صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


تزکیہ - قرآن کی ایک اصطلاح

سید جلال الدین عمری


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

معنیٰ و مفہوم 

    ’تزکیہ‘ کا مادہ (اصل) زکیٰ ہے۔ اس کے معنی ہیں بڑھنا، نشو و نما پانا، خیر و صلاح اور تقویٰ کا پایا جانا، عبادت اور پاکیزگی کا حاصل ہونا۔ اس میں خود ستائی اور اپنی نیکی کے اظہار و اعلان کے معنی بھی پائے جاتے ہیں۔ ان تمام ہی معنوں میں قرآن و حدیث میں اس کا استعمال ہوا ہے۔ ۱؎
    اس پہلو سے تزکیہ یہ ہے کہ آدمی کی فکری و عملی کمزوریاں، جو اسے پستی اور زوال کی طرف لے جاتی ہیں دور ہوں اور اس کے اندر صحیح فکر اور اخلاق و تقویٰ کی خوبیاں جلوہ گر ہوں، جن سے اس کی شخصیت کا ارتقا ہو سکتا اور وہ اعلیٰ مدارج طے کر سکتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا۔ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہا(الشمس: ۹-۱۰)
یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔
    یہاں تزکیہ کے بالمقابل ’تدسیہ‘ کا لفظ آیا ہے۔ ’تزکیہ‘ میں نشوونما پانے اور ابھرنے کا تصور ہے اس کے برخلاف ’تدسیہ‘ یہ ہے کہ کسی چیز کو ابھرنے نہ دیا جائے اور اسے دبا دیا جائے۔ زمخشری کہتے ہیں :
التزکیۃ الإنماء والإعلاء بالتقویٰ والتدسیۃ النقص والإخفاء بالفجور ۲؎
تزکیہ کے معنی ہیں تقویٰ کے ذریعہ شخصیت کو نمو دینا اور بلند کرنا۔(اس کے برعکس) فسق و فجور کے ذریعہ شخصیت میں نقص پیدا کرنے اور اسے چھپا دینے کا نام ’تدسیہ‘ ہے۔
    اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کا اپنی شخصیت کو نیکی اور تقوی کے ذریعہ اوپر اٹھانا ’تزکیہ‘ ہے۔ ’تدسیہ‘ یہ ہے کہ آدمی ضلالت و گم رہی اور اخلاقی پستی میں پڑا رہے اور اپنی شخصیت کو ابھرنے نہ دے۔
٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول