صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


تیسرا مجسمہ

عوض سعید

(افسانے)

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پُل صراط

  دھپ دھپ دھپ
باہر كوئی دروازہ پیٹ رہا تھا۔
رات گہری اور تاریك تھی اور فضا میں دھوئیں كے بادل منڈلا رہے تھے۔
’  كون ہے؟‘  لحاف كے اندر سے ایك كپكپاتی آواز اس طرح گُونجی جیسے دُور كوئی گہرے كنویں سے بول رہا ہو۔
دھپ دھپ            
’  ارے بھئی كون ہے ؟ اتنی رات گئے كیا كام ہے؟‘
’  میں ہوں قاسم‘۔
’  كون قاسم بھئی‘؟
’  قاسم  ،  تمہارا دوست ‘
’  میرا دوست؟ ‘   اس نے حیرانی سے مُنہ میں بڑبڑاتے ہوے كہا:
’  تم موہن داس ہونا؟‘
’  ہاں ہاں میں موہن داس ہی ہوں۔‘  اجنبی كی زبان سے اپنا نام سُن كر اس نے بغیر سوچے سمجھے جی كڑا كر كے دروازہ كھول دیا۔
اب اس كے سامنے ایك اُونچے پورے قد كا آدمی كھڑا تھا۔ گلے میں میلا كُچیلا مفلر لپیٹا وہ كسی اور دُنیا كا باشندہ رہا تھا۔
رات كے گھُپ اندھیرے میں اُسے چہرہ پہچاننے میں دِقّت ہو رہی تھی۔
’  یہاں اندھیرا كیوں ہے؟‘  اس نے سانپ كی طرح لٹكتے ہوے مفلر كو اپنے گلے كے گرد لپیٹتے ہوے كہا۔
’  لائٹ بند ہے بھائی‘۔  اس كی آواز میں نرمی اور كپكپا ہٹ پیدا ہوگئی تھی۔ شاید یہ سر پر منڈلاتے ہوے انجان خوف كا اثر تھا۔
’  یہاں كی لائٹ آج بند كیوں ہے‘؟
’  یہاں كا بجلی گھر كمزور ہے۔‘  اس نے نرم لہجے میں كہا
’  بجلی گھر ۔ بجلی گھر سے لگا كسی وقت میرا ایك چھوٹا موٹا سا گھر تھا   جس میں امرود كا ایك بوڑھا درخت بھی تھا اور اُس پَرے ایك كُنواں جس میں بوڑھے حافظ جی نے چھلانگ لگا كر جان دے دی تھی۔‘  جیسے وہ ماضی كے چہرے سے نقاب اُٹھا رہا تھا۔
اچانك اس كے ذہن كی سلیٹ پر بہت سے چہرے اُبھرے۔ دُھندلے۔ ۔ دُھندلے ۔۔ مِٹیالے مِٹیالے ۔۔۔ ان ہی میں قاسم نامی ایك لڑكا بھی تھا جو اس كا دوست تھا۔
پھُولے پھُولے گالوں والا گورا چٹا قاسم۔ مگر اب اس كے سامنے جو آدمی كھڑا تھا وہ قاسم كیسے ہوسكتا تھا۔ كیا آدمی بیس بائیس برس میں گورے سے كالا بھی ہوسكتا ہے۔
’  كیا تم مجھے اندر نہیں بُلاو گے؟‘
’  اندر تو كھاٹ بھی نہیں ہے۔‘
’  سِیلی زمین تو ہے جو ہمارا مقدّر ہے۔‘
پھر اچانك كمرے میں روشنی پھیل گئی تو اُس نے تیزی سے اپنے چہرے پر ہاتھ ركھ لیئے۔   
’  یہ تم نے اپنا چہرہ كیوں چھُپالیا ہے؟‘
’  مجھے روشنی اچھی نہیں لگتی۔‘
’  روشنی كے لئے تو آدمی جِیتا ہے۔‘
’  مگر میں اندھیرے كا پرستار ہوں۔ اس لئے میں نے تم سے ملنے كے لئے اماوس كی یہ رات چُنی ہے۔‘ یہ كہہ كر وہ دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
’  اتنی رات گئے، كس سے باتیں كر رہا ہے بیٹے؟‘ قریب كے كمرے سے ایك بوڑھی بیمار آواز آئی
’  كوئی بھی نہیں ہے ماں   تو اب سوجا ، رات ڈھل چكی ہے۔‘
میں اس آواز سے آشنا ہوں۔ یہ دھرتی كی كُوكھ سے جنم لینے والی ممتا بھری آواز ہے۔ مجھے یہ آواز بڑی بھلی لگتی ہے۔ لیكن میں اس آواز سے ڈرتا بھی ہوں۔ یہ آواز سائے كی طرح میرا پیچھا كرتی ہے۔ اس گاو ں میں اب میرا كوئی بھی شناسا باقی نہیں رہا۔ سُنا ہے كہ سب لوگ یہاں سے كبھی كے جاچكے ہیں۔‘
’  یہی كیا غنیمت ہے كہ ابھی كچھ لوگ             اس نے رُكتے رُكتے جواباً كہا            ’ كیا تم مجھے ان لوگوں سے مِلاسكتے ہو؟‘
’  كیوں نہیں   ضرور‘             
’  یہ لوگ وہی ہیں نا ، جنھوں نے آخر دم تك ‘              ابھی اس نے اپنا ادھورا جُملہ مكمل بھی نہ كیا تھا كہ ہوا كا ایك تیز جھونكا سَنسناتا ہوا آیا اور چوبی دروازے كے كُھلے ہوے پَٹ اچانك بند ہوگئے۔
اس كے ہونٹوں كے كنارے پر طنز آمیز مسكراہٹ رقصاں تھی۔ پھر اس نے كہا:
’  میں نے كسی وقت بہتے پانی كی چادر پر ایك بند بندھا تھا لیكن طوفانی ہوائیں سیلاب اور دریاو ں میں بہتا ہوا سُنہرا پانی مجھے بہت دُور بہالے گیا۔
اس مِٹی سے میری كچھ یادیں وابستہ ہیں  جو میرا شخصی سرمایہ ہے۔ میں میلوں چل كر یہاں اس لئے آیا ہوں كہ انھیں ٹٹول ٹٹول كر دیكھ سكوں۔‘
’  مگر اتنی رات گئے یہ سب كچھ كیسے ہوگا۔ یہ اماوس كی رات ہے۔‘
’  یہ رات میری زندگی كی سب سے اہم رات ہے۔ میں اس پُل صراط سے آج ہی گُذرجانا چاہتا ہوں۔‘
’  یہ كام تو دن كے اُجالے كا محتاج ہے، ارے لائٹ پھر بند ہوگئی۔ یہ بجلی گھر بھی عجیب شَے ہے۔‘                
’  مجھے یہاں سے فوراً اس قبرستان لے چلو   جہاں میرا باپ مَنوں مِٹّی كے ڈھیر كے نیچے پڑا سورہا ہے۔ میں اُسے چلتے چلتے جگانا چاہتا ہوں۔ صبح سویرے مجھے یہاں سے چلا جانا ہے۔ وقت بہت كم ہے تم ڈر اور خوف كو اپنے دل سے نكال كر میرے ساتھ ہوجاو ۔‘
’  قبرستان ہی ایك ایسی جگہ ہے   جہاں آدمی كو سكون مِلتاہے۔ پھر یہاں تو میرا عظیم باپ دفن ہے‘۔  اس كے اصرار میں نمناك ہواو ں كا بہاو  تھا اور وہ اس بہاو  میں دُور دُور تك خس و خاشاك كی طرح بہتا چلا گیا۔
اب وہ قاسم كے ساتھ اس ویران قبرستان میں كھڑا تھا۔ فضا پر موت كی سی خاموشی مُحیط تھی اور رات كی خُمار آلود آنكھوں سے ٹپ ٹپ آنسُو گِر رہے تھے۔
اس قبر كو دیكھ رہے ہو ؟ قاسم نے ایك بوسیدہ مِٹیالی قبر كی طرف اشارہ كرتے ہوے كہا جو دُور سے اُلٹی نظر آرہی تھی۔
’  یہ قبر تو گاو ں كے زمیندار كی ہے   یہاں كے لوگ تو یہی كہتے ہیں‘۔
’  یہاں كے لوگ جھوٹے ہیں۔ یہ قبر اس وقت بھی ٹیڑھی تھی اور آج بھی ہے‘۔
یہہ كہ كر وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا اپنے باپ كی قبر كے قریب آكر ٹھہر گیا۔
اس نے لرزتی آواز میں آہستہ آہستہ دُعا پڑھی۔ اس كے پیچھے وہ بھی ہاتھ باندھے چُپ چاپ كھڑا تھا۔
صبح ہونے میں صرف دو گھنٹے باقی ہیں   اور صبح سے پہلے مجھے یہ سرحد پار كرلینی ہے۔ آو  اب تمہارے گھر چلیں   تمہارے گھر كی سیلی مِٹی مجھے پیار سے بُلارہی ہے۔صبح ہونے میں صرف دو گھنٹے باقی رہ گئے ہیں   صرف دو گھنٹے         جیسے ہوا بھی چیختی چِلّاتی یہی كہہ رہی تھی۔
قاسم چُپ تھا۔ اس كی بڑی بڑی نڈھال آنكھوں میں آنسو ڈبڈبارہے تھے   وہ  دونوں قبرستان سے نِكل كر لمبی سڑك پر چلنے لگے۔ اُس نے پلٹ كر پھیلے پھیلے نیلگوں آسمان كی طرف دیكھا۔ وہ بڑی اضطراری كیفیت سے دو چار تھا۔
پھر اس كی نیند سے بوجھل آنكھوں نے دیكھا ، صبح ہورہی تھی اور قاسم بڑے بڑے ڈگ پھرتا ہوا تیزی سے سرحد پار كر رہاتھا۔


***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول