صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
تین افسانے
عبداللہ جاوید
جمع و ترتیب:ارشد خالد، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
چھت سے گرنے والی(اقتباس)
آندھی چلی تھی، تیز، بہت تیز۔۔ ہوا کے بدن میں بھوت اتر کر لڑ رہے تھے۔ ہلکے ہلکے جھونکے، جھکّڑوں میں بدل کر، چنگھاڑ چنگھاڑ کر، ایک دوسرے پر وار کرتے، آپس میں گتھم گتھا ہوتے۔۔ اڑ رہے تھے۔ اڑنے کے دوران ہر اس چھوٹی بڑی چیز کو اڑا رہے تھے، جو ان کی زد میں آتی۔ پیڑ، پکھیرو، جھوپڑ، چھپر، چھت، ستون، کھمبے اور آدم زادوں کا پھیلا ہوا کاٹھ کباڑ۔۔جس سمے میں نے اس کو بلندی سے نیچے گرتے دیکھا، آندھی تھم کر غبار کی صورت فضا میں آویزاں ہو گئی تھی۔ سیاہ و سپید دھند کا آمیزہ ساجو دکھاتا کم اور چھپاتا زیادہ یا۔۔ نیم خواب نیم بیداری کی ملی جلی کیفیت۔ ایسی کیفیت جس کا رشتہ اس ماحول سے، اس فضا سے یا خود میرے اندرون سے تھا۔ اصل معاملہ یا مسئلہ یہی تھا کہ سب کچھ غیر واضح تھا۔ اگر کچھ صاف اور واضح تھا تو اس کا گرنا تھا۔ عمارت کی وہ چھت جس پر چلتے ہوئے، کافی بلندی سے وہ نیچے گری تھی، ابھی نیم تعمیر حالت میں تھی۔ پہلا سوال تو یہ پیدا ہو رہا تھا کہ شام کے جھٹ پٹے میں وہ ہسپتال کی چھت پر کیا کر رہی تھی؟ یہی سوال میرے اپنے بارے میں پیدا ہو سکتا تھا کہ میں وہاں اس سمے کیوں موجود تھا؟ یہ دونوں سوال بعد کی پیداوار تھے، جو وقوع پذیر ہو رہا تھا، وہ یہ تھا کہ میں دوڑ رہا تھا، اس چھت پر جو پوری طرح بنی بھی نہیں تھی۔ اس پر دوڑ نا تو رہا ایک طرف چلنا بھی آسان نہیں تھا لیکن میں چھلانگیں لگاتا اور ہر رکاوٹ کو پھلانگتا ہوا اس نیم پختہ زینے کی جانب جلد سے جلد پہنچنا چاہ رہا تھا جو مجھے نچلی منزلوں تک لے جا سکتا تھا، تاکہ اس تک پہنچ سکوں۔ وہ جو میری نظروں کے سامنے چوتھی منزل کی چھت سے نیچے گر پڑی تھی، اگرچہ میں جانتا تھا کہ جب تک میں نیچے پہنچوں بہت تاخیر ہو چکی ہو گی۔ پھر بھی میں یہ چاہتا تھا کہ زینہ جلد آ جائے، لیکن زینے پر قدم رکھتے ہی مجھے احساس ہو گیا کہ میں غلط زینے پر تھا۔ یہ وہ زینہ نہیں جس پر چڑھ کر میں ہسپتال کی چھت پر آیا، اپنے یار انجینئر راجا اکرم سے ملاقات کرنے، جس کے بارے میں نیچے اطلاع ملی تھی کہ وہ چھت پر ہو سکتا تھا۔ جیسے ہی میں زینے سے راہداری میں پہنچا، مجھے معلوم ہو گیا کہ میں ہسپتال کی عمارت کی پشت پر نرسوں کی اپارٹمنٹ کی عمارت میں اتر پڑا تھا۔ دوڑتا ہوا جب میں ایلیویٹر کی جانب گیا تو دو نرسیں چیختی چلاتیں میرے پیچھے دوڑیں۔ پتہ نہیں کیوں وہ فوراً ہی رک بھی گئیں ؟ میں آرام سے ایلیویٹر کے ذریعے نیچے اتر گیا۔ نیچے انتہائی ناساز گار حالت کا سامنا تھا۔ شور ہی شور تھا۔ راستے پر ایک ٹریکٹر کھڑا تھا جو رکا ہونے کے باوجود شور کر رہا تھا۔ کسی اللہ کے بندے کے ذہن میں یہ خیال نہیں آ رہا تھا کہ اس کو بند کر دے۔ قدرے فاصلے پر فولادی سریوں سے لدا ہوا ایک ٹرک کھڑا تھا، جس کے باہر دو آدمی کسی معاملے پر بلند آواز میں بحث کر رہے تھے۔ ان دونوں سے قطع نظر کر کے میں اس نرس کی جانب گیا جو شاید ہسپتال کے شعبہ حادثات سے آ رہی تھی۔
٭٭٭