صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


سلطان ٹیپو

 ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی

ڈاؤن لوڈ کریں 

      ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

                        سلطان ٹیپو کی تعلیم و تربیت

    اب حیدر علی کا زیادہ تر وقت سری رنگا پٹّم میں گذرتا تھا۔ ٹیپو کی عمر جب پانچ سال کی ہوئی تو اس کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ ٹیپو کو پڑھانے کے لیے حیدر علی نے اس وقت کے ماہر اور بہترین اساتذہ کو مقر ر کیا۔ جنھوں نے ٹیپو کی اُس خوش اسلوبی سے تربیت کی کہ وہ جلد ہی مختلف علوم و فنون کے ماہر بن گئے۔ ٹیپو کو اِن اساتذہ نے دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی زبانوں کے علاوہ انگریزی اور فرانسیسی زبان بھی سکھائی۔ اگرچہ حیدر علی کو انگریزی اور فرانسیسی زبانیں نہیں آتی تھیں لیکن اُس نے ٹیپو کو یہ غیر ملکی زبانیں اس لیے سکھائیں کہ وہ انگریزوں اور فرانسیسیوں سے آسانی کے ساتھ انھیں کی زبان میں بات چیت کرسکے۔

    ٹیپو کو مطالعہ کا اتنا شوق تھا کہ دن بھر کتاب ہاتھ سے چھوٹنے نہ پاتی تھی۔ ایک روز کتاب پڑھنے میں مشغول تھے کہ وہاں حیدر علی آئے۔ سلطان ٹیپو کو ان کے آنے کی خبر بھی نہ ہوئی تو حیدر علی نے ٹیپو سے یوں کہا :’’ جانِ پدر! سلطنت کے لیے قلم سے زیادہ تلوار کی ضرورت ہے۔‘‘ ٹیپو پر اِس جملے کا بڑا اثر ہوا اور اُس کی زندگی کا رُخ ہی بدل گیا۔ جنگجو دادا اور بہادر باپ کے اِس شیر دل بیٹے نے فنونِ جنگ میں بڑی مہارت حاصل کر لی۔ گھوڑ سواری اور نیزہ بازی میں اس کا مقابل پورے ملک میں کوئی نہ تھا۔ تیر اندازی اور تلوار بازی میں بھی ٹیپو ماہر اور یکتا بن گیا۔ حیدر علی نے اس کی جنگی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی اسے جنگ کے داؤ پیچ بڑی باریکی سے سکھائے۔

    صرف سولہ سترہ سال کی عمر ہی سے ٹیپو کی جنگی فہم و فراست کے جوہر کھلنے لگے۔ وہ کم عمری ہی میں ایک لائق جنرل کے روپ میں سامنے آئے۔ مرہٹوں سے جنگ میں اپنے باپ حیدر علی کے ساتھ ٹیپو نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ حیدر علی نے جب ٹیپو کی بہادری اور جواں مردی دیکھی تو آزادانہ طور پر ایک مختصر فوج کی کمان سونپ دی۔

    ٹیپو کی تربیت میں ان کے باپ حیدر علی نے ایک اور اہم بات کا خاص جو خیال رکھا وہ اپنے وطن بھارت سے سچی محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بچپن ہی سے ٹیپو کے دل میں اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، سوتے جاگتے صرف آزادی کی لگن تھی۔ وہ کہتے تھے کہ :’’ ہندوستان ہندوستانیوں کاہے۔‘‘ اُن کی بہادری اور بلند ہمتی کا اندازہ ان کے ایک مشہور قول سے لگایا جاسکتا ہے جو کہ ہر آنے والی نسل کے لیے ایک سبق ہے  : ’’ گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔‘‘

    انگریزوں سے ان کے دل میں بچپن ہی سے نفرت کے جذبات بھرے ہوئے تھے، چناں چہ سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں جب پہلی مرتبہ ان کا مقابلہ انگریزوں کی اَعلا تربیت یافتہ فوج سے ہوا تو ٹیپو نے اسے شکست دی اور کوڑیال کا قلعہ جیت لیا۔ اس جنگ میں برطانوی سپہ سالار بہ مشکل اپنی جان بچا کر بھاگنے میں کام یاب ہوا۔ وہاں سے ٹیپو مدراس کی طرف مڑے اورمیسورکے دشمنوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ انگریزی فوج کے اَعلا عہدے دار اور تجربے کار فوجی افسربھی ٹیپو جیسے نوجوان فاتح کی طاقت و قوت سے کانپ اُٹھے۔ 

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں       

      ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول