوتے ہیں اوران کی قید تنہائی!
    اٹلانٹا (Atlanta) شہر میں بھی ایک ایسا ہی جیل ہے جہاں تقریباً ڈیڑھ ہزار قیدی اپنی اپنی قید کی میعاد پوری کررہے ہیں۔ چونکہ امریکہ میں قیدیوں کے بھی چند بنیادی حقوق ہوتے ہیں ، حکومت کی جانب سے جیل میں لائبریری، کھیل کود، اور مختلف مذاہب کی تعلیم کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ باہر سے عیسائی، یہودی اور دوسرے مذہبوں کے لوگ قیدیوںکی مذہبی ضروریات پوری کرنے کے لئے آیا کرتے ہیں۔ جس زمانہ کا یہ ذکر ہے وہاں مسلمان قیدیوں کہ اپنی مذہبی ضروریات خود ہی پوری کرنی پڑتی تھیں۔ جیل کے نام سے ہی باہر کا مسلمان گھبراتاتھا ۔ دوسرے ممالک سے امریکہ آ کر بسے ہوئے مسلمان اپنے اپنے ملکوں کے جیلوں کے حالات سے واقف تھے اور امریکہ میں بھی انہیں حالات کا قیاس کر کے اور یہاں کی زبان، معاشرہ اور قوانین سے پوری طرح واقف نہ ہونے کی وجہ سے جیل کے قریب بھی پھٹکنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ گویا جیل جا کر کسی مسلمان قیدی کی خدمت یا مدد کرنا خود جیل جانے کے برابر تھا!شہر میں مقامی سیاہ فام مسلمانوں کیااور غیر ملکی مسلمانوں کی خاصی بڑی آبادی تھی اور شہر کے مختلف حصوں میں کئی مسجدیں بھی آباد تھیں۔ نمازیں ہوتی تھیں، عید ، بقرعید کی تقاریب اور رمضان کے روزوں اور افطار کا بھی اہتما م تھا، عید میلاد النبیؐ کا جلسہ بھی بڑی دھوم دھام سے ہوتا تھا لیکن اس آزاد دنیا کے مسلمانوں کا جیل کے مسلمان قیدیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
    بیرون ملک سے امریکہ جا کر آباد ہونے والے مسلمان اپنے ساتھ وہ سارے تعصبات اورتنازعات لے کر آئے تھے جن سے ان کی زندگیاں اپنے اپنے ملکوں میں آلودہ رہیں تھیں۔ شیعہ سُنّی اختلافات، وہابی کون ہے اور قادیانی کون، نماز میں ہاتھ سینہ پر باندھے جائیں کہ ناف پر ، جنت میںکون جائے گا اور کون جہنم کا ایندھن بنے گا، عورتیں مسجد میں کس دروازہ سے داخل ہوں، غرض کہ اسی قسم کے مسائل تمام تقریروں اور مباحثوں کے موضوع ہوا کرتے تھے۔ مسجدوں میں سیاست ، الیکشن، چودھراہٹ اورچندہ مختلف گروہوںکو مستقل رسہ کشی میں مبتلا رکھتے تھے۔ پھر بھلائیو ں کی جانب کون راغب اور متوجہ ہوتا؟ اتفا قاً ایک مقامی سیاہ فام مسلمان کے ذریعہ مجھے ان مسلمان قیدیوں کاعلم ہو گیا تھا جو مقامی جیل میں تھے اور جانے کیوں میں نے جیل کے ارباب حل و عقد سے رابطہ قائم کر کے اپنی خدمات ان ساٹھ ستر مسلما ن قیدیوں کے لئے پیش کر دی تھیں۔
    پھر ہرہفتہ تین چار گھنٹوں کے لئے جیل جانا میرا معمول ہو گیا تھا۔ فادر جان جیل میں تمام قیدیوںکے مذہبی امور کے ناظم تھے۔ دراز قد، ہنس مکھ، وجیہہ و شکیل فادر جان اپنے اخلاق کی وجہ سے قیدیوں میں نہایت مقبول تھے ۔ انہوں نے مجھ کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا اور جیل کے ضابطوں کو سمجھنے میں میری راہ نمائی کی تھی۔ جلد ہی جیل کا خوف میرے دل سے دور ہو گیا تھااور جیل کا عملہ اور قیدیوں نے میری موجودگی اور خدمات کو قبول کر لیا تھا۔ جیل کی جانب سے ایک بڑا کمرہ ہر اتوار کو ہمارے لئے مخصوص کر دیا گیا تھا جہاں سارے مسلمان قیدی مل بیٹھتے تھے۔ نماز ہوتی، قرآن اور حدیث کی تعلیم ہوتی ، تبادلۂ خیال میں وقت گذرتا۔ ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی ادھر اُدھر کی بحث بھی ہوجاتی اوردیکھتے دیکھتے وقت گذر جاتا! بڑی پر لطف محفل ہوا کرتی تھی اوران قیدیوں کے درمیان بیٹھ کر کبھی یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ ان میں قاتل اور ڈکیت بھی موجود ہیں۔ نو مسلم یوں بھی اپنے عقائد میں سخت ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ قیدی بھی اپنے اسلامی عقائد میں نہایت مستحکم ، اپنی رائے کے اظہار میں بے خوف اورحکام سے اپنے مذہبی حقوق منوانے میں بے دھڑک تھے۔ حکومت نے انہیں نماز پڑھنے کی سہولت کے ساتھ ساتھ عید، بقرعید کی نماز با جماعت اورذبیحہ کی سہولت بھی مہیا کر رکھی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ ان سے مل کر میرا پژمردہ ایمان بھی ایک تازگی سی محسوس کیا کر تا تھا۔
    مجھے جیل جاتے ہوئے ایک سال ہو گیا تھا۔ رمضان کے روزے چل رہے تھے اور عید کی آمد آمد تھی۔ ایک اتوارمیں قیدیوں کے ساتھ حسب معمول گفتگو میں مصروف تھا کہ ان کے امام ابراہیم عبداللہ نے ہاتھ اٹھا کر مجھ کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
    '' بھائی رازؔ! اس عید کے موقع پر اگر باہر سے چند اور مسلمان ہمارے ساتھ نماز پڑھنے میں شریک ہو سکیں تو بہت اچھا ہو گا۔ ہمیں بھی نئے لوگوں سے ملنے کا موقع ملے گا اور عید کا مزا بھی دو بالا ہو جائے گا ۔ کیا یہ ممکن ہو گا کہ آپ کچھ لوگوں کو یہاں لے آئیں؟''
    میں یہ سن کر کچھ سوچ میں پڑ گیا ۔ اس مسئلہ سے اس سے قبل دو چار نہیں ہو اتھا اور باہر کے مسلمانوں سے ایسا حسن ظن بھی نہیں رکھتا تھا کہ فوراً ان کی جانب سے حامی بھر لیتا۔ چنانچہ میں نے محتاط راہ اختیار کرناہی بہتر سمجھا: ''بھائی ابرہیمؔ! بات یہ ہے کہ میں مسجد جا کر لوگوں سے درخواست کروں گا۔اگر کچھ لوگ تیا ر ہو گئے تو اگلی اتوار کو انشاء اللہ آپ لوگوں کو بتا دوں گا۔''
    پھرمیں نے اگلے جمعہ کی نماز کے بعد مسجد میں کھڑ ے ہوکر جب قیدی مسلمانوں کی دعوت کا اعلا ن کیا اور لوگوں سے عید پر جیل چلنے کی درخواست کی تو مجمع پر سناٹا طاری ہو گیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ چند نظریں مجھے حیرت اور غصہ سے دیکھ رہی تھیں۔ کچھ دیر کے بعد دبی دبی آوازیں اٹھنی شروع ہوئیں اور دیکھتے دیکھتے یہ آوازہ خاصہ بلند ہو گیا!
    '' کیا کہہ رہے ہیں آپ رازصاحب؟ ہم اور جیل جائیں؟ یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟''
    '' لا حول ولا قو ۃ! بھائی کچھ بہک گئے ہو کیا؟ جیل جانا آپ کو ہی مبارک ہو۔ بھلا وہاں شریف آدمی کا کیا کام؟''
    نہیں صاحب! یہ بھی کوئی بات ہوئی! پھر گھر میں بیگم کو کون سمجھائے گا؟ جیل کے نام سے ان کادم نکلتا ہے۔ پھر بدنامی الگ رہی!''
    یہ طوفان ذرا کم ہوا تو میں نے سب کو اللہ کا خوف دلایا، جیل میں بند مسلمان قیدیوں کے حالات اورضروریات کا نقشہ کھینچا، انہیں ان کے اسلامی فرائض یاد دلائے۔ آخر جیل میں چند گھنٹے اللہ کی راہ میں جانے میں کون سی قیامت ٹوٹی پڑ رہی تھی؟ کیارسول اللہ ؐ اور صحابہ کرام کا رویہ ایسا ہی ہو سکتا تھا جیسا اس وقت ہمارا تھا؟ میری تقریر کا اثر لوگوں پر ہوتے دیکھا تومیں کاغذ قلم لے کر مجمع میں اتر گیا اور ان لوگوں کے نا م لکھ لئے جنہوں نے جیل جانے کی حامی بھری تھی۔ دیکھاتو کاغذ پر انیس نام تھے! میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اور جب اگلے اتوار میں نے قیدیوں کو یہ خوش خبری سنائی تو ان کی مسرت قابل دید تھی ۔ الحمد للہ! سبحان اللہ! کہتے کہتے وہ تھکتے نہیں تھے۔ پھر میں جا کر فادر جانسے ملا تھا تا کہ وہ انیس نام لکھوا دوں اور ضروری کارروائی مکمل کر وا لوں اور وہ لوگ عید پر آسانی سے جیل میں داخل ہو سکیں۔ فادر جان نے مجھ کو ہر طرح سے تعاو ن کا یقین دلایا تھا۔
    پھر عید کی وہ مبارک صبح بھی آگئی تھی جب میں اور فادر جانجیل کے صدر دروازہ کے باہر ان مسلمانوں کا انتظار کر رہے تھے جو آج عید جیل میں پڑھنے کے لئے آنے والے تھے۔ میرا دل امنگ سے اچھل رہا تھا کہ آج اسلام کا نام بلند ہو گا اور جیل کی تاریخ میں یہ عید اپنی نوعیت کی پہلی عید ہو گی۔ مگر وقت گذرتا گیا اور انیس میں سے ایک مسلمان صورت بھی آتی نظر نہیں آئی! فادر جانبار بار گھڑی دیکھتے اور پھر میری جانب سوالیہ نگاہ اٹھاتے۔ ادھر میں تھا کہ گھبر ا گھبرا کر سڑک پر دور تک نگاہ دوڑاتا اور مایوس ہو کررہ جاتا۔ عید کی نماز کا وقت ہو چلاتھا اور جیل میں قیدی ہمارے منتظر تھے!     فادر جان نے ایک بار پھرکلائی کی گھڑی پر نظرڈالی اور میری جانب دکھ بھری گمبھیر نگاہ سے دیکھ کہا:
    ''آئیے مسٹر رازؔ! اب اندر چلیں۔ یہ مسلمان ہیں۔ ان کی زبان کا کوئی اعتبار نہیں ہے!''
    اور مجھ کو ایسا محسوس ہوا جیسے فادر جان نے گھما کر زناٹے کا ایک تھپّڑ میرے گال پر رسید کر دیا ہو!

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول