صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


تیرِ نگاہ

ایم اسلم

(ناول، اصل، کتاب گھر ڈاٹ کام)

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

 باپ بیٹی

صبح کے ساحل سے جو کشتی چلی تھی نور کی
آخر کار اس نے طے کر لی مسافت دور کی
شکر ہے دریائے ہستی کا کنارا مل گیا
بے سہارا حسرتوں کو پھر سہارا مل گیا
                                                                                                      (حفیظ)
قدرت نے راجہ رستم علی خاں سے جو مضحکہ خیز کھیل شروع کیا تھا۔ رستم علی نے لاج کی خاطر وہ کھیل ختم کر دیا تھا۔ اس نے زبیدہ کی شادی جسے اس کی بیٹی شیریں بنا کر اس کے پاس لایا گیا تھا ایک شریف جوان آدمی سے جس کا باپ کبھی اس کے ساتھ مل کر کام کرتا تھا کر دی اور کچھ جائیداد بھی لڑکی کے نام کر دی تاکہ دونوں عزت اور آرام سے زندگی بسر کر سکیں۔ زبیدہ کی شادی ہوئے تین چار مہینے ہو چکے تھے۔ رستم علی اب بوڑھا ہو چکا تھا۔ صحت دن بدن گر رہی تھی۔
بہار کا ترنم آفرین موسم تھا۔ ہر چیز پر تازگی چھائی ہوئی تھی۔ گل و گلزار جو بن پر تھی۔ کوٹھی کا پائیں باغ ساقی بہار کی نگاہ کرم سے کسی سر مستِ شباب کی طرح شاداب نظر آتا۔ رنگ برنگ پھول دیکھ کر یہی گمان ہوتا کہ دوشیزہ بہار زمرد کی تھالیوں میں مختلف قسم کے جواہرات بھر کر لائی ہے۔ نہالان چمن کی ہر ادا میں ایک بانکپن اور شوخی نظر آتی۔ بیلا۔ چمبیلی اور گلاب کے پھول سینہ بسینہ، تن بہ تن سامانِ عیش و طرب کے ساتھ دامنِ دل اپنی طرف کھینچ رہے تھی۔ جب طوطی شکر فشاں اور بلبل ہزار داستاں نغمہ پیرا ہوتیں تو ایسے معلوم ہوتا جیسے بہار خود بہار کے گیت گا رہی ہے۔ سبک خرام اور نرم رو ہوا دامن میں پھولوں کا عطر لئے جب سبزے پر ناچتی تو غنچے مسکراتے پھول ہنستے اور کلیوں کی آنکھ کی شوخی سرمستانِ شباب کے سینے میں گدگدیاں لینے لگتی۔ حسن اور عشق کی دنیا پیاری پیاری آرزوؤں سے آباد نظر آنے لگتی۔
راجہ رستم علی عصر کی نماز سے فارغ ہو کر پلنگ پر بیٹھا تسبیح پڑھ رہا تھا کہ اس کا دوست قاضی غلام قادر ملنے آ گیا اور اس کے ہاتھ میں تسبیح دیکھ کر ہنس کر بولا۔
"راجہ صاحب! آپ تو اب بڑے اللہ والے ہو گئے"۔
"قاضی صاحب!" رستم علی بولا۔ "اللہ والوں میں سے ہونا میرے نصیب میں کہاں۔ ہاں ایک گنہگار کو مغفرت کی فکر ہے"۔
"اس کی رحمت اور بخشش کا دامن بہت وسیع ہے"۔ قاضی نے کہا۔
"بے شک بہت وسیع ہے لیکن دیکھنا تو یہ ہے کہ ہمارے اعمال کیسے ہیں کیا ستم ہے اعمال کا فکر جب ہوتا ہے اسی ناکارہ عمر میں ہی ہوتا ہے"۔ رستم علی نے جواب دیا۔ "مجھ روسیاہ کو تو اسی دنیا میں سزا ملنی شروع ہو گئی ہے۔ اب عاقبت کی خبر خدا جانے"۔
"راجہ صاحب ! اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی برباد نہیں کرتا ...."
 "میں نے کون سی نیکی کی ہے؟" رستم علی نے ٹوک کر پوچھا۔
"یہ کیا کم نیکی ہے کہ آپ نے ایک لا وارث لڑکی کو پالا پوسا۔ پھر اسے بیاہ کر عزت سے رخصت کر دیا۔ اس سے بڑی نیکی اور کیا ہو گی؟"
"حضرت ؟ سب مجبوری کی باتیں ہیں۔ بیاہ نہ کرتا تو کیا کرتا؟" رستم علی نے جواب دیا۔ "اگر آپ غور کریں تو یہ جو کچھ ہوا یہ بھی میرے اعمال کی ہی سزا تھی"۔
"انسان کی نجات اسی میں ہے کہ کسی حال میں بھی صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے"۔ قاضی نے جواب دیا۔ "غم اور فکر کا مداوا صرف صبر اور شکر سے ہی ہو سکتا ہے۔ اپنے نقصان پر رونا چلانا۔ ہائے ہو۔ گریہ اور غم یہ تو سب کچھ انسان کی فطرت میں ہے اور بشریت کا تقاضا بھی یہی ہے ...."
"آپ یہ کہیے"۔ رستم علی بات کاٹ کر بولا۔ "کہ مجبوری سب کچھ کرواتی ہے"۔
"نہیں ! نہیں ! مجبوری کیسی۔ آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ انسان کو آخر کار راضی بہ رضا ہونا ہی پڑتا ہے"۔ قاضی نے کہا۔ "خوشی سے جینا ہو یا روتے دھوتے زندگی گزرے۔ جینا تو بہرحال اس وقت تک ہے جب تک وقت پورا نہیں ہوتا نہ موت کی تمنا کرنے سے موت آ سکتی ہے۔ نہ غم سے غم کا مداوا ہو سکتا ہے۔ اگر انسان یہ نکتہ سمجھ لے تو پھر مرنا اور جینا دونوں آسان ہو جاتے ہیں "۔
"سچ ہے"۔ رستم علی نے آہ بھر کر کہا۔ پھر
"میرے خیال میں تو وہ لوگ بڑے احمق ہوتے ہیں۔ جو اولاد کی تمنا کرتے ہیں "۔
"اولاد کی تمنا تو ایک فطری خواہش ہوتی ہے"۔
"بجا ہے؟ لیکن اولاد پا کر میں نے کیا پایا۔ دنیا سمجھتی ہے میں زندہ ہوں خوشحال ہوں۔ خوش ہوں۔ لیکن کاش دنیا نے کبھی میرا سینہ کھول کر بھی دیکھا ہوتا۔ میں نے اپنا خون اور پسینہ ایک کر کے یہ دولت جمع کی تھی۔ کیوں ؟ کہ میری اولاد میرے بعد آرام سے زندگی بسر کر سکی۔ لیکن آج یہ فکر سوہان روح ہو رہا ہے کہ میری ساری عمر کی کمائی آخر کسی کام آئی؟ .... آپ ہی بتائیے کس کے کام آئے گی۔ خدا نے دولت تو دی لیکن دولت کا وارث دے کر چھین لیا ....
رستم علی کی آواز بھرا گئی۔
"آپ یہ نہیں سوچتے کہ اس خیال سے کہ میری بیٹی زندہ ہے۔ اور جس حال میں میں نے اسے دیکھا تھا میرے دل پر کیا گزرتی ہو گئی۔ قاضی صاحب! یہ بھی میرے اعمال ہی کی سزا ہے کہ لڑکی کو تلاش کرنے کی کوشش ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی...."
"اللہ رحم کرے گا"۔ قاضی نے کہا۔ "وہ بڑا بے نیاز ہے .... انسان کو اس کی بارگاہ سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ جب تک سانس تب تک آس ؟"
"ایک نوکر آیا اور کہا کہ ایک بڑھیا جو اپنا نام سکینہ بتاتی ہے سلام کرنے آئی ہے"۔
"سکینہ ؟" رستم علی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"سکینہ کون؟"
"جناب؟ سکینہ ہی نام بتایا ہے۔ اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی ہے"۔
"سکینہ؟" رستم علی نے اچانک چونک کر کہا۔ "میری شیریں کی انا۔ وہ جیتی ہے ابھی ...."۔
"زندہ ہی ہے تو آئی بھی ہے"۔ قاضی نے کہا۔
"نہیں ! نہیں !" رستم علی بولا۔ "وہ سکینہ ہوتی تو کبھی تو ملنے آتی"۔
"آپ کو یاد نہیں اس پر کتنا ظلم ہوا تھا؟ لڑکی کے گم ہونے کے بعد"۔
 "میرا آج بھی یہی خیال ہے کہ میری شیریں کے گم ہونے میں اس کی انا کا ہاتھ ضرور تھا"۔
"کیا کہوں جناب؟" نوکر نے پوچھا۔
رستم علی کی پیشانی پر شکن پڑے ہوئے تھی۔ ہاتھ میں تسبیح تھی اور وہ اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے کوئی عجیب سی چیز اس کی آنکھوں کے سامنے ہے۔
"بلا لاؤ"۔ قاضی نے کہا۔ نو کر دونوں کے لے آیا۔
"سلام حضور!" سکینہ نے پلنگ کے سامنے کھڑے ہو کر کہا۔
"اوہ!" رستم علی اس کی طرف دیکھ کر بولا۔ "تم ابھی زندہ ہو"۔
"قدرت کو یہ منظور نہ تھا کہ میں دنیا سے بدنام ہو کر جاؤں۔ اس لئے ابھی تک زندہ ہوں "۔ سکینہ نے جواب دیا۔ "لاج رکھنے والے نے لاج رکھ لی"۔
"کیا کہہ رہی ہو؟ لاج کیسی؟"
"آپ دیکھ نہیں رہے؟"
"کیا؟ یہ لڑکی کون ہے؟"
"حضور! محبت کا جادو تو سر پر چڑھ کر بولتا ہے"۔ سکینہ نے جواب دیا۔ پھر لڑکی کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے۔
"آپ اسے پہچانتے نہیں "۔
"نہیں !"
"راجہ صاحب!" سکینہ بولی۔ "کبھی سنا نہیں کہ باپ بیٹی کو نہ پہچانے"۔
"باپ؟" رستم علی نے ذرا غصہ سے پوچھا۔ کس کا باپ؟"
"جو آپ کے سامنے کھڑی ہے"۔ سکینہ نے جواب دیا۔
"چلی جاؤ یہاں سے"۔ رستم علی غصے سے بولا۔ "کم بخت اب یہ چکمہ مجھ پر نہیں چل سکتا۔ نکل جاؤ ابھی ورنہ...."
"ذرا تحمل سے کام لیجئے"۔ قاضی بولا۔ "پہلے ...."
"قاضی صاحب ! اس کٹنی کو بھی انعام کا لالچ یہاں لے آیا ہے"۔ رستم علی ٹوک کر بولا۔ "دنیا مجھے تماشہ بنانا چاہتی ہے۔ لیکن ...."
"حضور ! " سکینہ نے بات کاٹ کر کہا۔ "دنیا آپ کو تماشہ نہیں بنا رہی بلکہ ...."
"چپ رہو"۔ رستم علی ٹوک کر بولا۔ "دور ہو جاؤ یہاں سے"۔
"واہ میرے اللہ؟" سکینہ آہ بھر کر بولی۔ "یہ زمانہ بھی ان آنکھوں سے دیکھنا تھا کہ باپ بیٹی کو بھول جائے۔ اپنے جگر کے ٹکڑے کو بھی نہ پہچانے"۔
کسی نے کچھ جواب نہ دیا۔ شیریں خاموش کھڑی ہر چیز کو اس طرح دیکھ رہی تھی جیسے وہ انہیں پہچانتی ہے۔ اس کی نگاہیں بار بار باغ کی طرف اٹھتی تھیں۔ وہ کسی وقت کنکھیوں سے رستم علی کی طرف بھی دیکھ لیتی۔ کبھی سکینہ کا ہاتھ چھوڑ دیتی۔ کبھی پھر پکڑ لیتی۔ قاضی کسی وقت لڑکی طرف دیکھنے لگتا۔ کبھی اس کی آنکھیں اپنے دوست کے چہرے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتیں۔ رستم علی سر جھکائے خاموش بیٹھا تھا۔ تسبیح کے دانے محض عادتاً ایک ایک کر کے انگلیوں کی حرکت سے یکے بعد دیگرے گر رہے تھے۔ لیکن کسی وقت اسے بھی دل کی پہنائیوں میں کچھ خلش سی محسوس ہونے لگتی تھی۔ اگر کوئی دیکھنے والا ہوتا تو احساس کی اس شدت اور کمی کا اندازہ اسے تسبیح کے دانوں کے گرنے کی رفتار سے ہو جاتا۔
 "یہ لڑکی کون ہے؟" قاضی نے آخر اس مہر سکوت کو توڑا اور سکینہ آہ بھر کر بولی
"قاضی جی؟ اب میں کیا عرض کروں ...."
سکینہ اس سے زیادہ نہ کہہ سکی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگی۔ وہ دوپٹہ کے پلو سے آنکھیں خشک کر کے بولی۔
"کاش! آج اس بدنصیب کی جننے والی زندہ ہوتی"۔
"سکینہ؟" رستم علی بولا۔ "یہ کھیل بہت پرانا ہو چکا ہے...."
لیکن وہ اپنا فقرہ پورا نہ کر سکا۔ شیریں اس کی طرف کچھ انداز سے دیکھ رہی تھی کہ بات زبان پر نہ آ سکی۔ رستم علی کو پھر ایک خلش سی محسوس ہوئی۔ اور اس نے ایک گہرا سانس لے کر سر جھکا لیا۔ سکینہ بولی۔
"قاضی جی؟ یہ بھی قسمت کا کھیل ہے کہ وہ لڑکی جس کو یاد کرتے کرتے نفیسہ خانم اللہ کو پیاری ہو گئی آج باپ کے سامنے کھڑی ہے۔ لیکن نجانے باپ کی محبت کہاں سوئی پڑی ہے...."
"میں کہہ چکا ہوں یہ کھیل اب پرانا ہو چکا ہے"۔ رستم علی نے پھر ٹوک کر کہا۔
"نہیں ؟" سکینہ ایک جذبہ کے ساتھ بولی۔ "کون کہتا ہے یہ کھیل پرانا ہو چکا ہے۔ قدرت نے یہ کھیل ایک بے گناہ کی برات ثابت کرنے کو کھیلا ہے...."
رستم علی نے سر اٹھا کر ذرا غصے سے دیکھا۔ سکینہ بولی۔
"راجہ صاحب؟ آپ میری طرف مت دیکھئیے۔ اس بدنصیب کی طرف دیکھئے جس سے نجانے آنکھ ملانے سے آپ کیوں ڈر رہے ہیں۔ یہ بدنصیب آپ کی بیٹی شیریں ہے...."
"لیکن اس کا کچھ ثبوت بھی "۔ قاضی نے پوچھا۔
"اس کا ثبوت باپ کا دل دے گا"۔ سکینہ نے جواب دیا۔ پھر رستم علی سے۔
حضور ! میں جب سے آئی ہوں آپ کے چہرے کی طرف دیکھ رہی ہوں میں یہ بھی دیکھ رہی ہوں کہ اتنی مدت ایک دوسرے سے بچھڑے رہنے کی وجہ سے باپ کو بیٹی سے آنکھ ملانے کی جرأت نہیں ہوتی اور بیٹی کسی نامعلوم خوف سے باپ کی طرف دیکھ کر سہمی جا رہی ہے۔ قاضی صاحب! آپ مجھ سے کیا ثبوت مانگتے ہیں۔ راجہ صاحب سے پوچھئے کیا یہ وہی لڑکی نہیں جو اس روز اس شخص کے ساتھ تھی جو موٹر کے نیچے آ کر کچلا گیا تھا...."
"تم کو یہ لڑکی کہاں سے ملی؟" قاضی نے پھر پوچھا۔
سکینہ نے شیریں کے منیر ملک کے ساتھ آنے کا قصہ سنا دیا۔ نجانے کیا بات تھی شیریں کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے تھی۔ قاضی نے اپنے دوست کی طرف دیکھا اور کہا۔
"آپ بھی تو کچھ کہئے"۔
رستم علی نے کچھ جواب نہ دیا۔ سکینہ بولی۔
"حضور ! یہ بھی قدرت کا ایک کھیل ہی سمجھئے کہ جس طرح چھوٹی بی بی مجھ سے کھوئی گئی تھی۔ آج اتنی مدت کے بعد میں ہی اسے حضور کے پاس لے کر آئی ہوں۔ حضور کو یاد ہو گا کہ میں خدا اور رسول کی دہائی دے دے کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ لیکن مجھ پر جو ظلم ہوئے اور جس طرح بے عزت کر کے مجھے اس گھر سے نکالا گیا ایک دنیا کو معلوم ہے۔ لیکن قربان جاؤں اس پاک ذات کے جس نے مرنے سے پہلے مجھے سرخرو کر دیا ہے .... اب میں اپنے خدا کے سامنے جاؤں گی تو سرخرو ہو کر جاؤں گی...."
سکینہ کی آواز بھر آ گئی اور اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگی۔ رستم علی خاموش بیٹھا تھا۔ قاضی نے پوچھا۔
 "راجہ صاحب!آپ کیا سوچ رہے ہیں ؟"
"رستم علی نے ایسے ہی ایک آدھ بار سر ہلا دیا۔ سکینہ بولی۔
"حضور ! آپ جو کچھ سوچ رہے ہیں لونڈی سمجھ رہی ہے۔ آپ کا چہرہ بتا رہا ہے کہ آپ اپنی نور نظر کو پہچان چکے ہیں۔ لیکن ابھی آپ کے دل میں کچھ شکوک بھی ہیں ...."
"کیا؟" رستم علی نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ شکوک کیسے؟"
"جب وہ لڑکی حضور کے پاس آئی تھی تو حضور نے کیسے اسے اپنی بیٹی تسلیم کر لیا تھا؟" سکینہ نے پوچھا۔
رستم علی نے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔
"سب نشانیاں ملتی تھیں "۔
"کیا؟"
"تمہیں یاد ہو گا کہ بچی سردیوں کے موسم میں کھیلتے ہوئے انگیٹھی پر گری تھی اور اس کے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی جل گئی تھی اور علاج کے باوجود وہ نشان نہیں گیا تھا۔ یاد ہے نا"۔
"حضور یاد ہے"۔ سکینہ نے شیریں کا ہاتھ پکڑ کر اور جلی ہوئی ہتھیلی دکھاتے ہوئے کہا۔ "یہ دیکھئیے! نشان موجود ہے۔ لیکن اصلی نشان جسے آپ محبت سے مہر کہا کرتے تھے۔ حضور کو کیوں یاد نہ آیا۔ وہ نشان یاد ہے حضور کو؟"
رستم علی کچھ خوف اور کچھ حیرت سے سکینہ کی طرف دیکھنے لگا۔ قاضی نے پوچھا۔
"وہ نشان کیا تھا؟"
"حضور ؟ ٹھہریے ذرا؟ شاید راجہ صاحب کو یاد آ جائے"۔ سکینہ نے جواب دیا۔
"نشان؟" رستم علی نے پوچھا۔ "کیسا نشان؟"
"وہی جسے دیکھ کر آپ فرمایا کرتے تھے کہ جس کے یہ نشان ہو وہ بڑا صاحب اقبال ہوتا ہے"۔ سکینہ نے جواب دیا۔

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول